ایک تھریڈ ہماری نظروں سے گذرا، اور دیوبندی ناصبیوں کا منافقانہ معیار آشکارہ ہوا۔ سوچا کہ شئیر کر لوں
لکھتے ہیں
Quote
اسی لئے شہادت حسین رضی اللہ عنہ ایک تاریخی واقعہ ہے، اور وہی تاریخی روایت قابل قبول ہونی چاہئے جو محدثین حضرات کے سخت اصولوں کے چھلنی میں گزر کر قبول عام کی سند حاصل کرے ورنہ ایسی تمام روایات ، دیوار پر مار دینی چاہیئے۔ اسکو ایک عقیدت اور جذباتی ٓنکھ سے دیکھنے کی عادت کو اب ترک کردینا چاہیے، کیونکہ اس سے دین اسلام کی ابتدائی زمانے ، جسکو بقول ہادی برحق خیر القرون کا زمانہ کہا جاتا ہے، ایک نہایت ہی گھناؤنا او ر مکروہ چہرہ نظر آتا ہے۔(ماخوذ تجلی دیوبند)
یعنی کمال یہ ہے کہ تاریخ کے لیے مورخین کے اقوال کو معیار بنانے کی بجائے، محدیثین کے سخت اصولوں کو معیار بنانے کی بات کی جا رہی ہے، اور ایسی روایات کہ جن کو قبول عام کی سند حاصل نہ ہو، انہیں دیوار پر مارے جانے کی بات کی جا رہی ہے۔
چلیے، مان لیتے ہیں کہ آپ تاریخ میں بھی معتبر اقوال ماننا چاہ رہے ہیں۔ مگر پھر انصاف تو یہ ہے کہ آپ خود بھی ایسی ہی روایات استعمال کریں۔
مثال کے طور پر ایک اور تھریڈ میں اسی تجلی دیوبند نامی تحریر سے نقل کیا گیا
Quote
ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت موجود ہے کہ جب قرآن کی مندرجہ آیت اتری متعہ قطعا ممنوع ٹہرا۔والذین ھم لفروجھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الفائزون
جس روایت کو نقل کیا جا رہا ہے، دیکھتے ہیں کہ شیخ ناصر الدین البانی نے اس کے متعلق کیا کہا
صحيح وضعيف سنن الترمذي، جلد ۳، صفحہ ۱۲۲، میں ہمیں ملتا ہے
1122 حدثنا محمود بن غيلان حدثنا سفيان بن عقبة أخو قبيصة بن عقبة حدثنا سفيان الثوري عن موسى بن عبيدة عن محمد بن كعب عن ابن عباس قال إنما كانت المتعة في أول الإسلام كان الرجل يقدم البلدة ليس له بها معرفة فيتزوج المرأة بقدر ما يرى أنه يقيم فتحفظ له متاعه وتصلح له شيئه حتى إذا نزلت الآية ( إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم ) قال ابن عباس فكل فرج سوى هذين فهو حرام .
تحقيق الألباني :
منكر ، الإرواء ( 1903 ) ، المشكاة ( 3158 / التحقيق الثاني )
جی قارئین! یہاں پر ہمیں منکر کے لفظ مل رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں موسى بن عبيدة نامی راوی آتا ہے۔ اس کے متعلق تہذہب التہذیب کی ۱۰ویں جلد میں ابن حجر لکھتے ہیں
وقال البخاري قال أحمد منكر الحديث
بخاری نے کہا کہ احمد نے کہا کہ اس کی حدیث منکر ہیں
نیز
وسمعت أحمد بن حنبل يقول لا يكتب حديثه وحديثه منكر
اور احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اس کی حدیثیں نہ لکھو، اور اس کی حدیث منکر ہے
اسی طرح
وقال علي بن المديني موسى بن عبيدة ضعيف الحديث حدث بأحاديث مناكير
علی بن مدینی نے کہا کہ حدیث میں ضعیف ہے، اور منکر حدیثیوں کی روایت کرتا ہے
یہ بھی ہے کہ
وقال أبو حاتم منكر الحديث
ابو حاتم نے کہ منکر الحدیث ہے
اس کے علاوہ بھی کئی لوگوں نے ان پر جرح کی، تاہم ہم صرف ابن حجر کے قول پر اکتفا کرتے ہیں جو انہوں نے تقریب التہذیب کی دوسری جلد، صفحہ ۲۲٦، پر دی ہے، اور اسے ضعیف کہا ہے
یعنی جب شہادت امام حسین علیہ السلام کی بات آئے، تو معیار بقول ان کے
جو محدثین حضرات کے سخت اصولوں کے چھلنی میں گزر کر قبول عام کی سند حاصل کرے
مگر جب اپنی پسند کی چیز آئے، تو منکر الحدیث کی روایت بھی قابل قبول ہے
اس کو دیوار پر مارنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب منافقت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment