Saturday, May 2, 2015

حدیث عشرہ مبشرہ کا تنقیدی جائزہ



السلام علیکم

عشرہ مبشرہ میں شمار ہونے والے ایک مشہور صحابی، حضرت سعد بن ابی وقاص سے صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ایک روایت آتی ہے

 ‏عن ‏ ‏عامر بن سعد بن أبي وقاص ‏ ‏عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏قال ‏ما سمعت النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏لأحد يمشي على الأرض إنه من أهل الجنة إلا ‏ ‏لعبد الله بن سلام

سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہیں سنا کہ انہوں نے زمین پر چلنے والے کسی ایک سے سنا ہو کہ اہل جنت میں ہے سوائے عبداللہ بن سلام کے

یہ روایت، دونوں صحیحین کے فضائل الصحابہ میں درج ہے

اب کہنے والے کہہ سکتے ہیں، اور بات میں وزن بھی ہے، کہ سعد بن ابی وقاص نے یہ نہیں کہا کہ نبی اکرم نے کہا نہیں، بلکہ یہ کہا کہ انہوں نے نہیں سنا

مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ روایت اس شخص کی ہے کہ جو خود عشرہ مبشرہ میں شمار ہوتے تھے

کیا کوئی ذی شعور یہ مان سکتا ہے کہ انہیں کسی نے بتایا ہی نہیں کہ جناب! آپ بھی اس لسٹ میں ہیں؟

خیر

بخاری و مسلم کی اس متفقہ حدیث کے بعد ہم نے سوچا کہ ہم اس حدیث عشرہ مبشرہ کی سندوں کا ذرا جائزہ لیا لیں

اس ضمن میں ہم برادر ناصر الحسین کی عربی تحقیق سے استفادہ کر رہے ہیں جو کہ آپ اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں

پہلی سند

ان میں سب سے مضبوط سند میرے خیال میں یہ والی ہے، جو مسند احمد میں امام احمد نے درج کی، اور مشہور محقق، شیخ شعیب الارناوط نے اسے صحیح کہا

1629 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ صَدَقَةَ بْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي رِيَاحُ بْنُ الْحَارِثِ: أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ

اس روایت کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں صحابہ کل ۹ شمار ہوئے ہیں، اور نبی اکرم کا ۱۰ واں شمار کیا گیا ہے

خیر چونکہ ہمارا مقصد اس روایت میں مذکور افراد کی تعداد کا تعین ہیں نہیں، اس وجہ سے ہم اس پر مزید بات نہیں کرتے کہ یہ ہیں کتنے

سند کی طرف آئیں

سند میں ایک نام ملتا ہے، ریاح بن حارث کا

اس شخص کی توثیق کل ملا کر ۲ لوگوں نے کی ہے

یعنی، عجلی و ابن حبان

ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں ان کے بارے میں کہا

میں عربی نقل کر رہا ہوں، اور ان دونوں افراد کی توثیق دکھاتا ہوں

[559] د س ق أبي داود والنسائي وابن ماجة رياح بن الحارث النخعي وأبو المثنى الكوفي يقال أنه حج مع عمر وروى عن بن مسعود وعلي وسعيد بن زيد وعمار بن ياسر والحسن بن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنهم والأسود بن يزيد وعنه ابنه جرير وحفيده صدقة بن مثنى بن رياح والحسن بن الحكم النخعي وأبو جمرة الضبعي وعدة ذكره بن حبان في الثقات قلت وقال العجلي كوفي تابعي ثقة

اچھا، اب کمال یہ ہے کہ عجلی اور ابن حبان اہلسنت کے کئی علمائے رجال کی نظر میں متساہل ہیں، حتی کہ اگر یہ دوںوں بھی کسی کو ثقہ کہہ دیں، تو اسے صرف مقبول کا درجہ دیا جاتا ہے

یعنی اس کی سند بذاتِ خود صحیح کے درجے پر تو دور، حسن کے درجے پر بھی نہیں پہنچے گی

اور اس ضمن میں آپ ابن حجر کی کتاب، تقریب التہذیب میں دیے گئے  کئے راویان ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ جن کی توثیق صرف ان دو نے کی، اور ابن حجر نے انہیں مقبول کہا

ہاں، ایک مثال کچھ یوں بھی ملتی ہے کہ توثیق صرف ان ۲ نے کی، اور انہوں نے اسے ثقہ کہا

مثال لیں یسیر بن عمیلہ کی

ابن حجر یوں لکھتے ہیں

7809- يسير ابن عميلة بفتح المهملة وكسر الميم الفزاري ويقال له أسير أيضا ثقة من الثالثة ت س

مگر اسی شیخ شعیب کی ایک تالیف ہے بشار عواد معروف کے ساتھ مل کر، تحریر تقریب التہذیب، جس میں انہوں نے ابن حجر کے اقوال درج کیے، اور اس کے بارے میں اپنی رائے لکھی

اس کتاب کے جلد ۴، صفحہ ۱۲۴، پر یسیر کے بارے میں کہتے ہیں

بل : مقبول في المتابعات والشواهد، فقد روى عنه اثنان فقط، ووثقه العجلي على ما هو معروف من تساهله في توثيق الكوفيين، وذكره ابن حبان في الثقات

یعنی، یہ صرف تب قابلِ قبول ہیں کہ جب متابعات اور شواہد ہوں، عجلی نے نے انہیں ثقہ کہا، اور وہ کوفیوں کی توثیق میں متساہل ہیں، اور ابن حبان نے انہیں ثقہ کہا

اب ذرا دوبارہ یاد کر لیں کہ ریاح بن حارث بھی کوفی ہے

اس نقطہ کے مطابق یہ بھی ثقہ نہیں رہتے
پھر سند صحیح کیونکر؟؟؟

دوسری سند

ابو داود اپنی سنن میں یہ سند درج کرتے ہیں

4649 حدثنا حفص بن عمر النمري حدثنا شعبة عن الحر بن الصياعن عبد الرحمن بن الأخنس أنه كان في المسجد فذكر رجل عليا

اس میں ایک راوی ہیں عبدالرحمن بن اخنس، ان کے بارے میں ذہبی اپنی کتاب، المغنی فی ضعفاء، ۲/۳۷۵، میں کہتے ہیں

3521 - عبد الرَّحْمَن بن الْأَخْنَس لَا يعرف

گویا، یہ مجہول ہیں

شیخ شعیب نے بھی تحریر تقریب التہذیب، ۲/۳۰۵، پر انہیں مجہول الحال کہا ہے

تاہم، اس روایت کی دلچسپ بات یہ کہ اس میں بھی نبی پاک کو عشرہ میں شمار کیا گیا ہے، بلکہ آغاز ہی ان سے ہے

ابو عبیدہ کا نام غائب ہے

تیسری سند

ترمذی یہ سند لکھتے ہیں

حدثنا قتيبة ، حدثنا عبد العزيز بن محمد ، عن عبد الرحمن بن حميد ، عن أبيه ، عن عبد الرحمن بن عوف ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :

اس سند میں عبدالعزیز بن محمد آتے ہیں

انکا مکمل نام ہے

عبد العزيز بن محمد الدراوردي

اچھا اب کچھ علما نے ان کی تعریف کی، کچھ نے جرح

اب اصول یہ ہے کہ اگر وجہ بتا کر جرح کی جائے، تو اسے جرح مفسر کہتے ہیں

اور یہ جرح مقدم ہوتی ہے تعدیل پر

ان کے بارے میں امام احمد کہتے ہیں

وقال أحمد بن حنبل: إذا حدث من حفظه يهم، ليس هو بشيء، واذا حدث من كتابه فنعم.

کہ جب یہ اپنے حافظے سے حدیث بیان کرتے ہیں، تو وہم کرتے ہیں، اور وہ کچھ بھی نہیں، اور جب وہ اپنی کتاب سے نقل کریں، تو پھر ٹھیک ہے

اسی طرح مزید کہتے ہیں

وقال أحمد أيضاً: إذا حدث من حفظه جاء ببواطيل. «الميزان» (5125)

جب وہ اپنے حافظے سے بیان کریں تو باطل بیانات آتے ہیں

دیکھیے موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعللهم جلد ۲، صفحہ ۳٦۹

اس کے علاوہ ابو زرعہ نے کہا

وقال أبو زرعة سيء الحفظ ربما حدث من حفظه الشيء فيخطيء

ابو زرعہ نے کہا جب یہ اپنے حافظے سے بیان کریں تو خطا کرتے ہیں

اب یہ کیسے ثابت ہو گا کہ وہ یہ حدیث اپنی کتاب سے نقل کر رہے تھے؟

یاد رہے کہ اس روایت میں ہمیں نبی پاک کی بجائے ابو عبیدہ کا نام ملتا ہے
یہ تو ایک چیز الگ ہوئِ اوپر والی روایات سے

دوسرا یہ کہ خود سند کے لحاظ سے بھی اس میں ایک مسئلہ آتا ہے جو کہ ثابت کرتا ہے کہ اس میں اضطراب ہے

اگلی سند جو ترمذی نے لکھی وہ یوں ہے

 أخبرنا أبو مصعب قراءة ، عن عبد العزيز بن محمد ، عن عبد الرحمن بن حميد ، عن أبيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه ، ولم يذكر فيه عن عبد الرحمن بن عوف 

یعنی ابو مصعب احمد بن ابو بکر قرشی نے یہ روایت کی عبدالعزیز سے، مگر یہاں عبدالرحم بن عوف نہیں ہیں، بلکہ مرسل انداز سے روایت ہوئی 

اس کے علاوہ العلائی اپنی کتاب جامع التحصیل فی احکام مراسیل، صفحہ ۲۲۸، پر ایک روایت درج کرتے ہیں، جس میں یہ صاحب ابن جریج سے نقل کرتے ہیں، اس پر العلائی قیبہ بن سعید کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے ابن جریج سے سنا ہی نہیں۔ عربی متن یوں ہے

463 - عبد العزيز بن محمد الدراوردي روى عن عبد الملك بن جريج عن عطاء عن بن عباس قال ما كنا نعرف انقضاء السورة أظنه حتى نسمع بسم الله الرحمن الرحيم قال قتيبة بن سعيد لم يسمع الدراوردي هذا الحديث من بن جريج

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ تدلیس کرتے تھے، اور مدلس کے لیے ضروری ہے کہ وہ حدیث بیان کرتے وقت واضح کرے کہ اس نے حدیث سنی، نہ کہ صرف کہے عن

اور ان کے سب اقوال میں عن ہی کا صیغہ ملتا ہے

چوتھی سند

ترمذی نے ایک اور سند بھی درج کی 

حدثنا صالح بن مسمار المروزي ، حدثنا ابن أبي فديك ، عن موسى بن يعقوب ، عن عمر بن سعيد ، عن عبد الرحمن بن حميد ، عن أبيه ، أن سعيد بن زيد حدثه في نفر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم 

اس سند میں موسی بن یعقوب الزمعی آتے ہیں- ان کے بارے میں شیخ شعیب نے تحریر تقریب التہذیب، ۳/۴۴۱ میں یہ کہا کہ یہ ضعیف ہیں اور ان کا اعتبار صرف شواہد و متابعات کی روشنی میں ہو گا

دوسرا اس میں عمر بن سعید بن سریج آتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں ملتا ہے کہ زہبی نے انہیں لین کہا، دارقطنی نے ضعیف کہا، ابو حاتم رازی نے مضطرب الحدیث کہا

پانچویں سند


طبرانی نے معجم الاوسط میں یہ سند نقل کی

حدثنا أحمد بن محمد الخزاعي الأصبهاني قال : نا محمد بن بكير الحضرمي قال : نا ثابت بن الوليد بن عبد الله بن جميع القرشي قال : حدثني أبي ، عن أبي الطفيل ، عن سعيد بن زيد ، وكان بدريا ، أنه كان جالسا مع المغيرة بن شعبة 

اس سند میں ثابت بن ولید آتے ہیں جنہیں ابن عدی نے اپنی الکامل الضعفاء، ۲/۲۹۸، میں شامل کیا ہے 

چھٹی سند 

طبرانی اپنی معجم الاوسط میں یوں درج کرتے ہیں

حدثنا عبد الله بن وهيب الغزي قال : نا محمد بن أبي السري ، فقال : نا عطاء بن مسلم الخفاف ، عن الحسن بن صالح ، عن زياد بن علاقة قال : كنت عند المغيرة بن شعبة ، فذكر عنده علي ، فقال سعيد بن زيد

اس سند میں عبداللہ بن وھیب مجہول ہیں

محمد ابن ابی سری پر جرح بھی ہے، تاہم تعدیل بھی

عطاء ابن مسلم کو شیخ شعیب نے تحریر تقریب التہذیب میں ضعیف کہا ہے 

ساتویں سند

حمیدی اپنی مسند میں درج کرتے ہیں

حدثنا سفيان ، حدثنا حصين بن عبد الرحمن السلمي ، عن هلال بن يساف ، عن ابن ظالم ، عن سعيد بن عمرو بن نفيل ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم

اس سند میں سفیان بن عینیہ حصین سے روایت لے رہے ہیں

یہ نکتہ اہم ہے کیونکہ اس پر تو دلیل موجود ہے کہ سفیان ثوری نے ان کے حافظہ کمزور ہونے سے پہلے روایت کی، مگر ابن عینیہ کے بارے میں ایسا کچھ نہیں ہے 

یاد رہے کہ ابو حاتم رازی وغیرہ نے یہ لکھا ہے کہ آخری عمر میں ان کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا

دوسرا یہ کہ اس میں عبداللہ بن ظالم ہے جن کو عقیلی نے اپنی الضعفاء الکبیر ، ۲/۲٦۷، میں درج کیا، اور بخاری کو نقل کیا کہ وہ ان کی سعید بن زید کی روایت کو صحیح نہیں کہتے تھے 

عربی متن یوں ہے

827 - عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ظَالِمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ. حَدَّثَنِي آدَمُ بْنُ مُوسَى قَالَ: سَمِعْتُ الْبُخَارِيَّ قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَصِحُّ

آٹھویں سند

تمام بن محمد رازی اپنی فوائد میں یہ سند درج کرتے ہیں

حدثني أبو الوليد بكر بن شعيب بن بكر بن محمد القرشي في آخرين قالوا : ثنا أبو الحسن محمد بن محمد بن عون بن الحسن الوحيدي ، ثنا عمي محمد بن الحسن ، ثنا عبد الله بن يزيد البكري ، ثنا عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر

اس سند میں ابو ولید اور محمد بن محمد بن عون مجہول ہیں

جبکہ عبداللہ بن یزید بکری کے باے میں ابو حاتم رازی نے کہا کہ یہ ضعیف الحدیث ہے
 (الجرح و التعدیل، ۵/۲۰۱)

نویں سند

ابو نعیم نے معرفۃ الصحابہ میں یہ سند درج کی ہے 

حدثناه محمد بن المظفر ، ثنا محمد بن موسى البربهاري ، ثنا محمد بن خلاد القطان ، ثنا عباد ، يعني : ابن صهيب ، ثنا سعيد بن أبي عروبة ، عن قتادة ، عن سعيد بن المسيب ، عن سعيد بن زيد بن عمرو 

اس سند میں عباد بن صہیب متروک ہے، اور اس پر الزام ہے کہ وہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا

سعيد بن أبي عروبة آخری عمر میں حافظے میں تغیر کا شکار ہو گیا تھا، نیز مدلس ہے، اور یہاں پر سند میں معنعن نقل کر رہا ہے

قتادہ بن ابن دعابہ بھی مدلس ہے اور یہاں معنعن حال میں نقل کر رہا ہے 

اس کے علاوہ اسماعیل قاضی احکام القرآن میں درج کرتے ہیں کہ علی بن مدینی قتادہ کی سعید بن مسیب سے روایات کو ضعیف کہتے تھے

دسویں سند

ابن عساکر اپنی تاریخ میں یہ سند درج کرتے ہیں

أخبرناه أبو غالب أحمد بن الحسن أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو عمر بن حيوية أنا إسحاق بن حمدان النيسابوري نا حام بن نوح نا سلم بن سالم أنا مخلد بن يزيد العتكي عن أيوب عن ابن سيرين عن سعيد بن زيد

اس سند میں حام بن نوح مجہول ہیں جبکہ سلم بن سالم پر ابو زرعہ اور ابن مبارک نے جھوٹا ہونے کا الزام لگایا

نیز، دارقطنی نے انہیں الضعفاء و المتروکین میں درج کیا

گیارہویں سند

رافعی نے یہ سند اپنی کتاب التدوين في أخبار قزوين میں درج کی 

 أنبا أحمد ابن علي المقرىء ثنا محمد بن إبراهيم البوشنجي ثنا عمر بن هارون المستملي ثنا عدي بن الفضل عن عبد الله بن عمر عن الزهري عن أنس

اس سند میں عمر بن ہاروں مستملی تصحیف ہے
غالبا یہ  عمار بن هارون المستملي ہیں جن پر ابن عدی نے حدیثیں چوری کرتے کا الزام لگایا ہے 

اور عدی بن فضل متروک ہیں جیسا کہ ابن حجر اور ذہبی نے لکھا ہے 

بارہویں سند

بزار نے یہ سند درج کی ہے 

حدثنا حمزة بن عون المسعودي ، قال : نا محمد بن القاسم الأسدي ، عن سفيان ، وشريك ، وابن عياش ، عن عاصم ، عن زر بن حبيش ، عن علي

اس سند میں حمزہ بن عون مجہول ہیں

اور محمد بن قاسم کو امام احمد نے ضعیف کہا ہے، نیز اس کی روایات کو موضوع کہا 

نسائی نے متروک کہا

اوروں نے بھی جرح کی 

تیرہویں سند

طبرانی نے معجم الکبیر میں یہ سند درج کی 

حدثنا أحمد بن الحسين بن عبد الملك أبو الشمقمق المؤدب ، بقصر ابن هبيرة ، حدثنا حامد بن يحيى البلخي ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن سعير بن الخمس ، عن حبيب بن أبي ثابت ، عن ابن عمر ، قال : قال رسول الله 

ابن حجر نے حبیب بن ابی ثابت کو مدلسین کے  تیسرے طبقے میں شمار کیا، جن کی روایت تب تک نہیں مانی جاتی جب تک وہ واضح نہ کر دیں کہ انہوں نے روایت سنی ہے 

نیز برادر ناصر الحسین نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ سفیان بن عینیہ بھی ضعیف راویان سے روایت لے کر تدلیس کرتے تھے 
چونکہ یہ ہمارا موضوع نہیں، اس وجہ سے ہم اس پر بات نہیں کریں گے
ان کا مقالہ آپ اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں

خلاصہ کلام  

ہم نے دیکھا کہ کوئی ایک بھی سند ایسی نہیں کہ آپ یہ کہہ سکیں کہ اس میں کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں

1 comment:

  1. Janab aap Umar ke khade hoke peshab karne aur pani istemal na karne ke bare likhiye. Us kanjar ko peshab karna bhi aata tha.

    ReplyDelete