Friday, February 21, 2014

نبی کے وارث ان کے اہلخانہ ہیں: ابو بکر

 
ہم ابو بکر کی زبانی یہ قول دیکھائیں گے کہ نبی کے اہلخانہ ان کے وارث ہیں۔ اس مقصد کے لیے، ہم مسند احمد کے اردو ترجمہ کی طرف رجوع کریں گے، اور انہی کے ترجمہ سے استفادہ کریں گے
 
 
مسند احمد، اردو ترجمہ، جلد ۱، صفحہ ۷۷، روایت ۱۴؛ میں آتا ہے کہ 
 
 
ابو الطفیل کہتے ہیں کہ جب نبی کا وصال مبارک ہو گیا تو حضرت فاطمہ نے حضرت صدیق اکبر کے پاس ایک قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا کہ نبی کے وارث آپ ہیں یا نبی کے اہل خانہ؟ انہوں نے جواب فرمایا کہ نبی کے اہلخانہ ہی ان کے وارث ہیں۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا تو پھر نبی کا حصہ کدھر ہے؟ حضرت صدیق اکبر نے جواب دیا کہ میں نے خود جناب رسول اللہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ جب اللہ تعالی اپنے نبی کو کوئی چیز کہلاتا ہے پھر انہیں اپنے پاس بلا لیتا ہے تو اس کا نظم و نسق اس شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو خلیفہ وقت ہو، اس لیے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس مال کو مسلمانوں میں تقسیم کر دوں۔ یہ تفصیل سن کو حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ نبی سے جو آپ نے سنا ہے، آپ اسے زیادہ جانتے ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اس کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیا 
 
 
عربی متن یوں ہے
 


Quote
 
رقم الحديث: 14
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد بن أبي شيبة ، وسمعته من عبد الله بن أبي شيبة ، قال : حدثنا محمد بن فضيل ، عن الوليد بن جميع ، عن أبي الطفيل ، قال : لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم أرسلت فاطمة إلى أبي بكر : أنت ورثت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، أم أهله ؟ قال : فقال : لا ، بل أهله ، قالت : فأين سهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال : فقال أبو بكر : إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، يقول : " إن الله عز وجل ، إذا أطعم نبيا طعمة ، ثم قبضه جعله للذي يقوم من بعده " ، فرأيت أن أرده على المسلمين ، قالت : فأنت ، وما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، أعلم .
 

 
 
یاد رہے کہ مترجم کا یہ کہنا کہ 
 

Quote
 
 چنانچہ اس کے بعد انہوں نے اس کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیا

 
 
 
 
سخت تحریف ہے، اور دھوکے بازی کی انتہا ہے
 
 
عربی متن میں یہ کہاں لکھا ہے؟
 
 
خیر
 
پہلے اس روایت کے معتبر ہونے کا بیان کر دیں۔پھر آپ کو دکھاتے ہیں کہ کس کس طرح اس روایت میں تحریف کی گئی
 
 
شیخ احمد شاکر مسند احمد پر اپنی تحقیق کے جلد ۱، صفحہ ۱۷۱؛ میں فرماتے ہیں کہ 
 
سند صحیح ہے
 
 
اس روایت کو ضیا مقدسی نے اپنی الاحادیث المختارہ، جلد ۱، صفحہ ۱۲۹-۱۳۰؛ روایت نمبر ۴۲ اور ۴۳؛ میں بھی درج کیا، اور کتاب کے محقق، عبدالملک دھیش نے دونوں روایات کو صحیح سند کہا ہے
 
 
یہ روایت مسند ابو یعلی، جلد ۱، صفحہ ۴۰، روایت نمبر ۳۷؛ میں بھی درج ہے، اور کتاب کے محقق، شیخ حسین سلم اسد فرماتے ہیں کہ 
 
رجالہ رجال الصحیح؛ یعنی اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں
 
 
گویا، اس کے راویان کی حدیث کو صحیح حدیث کا درجہ ملتا چاہیے
 
 
مگر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ علمائے اہلسنت اس کو اتنے آرام سے ہضم کر سکیں گے؟ جبکہ اس روایت سے یہ بات واضح ہے کہ نبی پاک کے وارث تھے
 
 
ظاہر ہے کہ نہیں
 
 
اب آپ ملاحظہ کریں کہ شیخ شعیب الارناوط، جو کافی مشہور عالم ہیں، اور انہوں نے بھی مسند احمد پر تحقیق کی ہے، دیکھیے وہ کیا کرتے ہیں 
 
 
شیخ شعیب الارناوط، مسند احمد کی اپنی تحقیق، جلد ۱، صفحہ ۱۹۲ پر فرماتے ہیں 
 
 
یہ سند حسن ہے، سارے راوی ثقہ ہیں اور بخاری و مسلم کے راوی ہیں سوائے ولید بن جمیع کے؛ وہ صرف مسلم کے راوی ہیں، ان کے بارے میں کلام کیا گیا ہے، جس وجہ سے یہ روایت صحیح کے درجے سے نیچے آ گئی ہے 
 
 
عربی متن یوں ہے
 
 

Quote
 
(1) إسناده حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير الوليد بن جميع - وهو الوليد بن عبد الله بن جميع - فمن رجال مسلم، وفيه كلام يحطه عن رتبة الصحيح.


 
 
اب کوئی ان سے پوچھے کہ حضرت جی ! اگر آپ کے نظر میں ولید بن جمیع پر کیا جانے والا کلام اہمیت کا حامل ہے، تو پھر انہیں ثقہ کیوں کہا؟
 
 
اور اگر آپ انہیں ثقہ مان ہی رہے ہو تو پھر سند کو حسن کیوں کہہ رہے ہو؟
 
 
اچھا قارئین ! ہم آپ کو دوبارہ مسند احمد کی سند دکھا دیں
 
 
حدثنا عبد الله بن محمد بن أبي شيبة ، وسمعته من عبد الله بن أبي شيبة ، قال : حدثنامحمد بن فضيل ، عن الوليد بن جميع ، عن أبي الطفيل ، قال : لما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم 
 
 
اب مسند ابو یعلی کی سند دیکھیں
 
 
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا محمد بن فضيل ، عن الوليد بن جميع ، عن أبي الطفيل ، قال : أرسلت فاطمة إلى أبي بكر 
 
 
اب ہم آپ کو سنن ابی داود، جو کہ صحاح ستہ کی کتاب ہے، اس کے جلد ۳، صفحہ ۲۵۴، 
حدیث ۲۹۷۳، طبع دار ابن حزم؛ سے ایک سند دکھاتے ہیں
 
 
حدثنا عثمان بن أبي شيبة ، حدثنا محمد بن الفضيل ، عن الوليد بن جميع ، عن أبي الطفيل، قال
 
 
سند میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک طرف ابوبکر ابن ابی شیبہ ہے، جن کا نام عبد الله بن محمد بن القاضي أبي شيبة؛ ان سے روایت کی ہے ابو یعلی اور امام احمد نے؛ جو کہ ہم نے دکھائی۔
 
 
ابو داود نے روایت لی ہے ان کے بھائی سے، جو کہ عثمان بن ابی شیبہ ہے۔ یہ بخاری و مسلم کے استاد ہیں۔ ذہبی نے ان کے لیے سیر اعلام نبلا، جلد ۱۱، صفحہ ۱۵۱؛ میں فرمایا کہ یہ امام، حافظ کبیر اور مفسر ہیں۔۔۔۔۔
 
 
عربی متن یوں ہیں

Quote
 
عثمان بن أبي شيبة ( خ، م، د، ق) هو الإمام الحافظ الكبير المفسر، أبو الحسن ، عثمان بن محمد بن القاضي أبي شيبة ابراهيم بن عثمان بن خُواستَى العبسي مولاهم الكوفي ، صاحب التصانيف ، وأخو الحافظ أبي بكر
 

 
 
ان دونوں نے یہ روایت لی ہے محمد بن فضیل بن غزوان الضبی سے۔ یہ بھی ثقہ راوی ہیں، اور صحاح ستہ کے راوی ہیں
 
 
انہوں نے یہ روایت ان دو بھائیوں کے علاوہ دیگر لوگوں سے بھی بیان کی، اور ابو بکر کو قول کہ نبی کے اہلخانہ ہی ان کے وارث ہیں، ان میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، جلد ۱، صفحہ ۱۲۴، حدیث ۵۴؛ میں یوں بیان ہوا
 


Quote
 
54 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ قَالَ: نا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: أَرْسَلَتْ فَاطِمَةُ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهَا إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللَّهِ أَنْتَ وَرِثْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْ أَهْلُهُ؟ قَالَ: بَلْ أَهْلُهُ، قَالَتْ: فَمَا بَالُ سَهْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا أَطْعَمَ اللَّهُ نَبِيًّا طُعْمَةً، ثُمَّ قَبَضَهُ فَهُوَ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ، فَرَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّهُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ» فَقَالَتْ: أَنْتَ وَرَسُولُ اللَّهِ أَعْلَمُ 
 

 
 
اب اس میں یہ روایت عبداللہ بن سعید الکندی نے یہ روایت لی، یہ بھی ثقہ ہیں، اور صحاح ستہ کے راوی ہیں، بشمول صحیح بخاری و مسلم
 
 
یعنی یہ سند بھی صحیح ہے، اور کندی نے یہ روایت محمد بن فضیل سے لی ہے
 
 
اور اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ابو بکر کا قول موجود ہے کہ نبی کے وارث ان کے اہلخانہ ہیں
 
 
گویا انہوں نے روایت بیان کرنے میں کوئی تحریف نہیں کی
 
 
اب آتے ہیں ابوداود میں موجود متن کی جانب
 
 
ابی داود نقل کرتے ہیں کہ 
 
 
ابو طفیل فرماتے ہیں کہ بی بی فاطمہ ابو بکر کے پاس آئیں  نبی کی میراث طلب کرنے، تو ابو بکر نے کہا کہ میں نے نبی سے سنا کہ وہ کہتے ہیں کہ جب اللہ اپنے نبی کو کھلاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
 
 
عربی متن یوں ہے


Quote
 
 حدثنا عثمان بن أبي شيبة ، حدثنا محمد بن الفضيل ، عن الوليد بن جميع ، عن أبي الطفيل ، قال : جاءت فاطمة رضي الله عنها إلى أبي بكر رضي الله عنه تطلب ميراثها من النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : فقال أبو بكر رضي الله عنه : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " إن الله عز وجل إذا أطعم نبيا طعمة فهي للذي يقوم من بعده " 

 
 
آفرین ہے 
 
 
ابو بکر کا کہنا کہ نبی کے وارث ان کے اہلخانہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   سب غائب
 
 
 
اب یا تو سنی امام، حافظ کبیر عثمان بن ابی شیبہ نے اس روایت میں ڈنڈی ماری ہے
 
یا پھر ابی داود نے
 
 
کس نے تحریف کی
 
 
یہ تو اہلسنت کے عوام اپنے علماء سے پوچھیں
 
 
بہر کیف ! تحریف تو ثابت ہے
 

No comments:

Post a Comment