Saturday, March 15, 2014

وطی فی دبر: اہلسنت کی نظر میں

 
السلام علیکم

 
کئی سارے برادران اہلسنت اس مسئلے سے آگاہ نہیں ہوتے کہ ان کے ہاں بھی ایسے علماء گذرے ہیں کہ جو اس کے اباحت و جائز ہونے کے قائل تھے، اس وجہ سے ہم نے سوچا کہ اس پر علمائے اہلسنت کے اقوال نقل کیے جائیں
 
 
ابن عربی اپنی کتاب، احکام القرآن ، جلد ۱، صفحہ ۲۳۸، طبع دار الكتب العلمية، پر فرماتے ہیں کہ 
 
 
عورتوں کے دبر میں جماع کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے ، اور کثیر گروہ نے اس کو جائز کہا ہے۔ ابن شعبان نے اپنی کتاب جماع النسوان و احکام القرآن میں انہوں جمع کیا ہے، اور اس کے جائز ہونے کو صحابہ، تابعین، مالک کی طرف کثیر روایت سے ذکر کیا ہے۔ اور بخاری نے اپنی صحیح میں ابن عمر کا قول نقل کیا ہے کہ نافع نے کہا کہ جب ابن عمر تلاوت کرتے، تو بات نہ کرتے جب تک فارغ نہ ہو جاتے، ۔ ایک دن جب سورۃ بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے، جب اس جگہ پر پہنچے، تو کہا کہ تم جانتے ہو کہ یہ کس بارے میں نازل ہوئی؟ میں نے کہا نہیں۔ کہا فلاں فلاں بارے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
عربی متن یوں ہے
 

Quote
 
الْمَسْأَلَةُ الثَّانِيَةُ: اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَازِ نِكَاحِ الْمَرْأَةِ فِي دُبُرِهَا؛ فَجَوَّزَهُ طَائِفَةٌ كَثِيرَةٌ، وَقَدْ جَمَعَ ذَلِكَ ابْنُ شَعْبَانَ فِي كِتَابِ جِمَاعُ النِّسْوَانِ وَأَحْكَامُ الْقُرْآنِ " وَأَسْنَدَ جَوَازَهُ إلَى زُمْرَةٍ كَرِيمَةٍ مِنْ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ وَإِلَى مَالِكٍ مِنْ رِوَايَاتٍ كَثِيرَةٍ، وَقَدْ ذَكَرَ الْبُخَارِيُّ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ قَالَ: " كَانَ ابْنُ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - إذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ لَمْ يَتَكَلَّمْ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهُ، فَأَخَذْت عَلَيْهِ يَوْمًا فَقَرَأَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ حَتَّى انْتَهَى إلَى مَكَان قَالَ: أَتَدْرِي فِيمَ نَزَلَتْ؟ قُلْت: لَا. قَالَ: أُنْزِلَتْ فِي كَذَا وَكَذَا، ثُمَّ مَضَى، ثُمَّ أَتْبَعَهُ بِحَدِيثِ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ: {فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ} [البقرة: 223]. قَالَ: يَأْتِيهَا فِي. . وَلَمْ يَذْكُرْ بَعْدَهُ شَيْئًا.

 
 
 
اس بارے میں ہم اپنے مقالے، بخاری اور صحیح بخاری، میں واضح کر چکے ہیں کہ یہاں پر بخاری نے تحریف کی تھی کہ جس کو خود شارح بخاری، ابن حجر نے واضح کیا، اور فتح الباری؛ جلد ۸، صفحہ ۱۹۰؛ میں جب اس کا ذکر کیا، تو کہا کہ 
  
  
قوله : ( حدثني إسحاق ) هو ابن راهويه
  
کہ بخاری کا کہنا کہ مجھ سے اسحاق نے کہا، یہ ابن راھویہ ہیں
  
  
آگے کہتے ہیں کہ
  
اسحاق ابن راہویہ نے اپنی مسند اور تفسیر میں اس سند سے لکھا، اور اس میں تبدیلی یہ ہے کہ: جب وہ اس مقام پر پہنچے؛ اس میں ہے کہ جب وہ اس قول پر پہنجے کہ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں تو جیسے چاہو، آو۔ ابن عمر بولے کہ یکا تم  جانتے ہو کہ یہ آیت کس سلسلے میں نازل ہوئی، میں بولا کہ نہیں۔ وہ بولے کہ یہ آئی کہ اپنی بیوی کی دبر میں آنا
  
عربی متن یوں ہے

  
Quote
 
 
 فقد أخرجها إسحاق بن راهويه في مسنده وفي تفسيره بالإسناد المذكور وقال بدل قوله حتى انتهى إلى مكان حتى انتهى إلى قوله نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أني شئتم فقال أتدرون فيما أنزلت هذه الآية قلت لا قال نزلت في إتيان النساء في أدبارهن وهكذا 
 

 
 
سیوطی نے اپنی تفسیر در منثور کے اردو ترجمہ، جلد ۱، صفحہ ٦۸۵؛ میں اس کی مزید وضاحت کی، اور کہا 
 
 
امام الخطیب نے رواۃ مالک میں نضر بن عبداللہ ازدی کے طریق سے عن مالک عن نافع عن عبداللہ ابن عمر کے سلسلے سے آیت کریمہ نسآوکم حرث کے متعلق روایت کی ہے کہ عبداللہ ابن عمر نے کہا مرد اگر چاہے تو قبل (فرج) میں وطی کرے، چاہے تو دبر میں
 
امام حسن بن سفیان نے اپنی مسند میں، طبرانی نے اوسط میں، حاکم اور ابو نعیم نے مستخرج میں حسن سند سے روایت کی ہے کہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ عورتوں کے دبر میں وطی کرنے کی رخصت (اجازت) کے بارے میں نازل ہوئی
 
 
سیوطی نے اس کے بعد مزید روایات لکھی ہیں، اور اگلے صفحے پر ابن عبدالبر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ 
 
 
ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ اس معنی کی ابن عمر سے روایت صحیح، معروف و مشہور ہے
 
 
اسی طرح طبری نے اپنی کتاب، اختلاف الفقہا، صفحہ ۲۰۹؛ پر بسند معتبر امام مالک سے نقل کیا کہ
 
 
مالک نے کہا کہ اس میں کوئی برائی نہیں کہ مرد عورت کی دبر میں جماع کرتے جیسے کہ اسکے قبل، یعنی فرج میں کرے
 
 
عربی متن یوں ہے


Quote
 
فقال مالك لا بأس بأن يأتي الرجل امرأته في دبرها كما يأتيها في قبلها حدثنا بذلك يونس عن ابن وهب عنه
 

 
 
اسی طرح، عمرو عبد المنعم سليم، نے اپنی کتاب، جماع النساء في الأدبار، ،کے صفحہ ۱۴۷، طبع مكتبة ابن تيمية؛ پر باب قائم کیا کہ 
 
 
مذہب امام مالک بن انس
 
یعنی  عورتوں سے دبر میں جماع کرنے کے بارے میں
 
 
اور اس میں کہتے ہیں کہ 
 
نسائی نے الکبری میں مالک سے نقل کیا کہ وہ کہتے تھے کہ میں نہیں جانتا کہ یہ حرام ہو
 
صاحب کتاب، نے اس سند کو صحیح کہا
 
مزید کہتے ہیں کہ 
 
طبری نے یونس کے طریق سے مالک سے اس کی اباحت، یعنی مباح ہونے کا قول نقل کیا
 
صاحب کتاب نے اس سند کو بھی صحیح کہا
 
 
عربی متن یوں ہے


Quote
 
اخرج عنہ النسائی فی الکبری، ۵/۳۲۵
 
اخبرنا محمد بن عبداللہ بن عمار الموصلی، قال: نا معن: سمعت مالکا یقول: ما علمتہ حرام
 
و ھذا سند صحیح لا مطعن فیہ 
 
و قد رواہ الطبری - فیما نقلہ الحافظ فی التلخیص، ۳/۲۱۲؛ - من طریق یونس بن عبدالعلی عن مالک باباحتہ۔ و سندہ صحیح ایضا
 

 
 
ابو بکر جصاص الحنفی، اپنی کتاب، احکام القرآن، جلد ۱، صفحہ ۴۲٦؛ پر کہتے ہیں کہ
 
 
مالک کے یہ مشہور ہے کہ وہ اس کو مباح کہتے تھے، مگر ان کے ساتھی اس بات کی نفی کرتے ہیں، اس کے قبیح ہونے کے سبب، مگر یہ بات اتنی مشہور ہے کہ ان کے نفی سے دور نہیں ہو گی
 
 
عربی متن یوں ہے


Quote
 
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: الْمَشْهُورُ عَنْ مَالِكٍ إبَاحَةُ ذَلِكَ وَأَصْحَابُهُ يَنْفُونَ عَنْهُ هَذِهِ الْمَقَالَةَ لِقُبْحِهَا وَشَنَاعَتِهَا، وَهِيَ عَنْهُ أَشْهُرُ مِنْ أَنْ يَنْدَفِعَ بِنَفْيِهِمْ عَنْهُ
 

 
 
ہم یہ ہر گز نہیں کہہ رہے کہ علمائے اہلسنت سب کا یہی قول ہے
 
 
صرف اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ علمائے اہلسنت میں اس بارے میں اختلاف موجود ہے
 
 

1 comment:

  1. Hz.Umar ra ki Aflah se dosti us ke nateje me dubur me dalwane me to ikhtelaf nahi hai na? Ap uski sanad faraham kar dein.

    ReplyDelete