Friday, March 14, 2014

جنگ جمل اور عائشہ کا کردار: مستند روایات کی روشنی میں

 
السلام علیکم
 
اس مختصر سے مقالے میں ہم مستند روایات کی روشنی میں جنگ جمل میں عائشہ کے کردار پر اس رخ سے روشنی ڈالیں گے کہ کیا وہ حق پر تھیں؟ کیا نبی پاک نے انہیں اس بات سے آگاہ کیا تھا؟ باقی ازواج مطہرات کا اس بارے میں کیا نقطہ نظر تھا؟ وغیرہ وغیرہ
 
 
 
گفتگو کا آغاز ہم نبی پاک کی اس مشہور روایت سے کریں گے کہ جس میں نبی پاک نے اپنی ازواج سے فرمایا تھا کہ اس وقت کیا ہو گا کہ جب تم پر حواب کے کتے بھونکیں گے۔ چنانجہ تفصیل اس کی روایات میں کچھ یوں ہے کہ 
 
 
جب عائشہ بنی عامر کے علاقے میں پہنچیں، تو انہوں نے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنی، پوچھا کہ یہ کیا علاقہ ہے؟ بتلایا گیا کہ حواب۔ کہنے لگی کہ میں واپس چلتی ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ رحم کرے، آپ آگے چلیں، اللہ مسلماںوں میں صلح کرے گا۔ عائشہ نے کہا کہ میں واپس جانا چاہتی ہوں کیوںکہ میں نے نبی پاک سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ اس وقت کیا ہو گا جب حواب کے کتے تم میں سے ایک پر بھونکیں گے
 
 
عربی متن یوں ہے 

Quote
 
 : لما أقبلت عائشة مرت ببعض مياه بني عامر طرقتهم ليلا فسمعت نباح الكلاب فقالت : أي ماء هذا ؟ قالوا : ماء الحوأب قالت : ما أظنني إلا راجعة قالوا : مهلا يرحمك الله تقدمين فيراك المسلمون فيصلح الله بك قالت : ما أظنني إلا راجعة إني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : ( كيف بإحداكن تنبح عليها كلاب 

 
 
یہ روایت مختلف کتب میں مذکور ہے، اور اس کی سند کو علمائے اہلسنت نے مستند و صحیح مانا ہے
 
 
مثال کے طور پر مسند امام احمد، تحقیق شیخ شعیب الارناوط؛ جلد ۴۰، صفحہ ۲۹۹، پر اس روایت کے بارے میں شیخ نے فرمایا کہ 
 
إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين
 
سند صحیح ہے، راوی سارے ثقہ ہیں اور شیخین یعنی بخاری و مسلم کے راوی ہیں
 
 
اسی روایت کو ابن حبان نے اپنی صحیح، جلد ۱۵، صفحہ ۱۲٦، حدیث ٦۷۳۲؛ میں درج کیا ہے، گویا وہ اس کے مستند ہونے کے قائل تھے، اس کتاب کی تحقیق بھی شیخ الارناوط نے کی ہے، اوربخاری و مسلم کی شرط پر اسے صحیح قرار دیا ہے
 
 
مسند ابو یعلی، جلد ۸، صفحہ ۲۸۲، حدیث ۴۸٦۸؛ میں بھی یہ روایت مذکور ہے، اور کتاب کے محقق، شیخ حسين سليم أسد کہتے ہیں کہ 
 
یہ سند صحیح ہے۔
 
 
شیخ البانی نے اس حدیث کو اپنی سلسلہ احادیث صحیحیہ، جلد ۱، صفحہ ۸۴٦، حدیث ۴۷۴؛ پر درج کیا، انہوں نے اس بات کا اشارہ بھی کیا کہ زبیر نے ان سے کہا تھا کہ آپ آگے جائیں، اللہ مسلمانِوں میں صلح کر دے گا
 
 
ان روایات کی اسنادی حیثیت کے بارے میں البانی نے فرمایا کہ 
 
 
قلت: وإسناده صحيح جدا، رجاله ثقات أثبات من رجال الستة: الشيخين
والأربعة 
 
میں کہتا ہوں کہ یہ سند شدید طریقے سے صحیح ہے، اس کے راوی ثقہ ہیں، اور ٦ کتب کے راویان میں ثابت ہیں، یعنی شیخین اور باقی ۴ کتب
 
 
شیخ مقبل الوداعی اپنی کتاب، الجامع الصحیح مما لیس فی الصحیحین، جلد ۵، صفحہ ۹۷؛ پر باب درج کرتے ہیں 
 
 
فتنۃ وقعۃ جمل
 
 
اور اس میں اس روایت کو درج کر کے کہتے ہیں کہ 
 
 
یہ حدیث صحیح ہے
 
 
ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب، فتح الباری، جلد ۱۳، صفحہ ۵۵؛ پر فرماتے ہیں
 
 
 وَأَخْرَجَ هَذَا أَحْمَدُ وَأَبُو يعلى وَالْبَزَّار وَصَححهُ بن حِبَّانَ وَالْحَاكِمُ وَسَنَدُهُ عَلَى شَرْطِ الصَّحِيحِ 
 
اس کو احمد، ابو یعلی، بزار، نے درج کیا ہے، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے، اور اس کی سند صحیح کی شرط پر ہے
 
 
ہم نے آپ کو یہ روایت مختلف کتب سے علمائے اہلسنت کے اقوال سمیت پیش کیا ہے کہ جنہوں نے اسے معتبر جانا ہے 
 
اور یہ روایت اس بات پر دلیل ہے کہ نبی پاک نے انہیں آگاہ کیا تھا کہ ایسا وقت آئے گا۔


 
نبی پاک کے بیان کردہ پیشن گوئیوں میں ایک وہ روایت بھی ہے جو کہ ابن عباس نے نقل کی۔ 
 
ابن حجر اپنی کتاب، فتح الباری، جلد ۱۳، صفحہ ۵۵؛ پر درج کرتے ہیں کہ 
 
 
بزار نے ثقہ راویان کے ساتھ روایت کی کہ ابن عباس نے کہا کہ نبی پاک نے اپنی بیویوں سے کہا کہ تم میں سے کون ہو گی جو کہ دم کٹی اونٹنی پر سوار ہو گی، وہ گھر چھوڑ کر جائے گی، اور اس پر حواب کے کتے بھونکیں گے۔ اس کے دائیں بائیں لوگ قتل ہوں گے، اور وہ اس کے بعد بچ جائے گی۔ 
 
 
عربی متن یوں ہے

Quote
 
وَمِنْ طَرِيقِ عِصَامِ بْنِ قُدَامَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ بن عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِنِسَائِهِ أَيَّتُكُنَّ صَاحِبَةُ الْجَمَلِ الْأَدْبَبِ بِهَمْزَةٍ مَفْتُوحَةٍ وَدَالٍ سَاكِنَةٍ ثُمَّ مُوَحَّدَتَيْنِ الْأُولَى مَفْتُوحَةٌ تَخْرُجُ حَتَّى تَنْبَحَهَا كِلَابُ الْحَوْأَبِ يُقْتَلُ عَنْ يَمِينِهَا وَعَنْ شِمَالِهَا قَتْلَى كَثِيرَةٌ وَتَنْجُو مِنْ بَعْدِ مَا كَادَتْ وَهَذَا رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ 

 
 
ہیثمی نے بھی مجمع الزوائد، جلد ۳، صفحہ ۲۸۷؛ پر ایسا ہی کہا ہے کہ بزار نے روایت کی اور راوی ثقہ ہیں
 
 
عربی متن یوں ہیں


Quote
 
وعن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لنسائه ليت شعري أيتكن صاحبة الجمل الأدبب تخرج فينبحها كلاب الحوأب يقتل عن يمينها وعن يسارها قتلى كثير ثم تنحو بعد ما كادت. رواه البزار ورجاله ثقات
 

 
گویا عائشہ کو اس بات سے بھی آگاہ کیا گیا تھا کہ قتل عام ہو گا



اہلسنت کی کتب میں یہ بھی ملتا ہے کہ نبی پاک نے مولا علی کو آگاہ کیا تھا کہ یہ واقعہ پیش آئے گا
 
 
 فتح الباری، جلد ۱۳، صفحہ ۵۵؛ پر ابن حجر کہتے ہیں کہ 
 
 
احمد اور بزار نے حسن سند سے بیان کیا کہ نبی پاک نے مولا علی سے کہا کہ تمہارے اور عائشہ کے درمیان ایک واقعہ ہو گا۔ مولا نے کہا کہ کیا میں شقی ہو گا، تو بنی پاک نے کہا کہ نہیں، مگر جب یہ ہو تو اسے واپس بھیج دینا
 
 
عربی متن یوں ہے
 


Quote
 
وَأَخْرَجَ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ بِسَنَدٍ حَسَنٍ مِنْ حَدِيثِ أَبِي رَافِعٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ إِنَّهُ سَيَكُونُ بَيْنَكَ وَبَيْنَ عَائِشَةَ أَمْرٌ قَالَ فَأَنَا أَشْقَاهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا وَلَكِنْ إِذَا كَانَ ذَلِكَ فَارْدُدْهَا إِلَى مَأْمَنِهَا
 

 
 
یہ روایت حافظ ہیثمی نے بھی مجمع الزوائد، جلد ۷، صفحہ ۱٦۳؛ پر درج کی ہے، اور وہ اس پر کہتے ہیں کہ یہ روایت احمد، بزار اور طبرانی نے درج کی ہے، اور اس کے راوی ثقہ ہیں
 
 
عربی متن یوں ہے

Quote
 
12024-وعن أبي رافع أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لعلي بن أبي طالب:
"إنه سيكون بينك وبين عائشة أمر". قال: أنا يا رسول الله؟ قال: "نعم". قال: أنا أشقاهم يا رسول الله؟ قال: "لا ولكن إذا كان ذلك فارددها إلى مأمنها".
رواه أحمد والبزار والطبراني ورجاله ثقات.




امہات المومنین میں سے ہمیں ام المومنین ام سلمہ کا بیان ملتا ہے جنگ جمل کے متعلق
 
 
حاکم اپنی مستدرک، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹؛ پر درج کرتے ہیں کہ
 
 
عمرۃ بیان کرتی ہے کہ جب مولا علی بصرہ کی جانب روانہ ہوئے، تو ام سلمہ زوجہ نبی پاک سے ملے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی امان میں جائیں۔ خدا کی قسم! آپ حق کے ساتھ ہیں اور حق آپ کے ساتھ۔ اگر مجھے اللہ و رسول اللہ کی نافرمانی سے کراہت نہ ہوتی، کیوںکہ نبی پاک نے ہمیں حکم دیا تھا کہ گھروں میں رہو، تو میں آپ کے ساتھ جاتی۔ لیکن میں آپ کے ساتھ اسے بھیجوں گی جو مجھے بہت فضیلت والا ہے، اور اپنی جان سے زیادہ پیارا ہے، میرا بیٹا، عمر
 
حاکم کی نظر میں یہ روایات شیخین کی شرط پر صحیح ہیں
ذہبی نے کہا کہ بخاری و مسلم کی شرط پر
 
 
عربی متن یوں ہے 
 

Quote
 
4611 - حدثني أبو سعيد أحمد بن يعقوب الثقفي من أصل كتابه ثنا الحسن بن علي بن شبيب المعمري ثنا عبد الله بن صالح الأزدي حدثني محمد بن سليمان بن الأصبهاني عن سعيد بن مسلم الملكي عن عمرة بنت عبد الرحمن قالت : لما سار علي إلى البصرة دخل على أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه و سلم فقالت : سر في حفظ الله و في كنفه فو الله إنك لعلى الحق و الحق معك و لولا أني أكره أن أعصى الله و رسوله فإنه أمرنا صلى الله عليه و سلم أن نقر في بيوتنا لسرت معك و لكن و الله لأرسلن معك من هو أفضل عندي و أعز علي من نفسي ابني عمر 
هذه الأحاديث الثلاثة كلها صحيحة على شرط الشيخين و لم يخرجاه 
تعليق الذهبي قي التلخيص : على شرط البخاري ومسلم

 
 
 
لنک ملاحظہ ہو



بخاری نے اپنی صحیح، جلد ۹، سفحہ ۵۵، حدیث ۷۰۹۹؛ پر ایک روایت نقل کی ہے کہ 
 
 
ابو بکرۃ کہتے ہیں کہ جمل کے دنوں میں اللہ نے مجھے اس حدیث سے فائدہ پہنچایا کہ جب کسری کی بیٹی حاکم بنی، تو آپ نے فرمایا کہ وہ قوم فلاح نہیں پا سکتی کہ جس کی حاکم عورت ہو
 
 
 
عربی متن یوں ہے 


Quote
 
 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الهَيْثَمِ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنِ الحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: لَقَدْ نَفَعَنِي اللَّهُ بِكَلِمَةٍ أَيَّامَ الجَمَلِ، لَمَّا بَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ فَارِسًا مَلَّكُوا ابْنَةَ كِسْرَى قَالَ: «لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً»
 

 
با الفاظ دیگر، وہ لوگ جو عائشہ کے ساتھ تھے، وہ فلاح پانے والوں میں نہ تھے


 
 
اس ضمن میں صحابی رسول، حضرت حذیفہ کا قول بھی کافی اہم ہے
 
 
بزار نے اپنی مسند، جلد ۷، صفحہ ۲۳٦-۲۳۷، میں درج کیا کہ 
 
 
زید بن وہب کہتے ہیں کہ ہم حذیفہ کے پاس تھے جب انہوں نے کہا کہ اس وقت تم کیا کرو گے جب نبی پاک کے گھر والے دو گروہوں میں نکل آئیں گے، اور ایک دوسرے کے چہرے کو تلوار سے ماریں گے؟ ہم نے کہا کہ کیا یہ حقیقت میں ہو گا؟ اس نے کہا کہ ہاں، اس ذات کی قسم جس نے نبی پاک کو مبعوث کیا! ایسا ہو گا۔ ہم میں سے بعض نے کہا کہ ہم اس وقت کیا کریں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اس فرقے کو دیکھنا جو امام علی کے طرف بلائیں، بس انہوں پکڑ لو کہ وہ ہدایت پر ہیں
 
 
عربی متن یوں ہے


Quote
 
2810 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الْكُوفِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ حُرَيْثٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ حُذَيْفَةَ، إِذْ قَالَ: «كَيْفَ أَنْتُمْ وَقَدْ خَرَجَ أَهْلُ بَيْتِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي فِئَتَيْنِ يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ وُجُوهَ بَعْضٍ بِالسَّيْفِ؟» ، فَقُلْنَا: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ، قَالَ: «أَيْ وَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ إِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ» ، فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ فَكَيْفَ نَصْنَعُ إِنْ أَدْرَكْنَا ذَلِكَ الزَّمَانَ؟، قَالَ: «انْظُرُوا الْفِرْقَةَ الَّتِي تَدْعُو إِلَى أَمْرِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَالْزَمُوهَا فَإِنَّهَا عَلَى الْهُدَى»
 

 
 
کتاب کے محقق، محفوظ الرحمن زين الله، کے مطابق ہیثمی نے اس کو کشف الاستار اور مجمع الزوائد میں درج کر کے کہا ہے کہ راوی ثقہ ہیں؛ اور ابن حجر نے بھی مختصر زوائد البزار میں ایسا کہا ہے
 
 
ہیثمی نے مجمع الزوائد، جلد۷ ، صفحہ  ۲۳٦؛ پر کہا ہے کہ بزار نے روایت کی اور راوی سارے ثقہ ہیں
 
 
عربی متن یوں ہے

Quote
 
12032 - وَعَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ حَوْلَ حُذَيْفَةَ إِذْ قَالَ: كَيْفَ أَنْتُمْ، وَقَدْ خَرَجَ أَهْلُ بَيْتِ نَبِيِّكُمْ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِرْقَتَيْنِ، يَضْرِبُ بَعْضُهُمْ وُجُوهَ بَعْضٍ بِالسَّيْفِ؟ فَقُلْنَا: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ؟ فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، فَكَيْفَ نَصْنَعُ إِنْ أَدْرَكْنَا ذَلِكَ الزَّمَانَ؟ قَالَ: انْظُرُوا الْفِرْقَةَ الَّتِي تَدْعُوا إِلَى أَمْرِ عَلِيٍّ فَالْزَمُوهَا، فَإِنَّهَا عَلَى الْهُدَى.
رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

 
 
ابن حجر نے اپنی کتاب، فتح الباری،جلد ۱۳، صفحہ ۸۵؛  میں اس سند کو جید، یعنی عمدہ کہا ہے، تاہم اس کے الفاظ ذرا سے مختلف ہیں۔ فرماتے ہیں کہ 
 
 
بزار نے جید سند کے ساتھ زید بن وہب سے نقل کیا کہ حذیفہ نے کہا کہ تم کیا کرو گے جب دین والے نکلیں گے اور ایک دوسرے کے چہرے کو تلوار سے ماریں گے۔ ہم نے کہا کہ تم ہمیں کیا کرتے کا کہتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ اس فرقے کو دیکھنا جو علی کی طرف پکاریں، اسے پکڑ لو کہ وہ حق پر ہیں
 
 
عربی متن یوں ہے


Quote
 
وقد أخرج البزار بسند جيد عن زيد بن وهب قال " كنا عند حذيفة فقال : كيف أنتم وقد خرج أهل دينكم يضرب بعضهم وجوه بعض بالسيف ؟ قالوا . فما تأمرنا ؟ قال : انظروا الفرقة التي تدعو إلى أمر علي فالزموها فإنها على الحق
 



گویا ہم علمائے اہلسنت کی توثیق شدہ روایات میں یہ دیکھتے ہیں کہ نبی پاک نے عائشہ کو یہ بتا دیا تھا کہ کوئی اونٹنی پر سوار ہو گا، اس پر حواب کے کتے بھونکیں گے اور اس کے ارد گرد لاشیں گریں گی۔ 
 
نیز بی بی ام سلمہ نے بھی اس کی وضاحت کر دی تھی کہ مجھے گھر میں ہی رہنا ہے کیوںکہ میں اللہ و رسول کی نافرمانی کو نا پسند کرتی ہوں، مگر حق آپ کے ساتھ ہے
 
اور حضرت حذیفہ نے بھی بتا دیا تھا کہ حق مولا علی کے ساتھیوں کے پاس ہے


No comments:

Post a Comment