Wednesday, May 13, 2015

عثمان بن عفان کا نظریہ عدالۃ الصحابہ کو رد کرنا



السلام علیکم

اہلسنت کے ہاں یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ جب سند ایک صحابی پر آ جائے تو اس کے بعد بات ختم ہو جاتی ہے کیونکہ وہ سب عادل ہیں

ابن شبہ اپنی کتاب، تاریخ المدینہ، ج ۴، ص ۱۱۵٦، پر ایک روایت لکھتے ہیں، 

ہم مکمل روایت کو نقل نہیں کریں گے، صرف چند جز لیں گے

ایک صحابی ہیں، ابن عدیس، وہ منبر پر چڑھے اور عثمان کے بارے میں برا بھلا کہا

روایت کہتی ہے

فَطَلَعَ ابْنُ عُدَيْسٍ مِنْبَرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَخَطَبَ النَّاسَ وَصَلَّى لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ الْجُمُعَةَ، وَقَالَ فِي خُطْبَتِهِ: أَلَا إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَنِي أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ كَذَا وَكَذَا» ، وَتَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَكْرَهُ ذِكْرَهَا

ابن عدیس منبر رسول پر آئے اور خطاب کیا، اور لوگوں کو جمعہ کی نماز پڑھائی، اور خطبے میں کہا کہ آگاہ ہو جاو، مجھے ابن مسعود نے کہا کہ انہوں نے نبی اکرم سے سنا کہ عثمان بن عفان ایسے ایسے ہیں۔انہوں نے ایسا کلام کیا کہ جو بیان کرنے سے مجھے (یعنی روای کو) کراہت ہو رہی ہے

اب راوی پہنچے عثمان کے پاس اور انہیں اس سے آگاہ کیا

عثمان نے جواب دیا 

كذب والله ابن عديس ما سمعها من ابن مسعود، ولا سمعها ابن مسعود من رسول الله ص قط

خدا کی قسم! ابن عدیس نے جھوٹ بولا، نہ انہوں نے ابن مسعود سے کچھ سنا، نہ ابن مسعود نے نبی پاک سے 

اس روایت کی سند یوں ہے

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ أَنَّهُ , سَمِعَ أَبَا ثَوْرٍ التَّمِيمِيَّ 

اور اس سند پر بنیادی اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس میں ابن لھیعہ ہے جو کہ اختلاط کر گیا تھا، اور مدلس ہے 

تاہم اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ علمائے اہلسنت، متقدمین و متاخرین نے اس  بات کو تسلیم کیا ہے کہ اگر  ان سے روایت کرنے والے عبادلہ ہوں، جن میں عبداللہ بن وہب شامل ہیں، تو سند صحیح ہے 

متقدمین میں یہ بیان عبدالغنی بن سعید اور ساجی کے حوالے سے ابن حجر نے بیان کیا ہے 

الفاظ یوں ہیں

قال عبد الغنى بن سعيد الأزدى : إذا روى العبادلة عن ابن لهيعة فهو صحيح : ابن المبارك ، و ابن وهب ، و المقرىء . و ذكر الساجى و غيره مثله

متاخرین میں شیخ البانی نے سلسلہ احادیث صحیحیہ، ۱/۱۵۴، پر یہی بات نقل کی ہے 

و ابن لهيعة و إن كان ضعيفا لسوء حفظه فإن رواية العبادلة عنه يصحح حديثه كما جاء في ترجمته ، و هذا من رواية اثنين منهم ، و هما : أبو عبد الرحمن و اسمه عبد الله بن يزيد المقري ، و عبد الله بن وهب 

یہی قول شعیب الارناوط اور بشار عواد نے اپنی تحریر تقریب التہذیب، ۲/۲۵۸ میں لکھی ہے 

جہاں تک تدلیس کا سوال ہے،اس میں گذارش یہ ہے کہ یہ اعتراض صرف ابن حبان کا ہے،جس کو نہ تو ابن حجر نے تقریب التہذیب میں کوئی خاص وقعت دی، نہ ہی شیخ شعیب اور بشار عواد نے تحریر تقریب التہذیب میں

نیز یہی روایت ابن حجر نے المطالب العالیہ، ۱۱/۱۹۱، میں درج کی ہے جس میں سماع ثابت ہے 

قال أبو بكر بن أبي شيبة : ثنا زيد بن الحباب ، ثنا ابن لهيعة ، حدثني يزيد بن عمرو المعافري ، قال : سمعت أبا ثور الفهمي ، يحدث عن عبد الرحمن بن عديس البلوي ، وكان ، ممن بايع تحت الشجرة ، فصعد المنبر فحمد الله وأثنى عليه ، ثم ذكر عثمان فوقع فيه ، قال أبو ثور : فدخلت على عثمان ، وهو محصور ، فقلت : إن ابن عديس قال كذا وكذا فقال عثمان

دوسرا سند میں ابوثور تمیمی کا نام آ رہا ہے، جو کہ تصحیف ہے
اصل میں نام ابو ثور فھمی ہے، جیسا کہ المطالب العالیہ کی دی گئی مثال سے واضح ہے

نیز، یہ خود صحابی ہیں جیسا کہ ابو ذرعہ اور ابو حاتم وغیرہ نے کہا 

جہاں تک عبد الرحمن بن عديس البلوى کا سوال ہے، ان کی صحابیت بھی مسلم ہے جیسا کہ ابو حاتم، ابن حبان، ابن سعد، ابن عبدالبر، ذہبی، ابن حجر وغیرہ نے تسلیم کیا

ابن سعد نے ان کے بارے میں کہا کہ یہ صحابی ہیں، اور انہوں نے نبی پاک سے سنا بھی۔ اور یہ ان میں شامل ہیں جو عثمان کی جانب آئے، یہاں تک کہ ان کا حصار ہوا، اور وہ قتل ہوئے، اور یہ ان کے رئیسوں میں تھے

عربی متن یوں ہے :

( عبد الرحمن بن عديس البلوي، من صحب النبي، صلى الله عليه وسلم، وسمع منه، وكان فيمن رحل إلى عثمان حين حصر حتى قتل، وكان رأسا فيهم )


دیکھیے الطبقات الكبرى - ج7-ص509

خیر، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود سے سنا جنہوں نے نبی اکرم سے سنا

مگر عثمان نے اس کی مکمل تردید کی

سوال یہ ہے کہ عدالۃ الصحابہ کا نظریہ کہاں گیا؟

یہ مقالہ برادر ناصر الحیسن کی پوسٹ سے ماخوذ ہے 


No comments:

Post a Comment