السلام علیکم
ایک تھریڈ نظروں سے گذرا، جس میں ایک شخص بنام سنی مجاہد کہتا ہے
Quote
حضرت عبدالله ابن عباس سے روايت ہے کہ رسول الله حضرت محمد مصطفي (صلی الله عليہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم ديا کے جا معاويہ کو بُلا لا ، ميں گيا تو ديکھا معاويہ کھانا تناول کر رہا تھا ، ميں آپ (صلی الله عليہ وآلہ وسلم) کو بتايا کہ معاويہ کھانا تناول کر رہا ہے ، آپ (صلی الله عليہ وآلہ وسلم) نے مجھے دوباره بھيجا پھر وہي ہوا، پھر تيسری بار بھيجا ميں گيا تو معاويہ کھانا تناول کر رہا تھا، ميں آپ (صلی الله عليہ وآلہ وسلم) کو اِس کی تيسری بار خبر دی تو آپ صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا ؛” الـــــــــلّٰـــــــه اِس کــــــــــا پــــــــــيــــــــــٹ کـــــــــبـــــــــھـــــــــی نـــــــــہ بـــــــــھـــــــــرے “ ـصحيح مسلم ، صفحہ 1403 ، کتاب؛ البروالصلتہ والادب ، باب 25 ، حديث 2604ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﮐﮯ ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺑﮭﯽ ﻧﻘﻞ کیا ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ اللہ صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی ﺍﺱ ﺑﺪﺩﻋﺎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ ، جلد 11 ، صفحہ401
اور اس کے بعد موصوف کہتے ہیں
Quote
میری تمام مسلمان بھائیوں سے درخواست ہے کہ اس کا کوئ منہ توڑ جواب اس رافضی خبیث کو دیں، اگر کوئ پوسٹ یہاں پر اس سلسلے میں بنی ہوئ ہو تو ازراے کرم اسکا بھی نشاندہی کردیے گا۔
ان کی اس بات پر کافی حیرت ہوئی، اور مجھے اس بات کا یقین ہوا کہ ان جیسے لوگوں کو کبھِی
ہدایت نہیں مل سکتی
ان کو بس کسی بھی قسم کے جواب کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے یہ اپنے دل کو تسلی دے سکیں
اور بس
سچ کیا ہے؟ حق کیا ہے؟
اس سے انہیں سروکار نہیں
نبی پاک نے کتنی بار ابن عباس کو بھیجا، اور وہ صاحب کھانا کھاتے رہے
مگر ان کو غرض اس سے ہے، کہ معاویہ کو بچایا جائے
موصوف آگے اپنی ہی دی ہوئی ایک جواب کا ذکر کر کے کہتے ہیں
Quote
جس نے یہ پوسٹ بنائ ہے، وہ بالکل عربی زبان سے نابلد ہے۔ عربی زبان میں پیٹ نہ بھرنا کا کہنا کوئ بدعا کے معنی میں نہیں لیا جاتا، بلکہ اس کے رزق، مال، عقل اور فہم کے اضافہ کے طور پر کہا جاتا تھا کہ ان میں ہر وقت اضافہ ہوتا رہے۔
جیسے ہم نے کہا کہ ان لوگوں کو بس کوئی بھی جواب دے دو، یہ خوش ہو جاتے ہیں
کوئی انہیں بتائے کہ بھائی صاحب ! آپ صحیح مسلم ہی اٹھا کر دیکھ لو؛ وہیں سے اپ کو پتہ چل جاتا کہ اس میں بد دعا کے معنی ہیں کہ نہیں
مسلم نے اپنی صحیح، جلد ۴، صفحہ ۲۰۰۷؛ جس باب میں اس کا ذکر کیا ہے، اس کا نام ہے
بَابُ مَنْ لَعَنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ سَبَّهُ، أَوْ دَعَا عَلَيْهِ، وَلَيْسَ هُوَ أَهْلًا لِذَلِكَ، كَانَ لَهُ زَكَاةً وَأَجْرًا وَرَحْمَةً
باب اس کے لیے کہ جس پر نبی نے لعنت کی، یا سب کیا، یا اس کے خلاف دعا کی، اور وہ اس کے اہل نہ تھا، وہ اس کے لیے اجر و رحمت ہے
اب رہی یہ بات کہ معاویہ اس کے اہل تھا کہ نہیں، اس کے لیے ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح مسلم کے اردو ترجمہ، جلد ٦، صفحہ ۲۱۸، حدیث ٦٦۲۸؛ طبع نعمانی کتب خانہ؛ میں اس پر حاشیہ میں آتا ہے
یہ آپ نے عادتا فرمایا جیسے اوپر گذر چکا یا حقیقت میں عقوبت کے لیے کیونکہ انہوں نے آنے میں دیر کی اور چاہیے یہ تھا کہ کھانا چھوڑ کر آتے کیونکہ قرآن مجید میں صاف موجود ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ ۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر یقین کیجئے، ان باتوں سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا
تاہم نواصب کی جانب سے جو بھی جواب آئے
یہ حضرت اس پر خوشی سے چھلانگیں لگایں گے
No comments:
Post a Comment