السلام علیکم
کئی بار میں نے یہ دیکھا ہے کہ تکفیری حضرات اہل تشیع پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ تحریف قرآن کے قائل ہیں۔ اور اس وجہ سے کافر ہیں
یہ مقالہ صرف اس مقصد سے لکھا جا رہا ہے کہ وہ ایک بار اپنی کتب کو بھی دیکھ لیں کہ ان کی کتب میں کیا آتا ہے۔ خود وہ ہستیاں جن کی وہ بے حد احترام کرتے ہیں، وہ کن باتوں کے قائل ہیں
اس ضمن میں ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن روایات سے استدلال کیا جائے گا، وہ مستند ہوں تا کہ کوئی یہ گلہ نہ کرے کہ یہ تو روایت ہی ضعیف ہے
یہ مقالہ صرف اس مقصد سے لکھا جا رہا ہے کہ وہ ایک بار اپنی کتب کو بھی دیکھ لیں کہ ان کی کتب میں کیا آتا ہے۔ خود وہ ہستیاں جن کی وہ بے حد احترام کرتے ہیں، وہ کن باتوں کے قائل ہیں
اس ضمن میں ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن روایات سے استدلال کیا جائے گا، وہ مستند ہوں تا کہ کوئی یہ گلہ نہ کرے کہ یہ تو روایت ہی ضعیف ہے
بسم اللہ کرتے ہیں
روایت نمبر 1
امام بخاری اپنی صحیح میں تقریبا 5 مقامات پر یہ روایت درج کرتے ہیں، جن میں روایت نمبر 2728، 3401، 4725، 4726 اور 4727 شامل ہیں۔ نیز امام مسلم اپنی صحیح میں روایت نمبر 2380 کے تحت تقریبا یہی حوالہ دیتے ہیں۔ اور اسی طرح امام ابن حبان اپنی صحیح ج 14، ص 107 پر یہ روایت درج کرتے ہیں کہ جسے محقق شیخ شعیب الارناوط صحیح قرار دیتے ہیں
پہلے آیت کو حوالہ دیتے چلیں۔ قرآن کی آیت کریمہ یہ ہے کہ
وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا
اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی پکڑ رہا تھا
وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ
اور رہا لڑکا سو اس کے ماں باپ ایمان دار تھے
یہ آیات سورۃ کہف کی ہیں، آیت کا نشان 79-80 ہے
اب آئیں روایت کی طرف
روایت کچھ یوں ہے کہ
قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ (وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا) وَكَانَ يَقْرَأُ: (وَأَمَّا الغُلاَمُ فَكَانَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ)
سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ ابن عباس ان کی تلاوت یوں کرتے تھے۔۔۔۔
اب اگر آپ غور سے عربی متن کے سرخ الفاظ پر توجہ دیں تو صاف واضح ہے کہ وہ ان الفاظ کو کچھ مقام پر بدل رہے تھے، اور کچھ پر بڑھا رہے تھے
فیصلہ آپ خود کریں
روایت بخاری ، مسلم، ابن حبان، شیخ شعیب الارناوط وغیرہ کی نظر میں مستند ہے ۔ اس لیے یہ گلہ نہ کریں کہ سند میں کوئی ضعف ہے
روایت نمبر 2
اب ہم سورۃ بقرہ کی اس آیت کی طرف آتے ہیں
238. حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
سب نمازوں کی حفاظت کیا کرو اور (خاص کر) درمیانی نماز کی اور الله کے لیے ادب سے کھڑے رہا کرو
اب اس روایت کے متعلق ام المومنین حفصہ کیا کہتی تھیں؟ اس بارے میں ہم جید علمائے اہلسنت کی توثیق کی ساتھ روایت پیش کرتے ہیں۔ ابن عبدالبر اپنی کتاب التمہید ج 4، ص 281 پر تحریر کرتے ہیں
وذكر إسمعيل بن إسحاق قال حدثنا محمد بن أبي بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ حَفْصَةَ أَمَرَتْ أَنْ يُكْتَبَ لَهَا مُصْحَفٌ فَقَالَتْ إِذَا أَتَيْتَ عَلَى ذِكْرِ الصَّلَوَاتِ فَلَا تَكْتُبْ حَتَّى أُمْلِيَهَا عَلَيْكَ كَمَا سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ قَالَ نَافِعٌ فَرَأَيْتُ الْوَاوَ فِيهَا قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ وَكَانَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ يَقُولُ صَلَاةُ الْوُسْطَى صَلَاةُ الظُّهْرِ قَالَ أَبُو عُمَرَ هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ جَيِّدٌ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ
نافع کہتے ہیں کہ حفصہ نے مجھے کہا کہ تم میرے لیے قرآن لکھو مگر جب نماز کا ذکر آئے تو تب تک نہ لکھنا جب تم میں املا نہ کرا دوں جیسا کہ میں نے نبی پاک سے سنا
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ
نافع کہتے ہیں کہ اس میں میں نے واؤ دیکھا ہے۔ مگر عبیداللہ کہتے ہیں کہ زید بن ثابت نے کہا درمیان والی نماز ظہر کی نماز۔ ابو عمر یعنی ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ یہ سند صحیح اور جید ہے حضرت حفصہ کی روایتوں میں
اگر آپ توجہ دیں تو محترمہ نے ایک پورا حصہ اس میں شامل کر دیا ہے
اس روایت کی توثیق شیخ احمد شاکر نے بھی کی ہے۔ انہوں نے ایک کتاب کی تخریج کی بنام عمدۃ التفاسیر من حافظ ابن کثیر، ج 1، ص 296 پر انہوں نے یہ روایت لکھی۔ گویا وہ بھی اس کے مستند ہونے کے قائل ہیں
اس کے علاوہ علاء الدين مغلطاي شرح سنن ابن ماجہ، ج 1، ص 1011 پر تحریر کرتے ہیں
وحديث حفصة أم المؤمنين- رضي الله عنها- ذكره أبو عمر في التمهيد بسند صحيح
اور حضرت حفصہ کی روایت جو کو ابن عبدالبر نے التمہید میں صحیح سند کے ساتھ لکھی
یہی روایت تفسیر ابن کثیر کے اردو ترجمہ میں موجود ہے، کہ جس کی تخریج کامران طاہر نے کی ہے، اور اس کی تحقیق حافظ زبیر علی زئی نے۔ اس کے ج 1، ص 402 پر حاشیہ نمبر 5 میں کہا گیا ہے کہ یہ مؤطا امام مالک سے لی گئی ہے، اور یہ صحیح ہے
اسی طرح ہیثمی نے اسے اپنی کتاب مجمع الزوائد، ج 7، ص 154 پر درج کیا، اور سارے روایوں کو ثقہ قرار دیا
میرے خیال میں اتنی توثیقات کافی ہیں
روایت نمبر 3
گذارش کرتے چلیں کہ امہات المومنین میں صرف بی بی حفصہ ہی اس خیال کی مالک نہیں تھیں، بلکہ حضرت عائشہ بھی اس میں شامل ہیں
امام احمد اپنی مسند ج 40، ص 505 پر ایک روایت درج کرتے ہیں
24448 - حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي يُونُسَ، مَوْلَى عَائِشَةَ قَالَ: أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنْ أَكْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا، قَالَتْ: إِذَا بَلَغْتَ إِلَى هَذِهِ الْآيَةِ {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى} [البقرة: 238] ، فَآذِنِّي، فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذَنْتُهَا، فَأَمْلَتْ عَلَيَّ: " حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ " قَالَتْ: سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
بی بی عائشہ نے اپنے غلام سے کہا کہ میرے لیے قرآن لکھو، اور جب سورۃ بقرہ کی اس آیت پر پہنچو،تو بتانا۔ جب غلام اس پر پہنچا اور بتایا تو انہوں نے اس طرح سے املا کرائی
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
اور کہا کہ میں نے نبی اکرم سے یوں سنا ہے
کتاب کے محقق، شیخ شعیب الارناوط نے سند کو امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے
اس روایت کو شیخ البانی نے بھی صحیح سنن ابی داؤد، ج 2، ص 277 پر درج کیا، اور صحیح کہا
سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ روایت صحیح مسلم، ج 1، ص 437، روایت 629 میں بھی موجود ہے
روایت نمبر 4
سورۃ اللیل کی آیت ملاحظہ ہو
1. وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ
رات کی قسم ہے جب کہ وہ چھاجائے
2. وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ
اور دن کی جبکہ وہ روشن ہو
3. وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَىٰ
اوراس کی قسم کہ جس نے نر و مادہ کوبنایا
اب ہم آپ کو ایک روایت صحیح مسلم ، ج 1، ص 565، ح 824؛ اور اردو ترجمہ ج 2، ص 308، ح 1916، پیش کرتے ہیں
282 - (824) وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَدِمْنَا الشَّامَ فَأَتَانَا أَبُو الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: «فِيكُمْ أَحَدٌ يَقْرَأُ عَلَى قِرَاءَةِ عَبْدِ اللهِ؟» فَقُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا، قَالَ: " فَكَيْفَ سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ يَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ {وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى} [الليل: 1] ؟ " قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ: {وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى} [الليل: 1] وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، قَالَ: " وَأَنَا وَاللهِ هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا، وَلَكِنْ هَؤُلَاءِ يُرِيدُونَ أَنْ أَقْرَأَ {وَمَا خَلَقَ} [الليل: 3] فَلَا أُتَابِعُهُمْ ".
علقمہ فرماتے ہیں کہ میں شام گیا تو صحابی ابو دردا سے آئے۔ انہوں نے کہا کہ تم میں کون عبداللہ ابن مسعود جیسی تلاوت کرتا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جناب میں کرتا ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ تم نے عبداللہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے کس طرح سنا؟ میں نے جواب دیا کہ اس طرح سے سنا ہے
{وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى} [الليل: 1] وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى
انہوں نے کہا: خدا کی قسم! میں نے بھی ایسے ہی سنا ہے مگر یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں اس میں {وَمَا خَلَقَ} کی قرات بھی کروں، مگر میں ان کی نہیں مانتا
بہت ہی واضح انداز میں صحابی نے کہا کہ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ کس طرح سے پڑھنا ہے، مگر وہ ان کی بات ماننے کو تیار نہیں
بتائیں! کیا آپ ان پر فتوی لگانا پسند کریں گے؟
اس سے ملتی جلتی روایت صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔ نیز مسند احمد، ج 45، ص 523پر بھی امام مسلم کی شرط پر صحیح روایت کا تذکرہ موجود ہے۔ اسی طرح صحیح ابن حبان، ج 14، ص 237 پر امام بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح سند کے ساتھ یہ روایت موجود ہے
تاہم میں اسی پر اکتفا کر رہا ہوں
کیونکہ نکتہ اسی سے ثابت ہو رہا ہے
روایت نمبر 5
سورۃ المائدہ سے ایک آیت پیش خدمت ہے
فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ
سو قریب ہے کہ الله جلدی فتح ظاہر فرماد ے یا کوئی اور حکم اپنے ہاں سے ظاہر کرے پھر یہ اپنے دل کی چھپی ہوئی بات پر شرمندہ ہوں گے
تفسیر ابن ابی حاتم کا شمار اہلسنت کے معتبر ترین تفاسیر میں ہوتا ہے۔ مولف اہلسنت کے علم رجال کے جید ترین علماء میں شمار ہوتے ہیں، اور اس کتاب میں مذکور سندوں کو انہوں نے معتبر کہا ہے
اس تفسیر کے ج 4، ص 1159 پر یہ روایت آتی ہے
6527 - ذُكِرَ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ ابْنَ الزُّبَيْرِ يَقُولُ: فَيُصْبِحُ الْفُسَّاقُ عَلَى مَا أَسَرُّوا بِهِ أَنْفُسَهُمْ نَادِمِينَ
عمرو روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن زبیر کو یوں سنا
فَيُصْبِحُ الْفُسَّاقُ عَلَى مَا أَسَرُّوا بِهِ أَنْفُسَهُمْ نَادِمِينَ
گویا موصوف نے اس میں اضافہ کر دیا
یہ روایت تفسیر من سنن سعید بن منصور، ج 4، ص 1500،، تحقیق سعد بن عبد الله بن عبد العزيز آل حميد؛ میں بھی مذکور ہے، اور کتاب کے محقق نے سند کو صحیح کہا ہے
آیت کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھ لیں
خود اندازہ ہو جائے گا کہ کونسا لفظ بدلا گیا ہے
روایت نمبر 6
اسی تفسیر من سنن سعید بن منصور کی جلد 4، صفحہ 1507 پر یہ روایت ملتی ہے
769- حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: نا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: نا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ لَحْن الْقُرْآنِ: {إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ} (1) ، {وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزكاة} (2) ، وَ (إِنَّ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ) (3) ، فَقَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي، هَذَا عَمَلُ الكُتَّاب، أخطأوا في الكِتَاب (4)
عروہ کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ سے ان آیات کے بارے میں پوچھا
{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ} (1) ، {وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزكاة} (2) ، اوَر (إِنَّ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ) (3)
تو انہوں نے جواب دیا اے میری بہن کے بیٹے! یہی تو کاتبین کرتے ہیں کہ لکھتے ہوئے خطا کر دیتے ہیں
یاد رہے کہ سیوطی نے الاتقان فی علوم القرآن، ج 1، ص 210 پر اسی روایت کو درج کیا۔ اور اس کے بعد سند کے بارے میں کہا کہ یہ سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے
جہاں تک سوال ہے تفسیر من سنن سعید بن منصور کے محقق کا، ظاہر ہے اسے تو موت پڑ رہی ہے اس روایت کو لے کر۔ پہلے تو سند کے بارے میں یوں کہا
سنده ظاهر الصحة، ومتنه منكر
سند بظاہر صحیح ہے، مگر متن منکر ہے
آگے فرماتے ہیں
ولو سلمنا بصحّة سنده إلى عائشة رضي الله عنها، فإن هذا اجتهاد منها لا يمكن قبوله
اگر اس سند کی عائشہ تک سند کو مانا جائے، تو یہ عائشہ کا اجتہاد ہے، اور ممکن نہیں کہ ہم یہ قبول کریں
ٹھیک ہے جناب! ہم نے کب کہا کہ قبول کریں۔۔۔۔۔۔۔۔
بس دوسروں پر فتوے لگاتے وقت یاد کر لیا کریں
روایت نمبر 7
سب سے پہلے سورۃ المائدہ کی ایک اور آیت پیش کر دیں
فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ
پھر جو شخص یہ نہ پائے تو تین دن کے روزے رکھنے ہیں اسی طرح تمہای قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھاؤ
اب ذرا ہم یہ دیکھیں کہ مشہور صحابی ابی بن کعب اس کی تلاوت کس طرح کرتے تھے
مستدرک امام حاکم، ج 2، ص 303، پر یہ روایت درج ہے
3091 - أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْحَافِظُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ حَبِيبٍ الْعَبْدِيُّ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَنْبَأَ أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ " يَقْرَؤُهَا: «فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مُتَتَابِعَاتٍ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 3091 - صحيح
ابی بن کعب اس کی تلاوت یوں کرتے تھے
فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مُتَتَابِعَاتٍ
امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ سند صحیح ہے اگرچہ بخاری و مسلم نے نہیں لکھی۔
علامہ ذہبی نے بھی اسے صحیح کہا ہے
اسی طرح علامہ ناصر الدین البانی اپنی کتاب ارواہ الغلیل ، ج 8،ص 204 پر یہ روایت نقل کرتے ہیں
وأخرج مالك (1/305/49) عن حميد بن قيس المكى أنه أخبر قال: " كنت مع مجاهد وهو يطوف بالبيت: فجاءه إنسان فسأله عن صيام أيام الكفارة أو متتابعات أم يقطعها؟ قال: قال حميد: فقلت له: نعم يقطعها إن شاء.
قال مجاهد: لا يقطعها , فإن فى قراءة أبى بن كعب (ثلاثة أيام متتابعات) ".
قلت: وهذا إسناد صحيح إن كان مجاهد سمع أبى بن كعب أو رأى ذلك فى مصحفه
مالک اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ مجاہد اور حمید ایک دن طواف کر رہے تھے کہ ایک شخص نے آ کر سوال کیا کہ کفارے کے روزے اکٹھے رکھنے ہیں یا بیچ میں وقفہ کر سکتے ہیں؟ اس پر حمید نے کہا کہ اگر چاہو تو وقفہ کر لو۔ مجاہد نے جواب دیا کہ وقفہ نہیں کر سکتے کیونکہ ابی بن کعب کے تلاوت یوں ہے
ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مُتَتَابِعَاتٍ
یعنی 3 دن لگاتار
میں یعنی البانی یہ کہتا ہوں کہ یہ سند صحیح ہے کیونکہ مجاہد نے ابی بن کعب سے سنا ہے یا پھر ان کی مصحف میں دیکھا ہے
یعنی یہاں سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ جس لفظ کا اضافہ کیا جا رہا ہے، وہ معنی الگ کر دیتا ہے۔۔۔۔
روایت نمبر 8
سورۃ رعد کی ایک آیت پیش کرتے ہیں۔ غور سے پڑھیے گا
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ
ہر شخص حفاظت کے لیے کچھ فرشتے ہیں اس کے آگے اورپیچھے الله کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں
تفسیر ابن ابی حاتم ج 7، ص 2230، ح 12191 میں یہ مستند روایت ملتی ہے
12191 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ المقري، ثنا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ: لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ: وَرُقَبَاءُ مِنْ خَلْفِهِ.
یعنی ابن عباس اس کی قرات یوں کرتے تھے
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ: وَرُقَبَاءُ مِنْ خَلْفِهِ
یہی روایت تفسیر من سنن سعید بن منصور ج 5، ص 427، ح 1159 میں بھی درج ہے، اور محقق نے سند کو صحیح کہا ہے
روایت نمبر 9
اسی آیت کے متعلق اگلی روایت تفسیر من سنن سعید بن منصور، ج 5، ص 428 پر یوں آتی ہے
1160- حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: نَا رِبْعي بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْجَارُودِ بْنِ أَبِي سَبْرَة (2) ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْجَارُودِ بْنِ أَبِي سَبْرَة (2) ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي (3) عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ بِالشَّامِ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ وَقَدْ خَرَجَ مِنْ مُسْتَحَمٍّ لَهُ وَقَدِ اغْتَسَلَ - وَأَنَا مستلقٍ - يَقْرَأُ: {لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ} ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَا أَبَا سَبْرَةَ، لَيْسَتْ هُنَاكَ الْمُعَقِّبَاتُ، وَلَكِنْ لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ خَلْفِهِ وَرَقِيبٌ بين يديه
جارود بن ابی سبرہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد شام میں ابن عباس سے ملنے جمعہ والے دن گئے۔ وہ نہانے گئے تھے۔ جب ملے تو ہم نے اس ایت کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ معقبات نہیں، بلکہ ایسے ہے
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ خَلْفِهِ وَرَقِيبٌ بين يديه
پوری ترتیب ہی بدل ڈالی
خیر، محقق نے سند کے بارے میں یوں کہا
سنده حسن لذاته
سند حسن درجے کی ہے
یہی روایت تفسیر ابن ابی حاتم ، ج 7، ص 2230 پر موجود ہے، گویا ان کی نظر میں بھی معتبر ہے
روایت نمبر 10
سورۃ رعد کی ایک اور آیت کا جزو آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں
أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا
پھر کیا ایمان والے اس بات سے نا امید ہو گئے ہیں کہ اگر الله چاہتا تو سب آدمیوں کو ہدایت کر دیتا
اب آتے ہیں کہ ابن عباس اس کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ یاد رہے قارئین کہ میری کوشش یہ ہر گز نہیں کہ میں حوالہ جات کے انبار لگاؤں، بلکہ یہ ہے کہ مستند روایت پیش کروں۔ تاکہ اختصار قائم رہے
اس سے آپ لوگوں کو زیادہ تنگی ہو گی، اور یہ مقالہ بھی بہت بڑھ جائے گا
محمد بن جریر طبری نے ایک تفسیر لکھی جس کا نام ہے جامع البيان في تأويل القرآن۔ اس کی تخریج شیخ احمد شاکر نے کی ہے، اور موسسۃ الرسالۃ نے اسے شائع کیا ہے ۔ اس کی جلد 16، صفحہ 452 پر یہ روایت آتی ہے
20410- حدثنا أحمد بن يوسف قال: حدثنا القاسم قال: حدثنا يزيد، عن جرير بن حازم، عن الزبير بن الخِرِّيت= أو يعلى بن حكيم=، عن عكرمة، عن ابن عباس، أنه كان يقرؤها:"أَفَلَمْ يَتَبيَّنِ الَّذِينَ آمنُوا"؛ قال: كتب الكاتب الأخرى وهو ناعسٌ
عکرمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس اس کی قرات یوں کرتے تھے
أَفَلَمْ يَتَبيَّنِ الَّذِينَ آمنُوا
اور کہتے تھے کہ کاتب نے لکھ دیا جب کہ اسے نیند آئی ہوئی تھی
شیخ احمد شاکر اس پر بیان کرتے ہیں
فهذا خبر رجاله ثقات، بل كل رجاله رجال الصحيحين، سوى أبي عبيد القاسم بن سلام، وهو أمام ثقة صدوق، فإسناده صحيح، لا مطعن فيه - ومع صحة إسناده لم أجد أحدًا من أصحاب الدواوين الكبار، كأحمد في مسنده، أو الحاكم في المستدرك، ولا أحدًا ممن نقل عن الدواوين الكبار، كالهيثمي في مجمع الزوائد، أخرج هذا الخبر أو أشار إلى هذه القراءة عن ابن عباس
اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں، بلکہ بخاری و مسلم کے ہیں سوائے ابی عبیدالقاسم کے،اور وہ ثقہ اور سچے ہیں۔ اس لیے سند صحیح ہے، اور کسی پر کوئی طعن نہیں کیا گیا۔ مگر اس کے باوجود مجھے حیرت ہے کہ بڑے بڑے علماء، جیسے کہ احمد نے اپنی مسند میں یا امام حاکم نے اپنی مستدرک میں، ان میں یہ روایت مجھے نہیں ملی۔ اور نہ ہی بڑے علماء جیسا کہ ہیثمی وغیرہ نے اسے اپنی کتب میں درج کیا یا اس کی طرف اشارہ کیا
اس کے بعد وہ ابن کثیر کا حوالہ دیتے ہیں کہ انہوں نےبھی صرف اسے درج کیا، تعقب نہیں کیا، اور اس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ وہ بھی سند کی صحت سے آگاہ ہیں
اس کے علاوہ ابن حجر نے بھی اسے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں درج کیا۔ جلد 8، صفحۃ 373 پر فرماتے ہیں
وَرَوَى الطَّبَرِيُّ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ كُلِّهِمْ مِنْ رِجَالِ الْبُخَارِيِّ عَن بن عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَؤُهَا أَفَلَمْ يَتَبَيَّنْ وَيَقُولُ كتبهَا الْكَاتِب وَهُوَ ناعس
طبری اور عبد بن حمید نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا، کہ جس کے سارے راوی بخاری کے ہیں۔۔۔۔۔
تفسیر من سنن سعید بن منصور کے محقق، اپنی حاشیہ میں جلد 4، صفحہ 440 پر اسی طرح کی ایک روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ سند صحیح ہے
روایت نمبر 11
امام حاکم اپنی مستدرک ج 2، ص 430 پر درج کرتے ہیں
3496 - حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَنْبَأَ عَبْدَانُ الْأَهْوَازِيُّ، ثنا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا} [النور: 27] قَالَ: «أَخْطَأَ الْكَاتِبُ حَتَّى تَسْتَأْذِنُوا» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 3496 - على شرط البخاري ومسلم
جب ابن عباس سے سورۃ النور کی آیت کے بارے میں سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا کہ کاتب نے غلطی کی، یہ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا نہیں، بلکہ حَتَّى تَسْتَأْذِنُوا ہے
حاکم نے سند کو بخاری و مسلم کے شرط پر صحیح کہا اور زہبی نے بھی اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا
ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری ج 11، ص 8 پر کچھ یوں کہا
فَأَخْرَجَ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَالطَّبَرِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الشُّعَبِ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ أَنَّ بن عَبَّاسٍ كَانَ يَقْرَأُ حَتَّى تَسْتَأْذِنُوا وَيَقُولُ أَخْطَأَ الْكَاتِبُ
سعید بن منصور، طبری، بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ۔۔۔۔
اس سے پہلے بھی ہم آپ کو عائشہ کا قول پیش کر چکے ہیں۔ کہ یہ خطاء تھی کاتب کی جانب سے ۔ روایت نمبر 6 دیکھیے
ذرا دیکھیں کہ ان کے عالم، ابو حیان اندلسی اپنی تفسیر بحر المحیط، ج 8، ص 30-31 پر کیا درج کرتے ہیں
238. حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
سب نمازوں کی حفاظت کیا کرو اور (خاص کر) درمیانی نماز کی اور الله کے لیے ادب سے کھڑے رہا کرو
اب اس روایت کے متعلق ام المومنین حفصہ کیا کہتی تھیں؟ اس بارے میں ہم جید علمائے اہلسنت کی توثیق کی ساتھ روایت پیش کرتے ہیں۔ ابن عبدالبر اپنی کتاب التمہید ج 4، ص 281 پر تحریر کرتے ہیں
وذكر إسمعيل بن إسحاق قال حدثنا محمد بن أبي بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ حَفْصَةَ أَمَرَتْ أَنْ يُكْتَبَ لَهَا مُصْحَفٌ فَقَالَتْ إِذَا أَتَيْتَ عَلَى ذِكْرِ الصَّلَوَاتِ فَلَا تَكْتُبْ حَتَّى أُمْلِيَهَا عَلَيْكَ كَمَا سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ قَالَ نَافِعٌ فَرَأَيْتُ الْوَاوَ فِيهَا قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ وَكَانَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ يَقُولُ صَلَاةُ الْوُسْطَى صَلَاةُ الظُّهْرِ قَالَ أَبُو عُمَرَ هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ جَيِّدٌ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ
نافع کہتے ہیں کہ حفصہ نے مجھے کہا کہ تم میرے لیے قرآن لکھو مگر جب نماز کا ذکر آئے تو تب تک نہ لکھنا جب تم میں املا نہ کرا دوں جیسا کہ میں نے نبی پاک سے سنا
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ
نافع کہتے ہیں کہ اس میں میں نے واؤ دیکھا ہے۔ مگر عبیداللہ کہتے ہیں کہ زید بن ثابت نے کہا درمیان والی نماز ظہر کی نماز۔ ابو عمر یعنی ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ یہ سند صحیح اور جید ہے حضرت حفصہ کی روایتوں میں
اگر آپ توجہ دیں تو محترمہ نے ایک پورا حصہ اس میں شامل کر دیا ہے
اس روایت کی توثیق شیخ احمد شاکر نے بھی کی ہے۔ انہوں نے ایک کتاب کی تخریج کی بنام عمدۃ التفاسیر من حافظ ابن کثیر، ج 1، ص 296 پر انہوں نے یہ روایت لکھی۔ گویا وہ بھی اس کے مستند ہونے کے قائل ہیں
اس کے علاوہ علاء الدين مغلطاي شرح سنن ابن ماجہ، ج 1، ص 1011 پر تحریر کرتے ہیں
وحديث حفصة أم المؤمنين- رضي الله عنها- ذكره أبو عمر في التمهيد بسند صحيح
اور حضرت حفصہ کی روایت جو کو ابن عبدالبر نے التمہید میں صحیح سند کے ساتھ لکھی
یہی روایت تفسیر ابن کثیر کے اردو ترجمہ میں موجود ہے، کہ جس کی تخریج کامران طاہر نے کی ہے، اور اس کی تحقیق حافظ زبیر علی زئی نے۔ اس کے ج 1، ص 402 پر حاشیہ نمبر 5 میں کہا گیا ہے کہ یہ مؤطا امام مالک سے لی گئی ہے، اور یہ صحیح ہے
اسی طرح ہیثمی نے اسے اپنی کتاب مجمع الزوائد، ج 7، ص 154 پر درج کیا، اور سارے روایوں کو ثقہ قرار دیا
میرے خیال میں اتنی توثیقات کافی ہیں
روایت نمبر 3
گذارش کرتے چلیں کہ امہات المومنین میں صرف بی بی حفصہ ہی اس خیال کی مالک نہیں تھیں، بلکہ حضرت عائشہ بھی اس میں شامل ہیں
امام احمد اپنی مسند ج 40، ص 505 پر ایک روایت درج کرتے ہیں
24448 - حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي يُونُسَ، مَوْلَى عَائِشَةَ قَالَ: أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنْ أَكْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا، قَالَتْ: إِذَا بَلَغْتَ إِلَى هَذِهِ الْآيَةِ {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى} [البقرة: 238] ، فَآذِنِّي، فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذَنْتُهَا، فَأَمْلَتْ عَلَيَّ: " حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ " قَالَتْ: سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
بی بی عائشہ نے اپنے غلام سے کہا کہ میرے لیے قرآن لکھو، اور جب سورۃ بقرہ کی اس آیت پر پہنچو،تو بتانا۔ جب غلام اس پر پہنچا اور بتایا تو انہوں نے اس طرح سے املا کرائی
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
اور کہا کہ میں نے نبی اکرم سے یوں سنا ہے
کتاب کے محقق، شیخ شعیب الارناوط نے سند کو امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے
اس روایت کو شیخ البانی نے بھی صحیح سنن ابی داؤد، ج 2، ص 277 پر درج کیا، اور صحیح کہا
سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ روایت صحیح مسلم، ج 1، ص 437، روایت 629 میں بھی موجود ہے
روایت نمبر 4
سورۃ اللیل کی آیت ملاحظہ ہو
1. وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ
رات کی قسم ہے جب کہ وہ چھاجائے
2. وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ
اور دن کی جبکہ وہ روشن ہو
3. وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَىٰ
اوراس کی قسم کہ جس نے نر و مادہ کوبنایا
اب ہم آپ کو ایک روایت صحیح مسلم ، ج 1، ص 565، ح 824؛ اور اردو ترجمہ ج 2، ص 308، ح 1916، پیش کرتے ہیں
282 - (824) وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَدِمْنَا الشَّامَ فَأَتَانَا أَبُو الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: «فِيكُمْ أَحَدٌ يَقْرَأُ عَلَى قِرَاءَةِ عَبْدِ اللهِ؟» فَقُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا، قَالَ: " فَكَيْفَ سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ يَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ {وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى} [الليل: 1] ؟ " قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ: {وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى} [الليل: 1] وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، قَالَ: " وَأَنَا وَاللهِ هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا، وَلَكِنْ هَؤُلَاءِ يُرِيدُونَ أَنْ أَقْرَأَ {وَمَا خَلَقَ} [الليل: 3] فَلَا أُتَابِعُهُمْ ".
علقمہ فرماتے ہیں کہ میں شام گیا تو صحابی ابو دردا سے آئے۔ انہوں نے کہا کہ تم میں کون عبداللہ ابن مسعود جیسی تلاوت کرتا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جناب میں کرتا ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ تم نے عبداللہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے کس طرح سنا؟ میں نے جواب دیا کہ اس طرح سے سنا ہے
{وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى} [الليل: 1] وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى
انہوں نے کہا: خدا کی قسم! میں نے بھی ایسے ہی سنا ہے مگر یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں اس میں {وَمَا خَلَقَ} کی قرات بھی کروں، مگر میں ان کی نہیں مانتا
بہت ہی واضح انداز میں صحابی نے کہا کہ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ کس طرح سے پڑھنا ہے، مگر وہ ان کی بات ماننے کو تیار نہیں
بتائیں! کیا آپ ان پر فتوی لگانا پسند کریں گے؟
اس سے ملتی جلتی روایت صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔ نیز مسند احمد، ج 45، ص 523پر بھی امام مسلم کی شرط پر صحیح روایت کا تذکرہ موجود ہے۔ اسی طرح صحیح ابن حبان، ج 14، ص 237 پر امام بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح سند کے ساتھ یہ روایت موجود ہے
تاہم میں اسی پر اکتفا کر رہا ہوں
کیونکہ نکتہ اسی سے ثابت ہو رہا ہے
روایت نمبر 5
سورۃ المائدہ سے ایک آیت پیش خدمت ہے
فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ
سو قریب ہے کہ الله جلدی فتح ظاہر فرماد ے یا کوئی اور حکم اپنے ہاں سے ظاہر کرے پھر یہ اپنے دل کی چھپی ہوئی بات پر شرمندہ ہوں گے
تفسیر ابن ابی حاتم کا شمار اہلسنت کے معتبر ترین تفاسیر میں ہوتا ہے۔ مولف اہلسنت کے علم رجال کے جید ترین علماء میں شمار ہوتے ہیں، اور اس کتاب میں مذکور سندوں کو انہوں نے معتبر کہا ہے
اس تفسیر کے ج 4، ص 1159 پر یہ روایت آتی ہے
6527 - ذُكِرَ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ ابْنَ الزُّبَيْرِ يَقُولُ: فَيُصْبِحُ الْفُسَّاقُ عَلَى مَا أَسَرُّوا بِهِ أَنْفُسَهُمْ نَادِمِينَ
عمرو روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن زبیر کو یوں سنا
فَيُصْبِحُ الْفُسَّاقُ عَلَى مَا أَسَرُّوا بِهِ أَنْفُسَهُمْ نَادِمِينَ
گویا موصوف نے اس میں اضافہ کر دیا
یہ روایت تفسیر من سنن سعید بن منصور، ج 4، ص 1500،، تحقیق سعد بن عبد الله بن عبد العزيز آل حميد؛ میں بھی مذکور ہے، اور کتاب کے محقق نے سند کو صحیح کہا ہے
آیت کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھ لیں
خود اندازہ ہو جائے گا کہ کونسا لفظ بدلا گیا ہے
روایت نمبر 6
اسی تفسیر من سنن سعید بن منصور کی جلد 4، صفحہ 1507 پر یہ روایت ملتی ہے
769- حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: نا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: نا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ لَحْن الْقُرْآنِ: {إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ} (1) ، {وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزكاة} (2) ، وَ (إِنَّ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ) (3) ، فَقَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي، هَذَا عَمَلُ الكُتَّاب، أخطأوا في الكِتَاب (4)
عروہ کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ سے ان آیات کے بارے میں پوچھا
{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ} (1) ، {وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزكاة} (2) ، اوَر (إِنَّ هَذَانِ لَسَاحِرَانِ) (3)
تو انہوں نے جواب دیا اے میری بہن کے بیٹے! یہی تو کاتبین کرتے ہیں کہ لکھتے ہوئے خطا کر دیتے ہیں
یاد رہے کہ سیوطی نے الاتقان فی علوم القرآن، ج 1، ص 210 پر اسی روایت کو درج کیا۔ اور اس کے بعد سند کے بارے میں کہا کہ یہ سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے
جہاں تک سوال ہے تفسیر من سنن سعید بن منصور کے محقق کا، ظاہر ہے اسے تو موت پڑ رہی ہے اس روایت کو لے کر۔ پہلے تو سند کے بارے میں یوں کہا
سنده ظاهر الصحة، ومتنه منكر
سند بظاہر صحیح ہے، مگر متن منکر ہے
آگے فرماتے ہیں
ولو سلمنا بصحّة سنده إلى عائشة رضي الله عنها، فإن هذا اجتهاد منها لا يمكن قبوله
اگر اس سند کی عائشہ تک سند کو مانا جائے، تو یہ عائشہ کا اجتہاد ہے، اور ممکن نہیں کہ ہم یہ قبول کریں
ٹھیک ہے جناب! ہم نے کب کہا کہ قبول کریں۔۔۔۔۔۔۔۔
بس دوسروں پر فتوے لگاتے وقت یاد کر لیا کریں
روایت نمبر 7
سب سے پہلے سورۃ المائدہ کی ایک اور آیت پیش کر دیں
فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ
پھر جو شخص یہ نہ پائے تو تین دن کے روزے رکھنے ہیں اسی طرح تمہای قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھاؤ
اب ذرا ہم یہ دیکھیں کہ مشہور صحابی ابی بن کعب اس کی تلاوت کس طرح کرتے تھے
مستدرک امام حاکم، ج 2، ص 303، پر یہ روایت درج ہے
3091 - أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْحَافِظُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ حَبِيبٍ الْعَبْدِيُّ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَنْبَأَ أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ " يَقْرَؤُهَا: «فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مُتَتَابِعَاتٍ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 3091 - صحيح
ابی بن کعب اس کی تلاوت یوں کرتے تھے
فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مُتَتَابِعَاتٍ
امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ سند صحیح ہے اگرچہ بخاری و مسلم نے نہیں لکھی۔
علامہ ذہبی نے بھی اسے صحیح کہا ہے
اسی طرح علامہ ناصر الدین البانی اپنی کتاب ارواہ الغلیل ، ج 8،ص 204 پر یہ روایت نقل کرتے ہیں
وأخرج مالك (1/305/49) عن حميد بن قيس المكى أنه أخبر قال: " كنت مع مجاهد وهو يطوف بالبيت: فجاءه إنسان فسأله عن صيام أيام الكفارة أو متتابعات أم يقطعها؟ قال: قال حميد: فقلت له: نعم يقطعها إن شاء.
قال مجاهد: لا يقطعها , فإن فى قراءة أبى بن كعب (ثلاثة أيام متتابعات) ".
قلت: وهذا إسناد صحيح إن كان مجاهد سمع أبى بن كعب أو رأى ذلك فى مصحفه
مالک اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ مجاہد اور حمید ایک دن طواف کر رہے تھے کہ ایک شخص نے آ کر سوال کیا کہ کفارے کے روزے اکٹھے رکھنے ہیں یا بیچ میں وقفہ کر سکتے ہیں؟ اس پر حمید نے کہا کہ اگر چاہو تو وقفہ کر لو۔ مجاہد نے جواب دیا کہ وقفہ نہیں کر سکتے کیونکہ ابی بن کعب کے تلاوت یوں ہے
ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مُتَتَابِعَاتٍ
یعنی 3 دن لگاتار
میں یعنی البانی یہ کہتا ہوں کہ یہ سند صحیح ہے کیونکہ مجاہد نے ابی بن کعب سے سنا ہے یا پھر ان کی مصحف میں دیکھا ہے
یعنی یہاں سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ جس لفظ کا اضافہ کیا جا رہا ہے، وہ معنی الگ کر دیتا ہے۔۔۔۔
روایت نمبر 8
سورۃ رعد کی ایک آیت پیش کرتے ہیں۔ غور سے پڑھیے گا
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ
ہر شخص حفاظت کے لیے کچھ فرشتے ہیں اس کے آگے اورپیچھے الله کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں
تفسیر ابن ابی حاتم ج 7، ص 2230، ح 12191 میں یہ مستند روایت ملتی ہے
12191 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ المقري، ثنا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ: لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ: وَرُقَبَاءُ مِنْ خَلْفِهِ.
یعنی ابن عباس اس کی قرات یوں کرتے تھے
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ: وَرُقَبَاءُ مِنْ خَلْفِهِ
یہی روایت تفسیر من سنن سعید بن منصور ج 5، ص 427، ح 1159 میں بھی درج ہے، اور محقق نے سند کو صحیح کہا ہے
روایت نمبر 9
اسی آیت کے متعلق اگلی روایت تفسیر من سنن سعید بن منصور، ج 5، ص 428 پر یوں آتی ہے
1160- حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: نَا رِبْعي بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْجَارُودِ بْنِ أَبِي سَبْرَة (2) ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْجَارُودِ بْنِ أَبِي سَبْرَة (2) ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي (3) عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ بِالشَّامِ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ وَقَدْ خَرَجَ مِنْ مُسْتَحَمٍّ لَهُ وَقَدِ اغْتَسَلَ - وَأَنَا مستلقٍ - يَقْرَأُ: {لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ} ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَا أَبَا سَبْرَةَ، لَيْسَتْ هُنَاكَ الْمُعَقِّبَاتُ، وَلَكِنْ لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ خَلْفِهِ وَرَقِيبٌ بين يديه
جارود بن ابی سبرہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد شام میں ابن عباس سے ملنے جمعہ والے دن گئے۔ وہ نہانے گئے تھے۔ جب ملے تو ہم نے اس ایت کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ معقبات نہیں، بلکہ ایسے ہے
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ خَلْفِهِ وَرَقِيبٌ بين يديه
پوری ترتیب ہی بدل ڈالی
خیر، محقق نے سند کے بارے میں یوں کہا
سنده حسن لذاته
سند حسن درجے کی ہے
یہی روایت تفسیر ابن ابی حاتم ، ج 7، ص 2230 پر موجود ہے، گویا ان کی نظر میں بھی معتبر ہے
روایت نمبر 10
سورۃ رعد کی ایک اور آیت کا جزو آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں
أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا
پھر کیا ایمان والے اس بات سے نا امید ہو گئے ہیں کہ اگر الله چاہتا تو سب آدمیوں کو ہدایت کر دیتا
اب آتے ہیں کہ ابن عباس اس کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ یاد رہے قارئین کہ میری کوشش یہ ہر گز نہیں کہ میں حوالہ جات کے انبار لگاؤں، بلکہ یہ ہے کہ مستند روایت پیش کروں۔ تاکہ اختصار قائم رہے
اس سے آپ لوگوں کو زیادہ تنگی ہو گی، اور یہ مقالہ بھی بہت بڑھ جائے گا
محمد بن جریر طبری نے ایک تفسیر لکھی جس کا نام ہے جامع البيان في تأويل القرآن۔ اس کی تخریج شیخ احمد شاکر نے کی ہے، اور موسسۃ الرسالۃ نے اسے شائع کیا ہے ۔ اس کی جلد 16، صفحہ 452 پر یہ روایت آتی ہے
20410- حدثنا أحمد بن يوسف قال: حدثنا القاسم قال: حدثنا يزيد، عن جرير بن حازم، عن الزبير بن الخِرِّيت= أو يعلى بن حكيم=، عن عكرمة، عن ابن عباس، أنه كان يقرؤها:"أَفَلَمْ يَتَبيَّنِ الَّذِينَ آمنُوا"؛ قال: كتب الكاتب الأخرى وهو ناعسٌ
عکرمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس اس کی قرات یوں کرتے تھے
أَفَلَمْ يَتَبيَّنِ الَّذِينَ آمنُوا
اور کہتے تھے کہ کاتب نے لکھ دیا جب کہ اسے نیند آئی ہوئی تھی
شیخ احمد شاکر اس پر بیان کرتے ہیں
فهذا خبر رجاله ثقات، بل كل رجاله رجال الصحيحين، سوى أبي عبيد القاسم بن سلام، وهو أمام ثقة صدوق، فإسناده صحيح، لا مطعن فيه - ومع صحة إسناده لم أجد أحدًا من أصحاب الدواوين الكبار، كأحمد في مسنده، أو الحاكم في المستدرك، ولا أحدًا ممن نقل عن الدواوين الكبار، كالهيثمي في مجمع الزوائد، أخرج هذا الخبر أو أشار إلى هذه القراءة عن ابن عباس
اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں، بلکہ بخاری و مسلم کے ہیں سوائے ابی عبیدالقاسم کے،اور وہ ثقہ اور سچے ہیں۔ اس لیے سند صحیح ہے، اور کسی پر کوئی طعن نہیں کیا گیا۔ مگر اس کے باوجود مجھے حیرت ہے کہ بڑے بڑے علماء، جیسے کہ احمد نے اپنی مسند میں یا امام حاکم نے اپنی مستدرک میں، ان میں یہ روایت مجھے نہیں ملی۔ اور نہ ہی بڑے علماء جیسا کہ ہیثمی وغیرہ نے اسے اپنی کتب میں درج کیا یا اس کی طرف اشارہ کیا
اس کے بعد وہ ابن کثیر کا حوالہ دیتے ہیں کہ انہوں نےبھی صرف اسے درج کیا، تعقب نہیں کیا، اور اس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ وہ بھی سند کی صحت سے آگاہ ہیں
اس کے علاوہ ابن حجر نے بھی اسے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں درج کیا۔ جلد 8، صفحۃ 373 پر فرماتے ہیں
وَرَوَى الطَّبَرِيُّ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ كُلِّهِمْ مِنْ رِجَالِ الْبُخَارِيِّ عَن بن عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَؤُهَا أَفَلَمْ يَتَبَيَّنْ وَيَقُولُ كتبهَا الْكَاتِب وَهُوَ ناعس
طبری اور عبد بن حمید نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا، کہ جس کے سارے راوی بخاری کے ہیں۔۔۔۔۔
تفسیر من سنن سعید بن منصور کے محقق، اپنی حاشیہ میں جلد 4، صفحہ 440 پر اسی طرح کی ایک روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ سند صحیح ہے
روایت نمبر 11
امام حاکم اپنی مستدرک ج 2، ص 430 پر درج کرتے ہیں
3496 - حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَنْبَأَ عَبْدَانُ الْأَهْوَازِيُّ، ثنا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا} [النور: 27] قَالَ: «أَخْطَأَ الْكَاتِبُ حَتَّى تَسْتَأْذِنُوا» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 3496 - على شرط البخاري ومسلم
جب ابن عباس سے سورۃ النور کی آیت کے بارے میں سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا کہ کاتب نے غلطی کی، یہ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا نہیں، بلکہ حَتَّى تَسْتَأْذِنُوا ہے
حاکم نے سند کو بخاری و مسلم کے شرط پر صحیح کہا اور زہبی نے بھی اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا
ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری ج 11، ص 8 پر کچھ یوں کہا
فَأَخْرَجَ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَالطَّبَرِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الشُّعَبِ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ أَنَّ بن عَبَّاسٍ كَانَ يَقْرَأُ حَتَّى تَسْتَأْذِنُوا وَيَقُولُ أَخْطَأَ الْكَاتِبُ
سعید بن منصور، طبری، بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ۔۔۔۔
اس سے پہلے بھی ہم آپ کو عائشہ کا قول پیش کر چکے ہیں۔ کہ یہ خطاء تھی کاتب کی جانب سے ۔ روایت نمبر 6 دیکھیے
ذرا دیکھیں کہ ان کے عالم، ابو حیان اندلسی اپنی تفسیر بحر المحیط، ج 8، ص 30-31 پر کیا درج کرتے ہیں
وَمَنْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ قَوْلَهُ تَسْتَأْنِسُوا خَطَأٌ أَوْ وَهْمٌ مِنَ الْكَاتِبِ وَأَنَّهُ قَرَأَ حَتَّى تَسْتَأْذِنُوا فَهُوَ طَاعِنٌ فيالْإِسْلَامِ مُلْحِدٌ فِي الدِّينِ، وَابْنُ عَبَّاسٍ بَرِيءٌ مِنْ هذا القول
اور جس نے ابن عباس سے نقل کیا کہ یہ قول خطا ہے یہ کاتب کا وہم ہے، اور اس نے یہ قرات کی، تو اس نے اسلام میں طعن کیا، اور وہ دین سے ملحد ہے۔
اہلسنت کے امام رازی کے لیے بھی ادھر مصیبت بن گئی۔ اپنی تفسیر کے جلد 23، صفحہ 356 پر فرماتے ہیں
وَاعْلَمْ أَنَّ هَذَا الْقَوْلَ مِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيهِ نَظَرٌ لِأَنَّهُ يَقْتَضِي الطَّعْنَ فِي الْقُرْآنِ الَّذِي نُقِلَ بِالتَّوَاتُرِ وَيَقْتَضِي صِحَّةَ الْقُرْآنِ الَّذِي لَمْ يُنْقَلُ بِالتَّوَاتُرِ وَفَتْحُ هَذَيْنِ الْبَابَيْنِ يُطْرِقُ الشَّكَّ إِلَى كُلِّ الْقُرْآنِ وَأَنَّهُ بَاطِلٌ
جان لیں کہ ابن عباس کے اس قول میں نظر ثانی کرنی ہو گی کیونکہ یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ نکتہ چینی کریں اس قرآن میں جو تواتر کے ساتھ ہمارے پاس آئی ہے۔ اور اس قرآن کی صحت کو مان لیں جو کہ تواتر کے ساتھ نہیں آئی۔ اور یہ دونوں باتیں پورے قرآن کو مشکوک کر دیتی ہیں، اور یہ باطل ہے
اچھا جی
تو ایک قرآن تواتر سے آیا، اور ایسا بھی ہے جو تواتر سے نہیں آیا
خیر جو مرضی آپ کہہ لیں۔۔۔۔آپ پر کونسا فتوی لگ جانا ہے
اس کے لیے شیعہ موجود ہیں ناں۔۔۔۔
روایت نمبر 12
سورۃ نور کی آیت پیش خدمت ہے
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ
الله آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہو
تفسیر ابن حاتم ج 8، ص 2594 پر یہ روایت ہمیں ابن عباس سے ملتی ہے
14560 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ شِبْلِ بْنِ عَبَّادٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: اللَّهُ نور السماوات والأرض مثل نُورِهِ
قَالَ: هِيَ خَطَأٌ مِنَ الْكَاتِبِ هُوَ أَعْظَمُ مِنْ أَنْ يَكُونَ نُورُهُ مِثْلَ نُورِ الْمِشْكَاةِ قَالَ:
مَثَلُ نُورِ الْمُؤْمِنِ كَمِشْكَاةٍ.
ابن عباس سے روایت ہے اس آیت کے بارے میں کہ انہوں نے کہا کہ یہ کاتب سے غلطی ہوئی ہے۔ وہ ذات بلند ہے اس سے کہ اس کے نور کو چراغ سے مثال دی جائے، یہ اس طرح ہے
مَثَلُ نُورِ الْمُؤْمِنِ كَمِشْكَاةٍ
یعنی مومن کا نور چراغ کی مانند ہے
لو جی کر لو بات، امام المفسرین تو کاتبین کے پیچھے ہی پر گئے
روایت نمبر 13
عبداللہ بن مسعود کا شمار جید ترین صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ معوذتین قرآن میں شامل نہیں۔ اس بارے میں ہم زیادہ تفصیل میں نہیں جائیں گے بس کچھ ہی روایت کی طرف نشاندہی کریں گے۔
سیوطی اپنی تفسیر در منثور، ج 8، ص 683 پر درج کرتے ہیں
أخرج أَحْمد وَالْبَزَّار وَالطَّبَرَانِيّ وَابْن مرْدَوَيْه من طرق صَحِيحَة عَن ابْن عَبَّاس وَابْن مَسْعُود أَنه كَانَ يحك المعوّذتين من الْمُصحف وَيَقُول: لَا تخلطوا الْقُرْآن بِمَا لَيْسَ مِنْهُ إنَّهُمَا ليستا من كتاب الله إِنَّمَا أَمر النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِن يتعوّذ بهما وَكَانَ ابْن مَسْعُود لَا يقْرَأ بهما
احمد، بزار، طبرانی، ابن مردویہ نے صحیح سندوں کے ساتھ ابن عباس اور ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ وہ موذتین کو قران سے مٹاتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ قرآن میں اس چیز کا شامل نہ کرو جو اس میں نہیں۔ اللہ نے نبی نے ہمیں اس کے ذریعے پناہ مانگنے کا کہا تھا۔ اور ابن مسعود ان کی قرات نہیں کرتے تھے
ابن حبان اپنی صحیح ج 10، ص 274 میں یوں نقل کرتے ہیں
4429 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ مُكْرَمٍ بِالْبَصْرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ الْأَبَّارُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ: لَقِيتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ يَحُكُّ الْمُعَوِّذَتَيْنِ مِنَ الْمَصَاحِفِ، وَيَقُولُ إِنَّهُمَا لَيْسَتَا مِنَ الْقُرْآنِ فَلَا تَجْعَلُوا فِيهِ مَا لَيْسَ مِنْهُ. قَالَ أُبَيٌّ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ لَنَا، فَنَحْنُ نَقُولُ. كَمْ تَعُدُّونَ سُورَةَ الْأَحْزَابِ مِنْ آيَةٍ؟ قَالَ قُلْتُ: ثَلَاثًا وَسَبْعِينَ، قَالَ أُبَيٌّ: وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ إِنْ كَانَتْ لَتَعْدِلُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَلَقَدْ قَرَأْنَا فِيهَا آيَةَ الرَّجْمِ: الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ1
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب سے ملا، اور انہیں کہا کہ ابن مسعود قرآن سے معوذتین مٹاتے تھے، اور کہتے تھے کہ یہ قرآن میں شامل نہیں، تو اس کو قرآن میں مت شمار کرو۔ ابی نے کہا کہ ہم نے نبی اکرم سے پوچھا، تو انہوں نے کہا، اور ہم وہی کہتے ہیں جو انہوں نے کہا۔ پھر ابی نے مجھ سے پوچھا کہ سورہ احزاب میں کتنی آیتیں ہیں۔ میں نے کہا کہ 73۔ انہوں نے کہا کہ قسم کہا کر کہتا ہوں کہ یہ سورہ بقرہ جتنی لمبی تھی۔ اور اس میں آیت رجم شامل تھی۔
لو جی کر لو بات۔ ایک مسئلہ حل ہوا نہیں کہ اور مسئلہ چھیڑ دیا
خیر اس پر بعد میں آتے ہیں
محقق شیخ شعیب الارناوط اس سند پر حکم یوں لگاتے ہیں
عاصم بن أبي النجود صدوق له أوهام، وحديثه في الصحيحين مقرون، وباقي السند ثقات على شرط الصحيح
عاصم بن ابی نجود صدوق یعنی سچے ہیں اگرچہ انہیں وہم ہوتے تھے۔ اور ان کی روایات بخاری و مسلم میں مقرون انداز میں شامل ہیں۔ باقی سند کے راوی ثقہ ہیں، اور صحیح کی شرط پر ہیں
یاد رہے کہ یہاں پر شیخ شعیب نے سند پر مکمل حکم نہیں لگایا کیونکہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ روایت 2 صحابہ کا تحریف واضح کر رہی ہے۔ مگر اسی کتاب میں کئی مقامات پر جب عاصم بن ابی نجود کی روایت آئی تو انہوں نے اسے حسن سند قرار دیا۔ مگر یہاں پر منافقت ضروری تھی، سو کی۔ ایک حوالہ دیتا ہوں۔ جلد 1، ص 234 پر ایک سند پر یوں حکم لگایا
إسناده حسن من أجل عاصم، فإن حديثه لا يرتقي إلى الصحة، وأخرجه الطيالسي "411" ومن طريقه البيهقي في "دلائل النبوة" 2/364 عن حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النجود، بهذا الإسناد.
یہ سند حسن ہے عاصم کی وجہ سے، ان کی روایت صحیح تک نہیں پہنچتی
بس ایک اور حوالہ پیش کرتے ہیں اور پھر آگے چلتے ہیں
مسند احمد، ج 35، ص 117 پر یہ روایت آتی ہے
21188 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ أَشْكَابٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مَعْنٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللهِ، " يَحُكُّ الْمُعَوِّذَتَيْنِ مِنْ مَصَاحِفِهِ، وَيَقُولُ: إِنَّهُمَا لَيْسَتَا مِنْ كِتَابِ اللهِ "
عبداللہ بن مسعود معوذتین کو قرآن میں سے مٹاتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہے
شیخ شعیب نے سند کے بارے میں کہا
إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الصحيح.
یہ سند صحیح ہے، راوی سارے ثقہ ہیں، اور صحیح حدیث کے ہیں
یہی روایت مجمع الزوائد، ج 7، ص 149 پر ہے اور علامہ ہیثمی نے سند کے بارے میں کہا
رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُ عَبْدِ اللَّهِ رِجَالُ الصَّحِيحِ، وَرِجَالُ الطَّبَرَانِيِّ ثِقَاتٌ.
عبداللہ بن احمد اور طبرانی نے روایت کی۔ عبداللہ نے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں، اور طبرانی کے راوی ثقہ ہیں
میرے خیال میں اس موضوع کو مزید نہیں بڑھاتے، اور اگلی روایت پیش کرتے ہیں
روایت نمبر 14
تفسیر من سنن سعید بن منصور، ج 2، ص 432-433 سے روایت پیش خدمت ہے
140- حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ (1) ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَا يقولنَّ أحدُكم: أَخَذْتُ الْقُرْآنَ كلَّه، وَمَا يُدْرِيهِ مَا كلُّه، قَدْ ذَهَبَ مِنْهُ قُرْآنٌ كَثِيرٌ، وَلَكِنْ يَقُولُ: أَخَذْنَا مَا ظَهَرَ منه
ابن عمر کہتے ہیں کہ کوئی بھی یہ نہ کہے کہ مجھے پورا قرآن ملا۔ کون جانتا ہے کہ پورا کتنا ہے۔ اس قرآن کا بیشتر حصہ چلا گیا۔ اس لیے کہو کہ مجھے اتنا ملا جتنا ظاہر ہے
کتاب کے محقق، اگلے صفحے پر سند پر یہ حکم لگاتے ہیں
[140] سنده صحيح
سند صحیح ہے
روایت نمبر 15
اور جس نے ابن عباس سے نقل کیا کہ یہ قول خطا ہے یہ کاتب کا وہم ہے، اور اس نے یہ قرات کی، تو اس نے اسلام میں طعن کیا، اور وہ دین سے ملحد ہے۔
اہلسنت کے امام رازی کے لیے بھی ادھر مصیبت بن گئی۔ اپنی تفسیر کے جلد 23، صفحہ 356 پر فرماتے ہیں
وَاعْلَمْ أَنَّ هَذَا الْقَوْلَ مِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيهِ نَظَرٌ لِأَنَّهُ يَقْتَضِي الطَّعْنَ فِي الْقُرْآنِ الَّذِي نُقِلَ بِالتَّوَاتُرِ وَيَقْتَضِي صِحَّةَ الْقُرْآنِ الَّذِي لَمْ يُنْقَلُ بِالتَّوَاتُرِ وَفَتْحُ هَذَيْنِ الْبَابَيْنِ يُطْرِقُ الشَّكَّ إِلَى كُلِّ الْقُرْآنِ وَأَنَّهُ بَاطِلٌ
جان لیں کہ ابن عباس کے اس قول میں نظر ثانی کرنی ہو گی کیونکہ یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ نکتہ چینی کریں اس قرآن میں جو تواتر کے ساتھ ہمارے پاس آئی ہے۔ اور اس قرآن کی صحت کو مان لیں جو کہ تواتر کے ساتھ نہیں آئی۔ اور یہ دونوں باتیں پورے قرآن کو مشکوک کر دیتی ہیں، اور یہ باطل ہے
اچھا جی
تو ایک قرآن تواتر سے آیا، اور ایسا بھی ہے جو تواتر سے نہیں آیا
خیر جو مرضی آپ کہہ لیں۔۔۔۔آپ پر کونسا فتوی لگ جانا ہے
اس کے لیے شیعہ موجود ہیں ناں۔۔۔۔
روایت نمبر 12
سورۃ نور کی آیت پیش خدمت ہے
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ
الله آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہو
تفسیر ابن حاتم ج 8، ص 2594 پر یہ روایت ہمیں ابن عباس سے ملتی ہے
14560 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ شِبْلِ بْنِ عَبَّادٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: اللَّهُ نور السماوات والأرض مثل نُورِهِ
قَالَ: هِيَ خَطَأٌ مِنَ الْكَاتِبِ هُوَ أَعْظَمُ مِنْ أَنْ يَكُونَ نُورُهُ مِثْلَ نُورِ الْمِشْكَاةِ قَالَ:
مَثَلُ نُورِ الْمُؤْمِنِ كَمِشْكَاةٍ.
ابن عباس سے روایت ہے اس آیت کے بارے میں کہ انہوں نے کہا کہ یہ کاتب سے غلطی ہوئی ہے۔ وہ ذات بلند ہے اس سے کہ اس کے نور کو چراغ سے مثال دی جائے، یہ اس طرح ہے
مَثَلُ نُورِ الْمُؤْمِنِ كَمِشْكَاةٍ
یعنی مومن کا نور چراغ کی مانند ہے
لو جی کر لو بات، امام المفسرین تو کاتبین کے پیچھے ہی پر گئے
روایت نمبر 13
عبداللہ بن مسعود کا شمار جید ترین صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ معوذتین قرآن میں شامل نہیں۔ اس بارے میں ہم زیادہ تفصیل میں نہیں جائیں گے بس کچھ ہی روایت کی طرف نشاندہی کریں گے۔
سیوطی اپنی تفسیر در منثور، ج 8، ص 683 پر درج کرتے ہیں
أخرج أَحْمد وَالْبَزَّار وَالطَّبَرَانِيّ وَابْن مرْدَوَيْه من طرق صَحِيحَة عَن ابْن عَبَّاس وَابْن مَسْعُود أَنه كَانَ يحك المعوّذتين من الْمُصحف وَيَقُول: لَا تخلطوا الْقُرْآن بِمَا لَيْسَ مِنْهُ إنَّهُمَا ليستا من كتاب الله إِنَّمَا أَمر النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِن يتعوّذ بهما وَكَانَ ابْن مَسْعُود لَا يقْرَأ بهما
احمد، بزار، طبرانی، ابن مردویہ نے صحیح سندوں کے ساتھ ابن عباس اور ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ وہ موذتین کو قران سے مٹاتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ قرآن میں اس چیز کا شامل نہ کرو جو اس میں نہیں۔ اللہ نے نبی نے ہمیں اس کے ذریعے پناہ مانگنے کا کہا تھا۔ اور ابن مسعود ان کی قرات نہیں کرتے تھے
ابن حبان اپنی صحیح ج 10، ص 274 میں یوں نقل کرتے ہیں
4429 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ مُكْرَمٍ بِالْبَصْرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ الْأَبَّارُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ: لَقِيتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ يَحُكُّ الْمُعَوِّذَتَيْنِ مِنَ الْمَصَاحِفِ، وَيَقُولُ إِنَّهُمَا لَيْسَتَا مِنَ الْقُرْآنِ فَلَا تَجْعَلُوا فِيهِ مَا لَيْسَ مِنْهُ. قَالَ أُبَيٌّ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ لَنَا، فَنَحْنُ نَقُولُ. كَمْ تَعُدُّونَ سُورَةَ الْأَحْزَابِ مِنْ آيَةٍ؟ قَالَ قُلْتُ: ثَلَاثًا وَسَبْعِينَ، قَالَ أُبَيٌّ: وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ إِنْ كَانَتْ لَتَعْدِلُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَلَقَدْ قَرَأْنَا فِيهَا آيَةَ الرَّجْمِ: الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ1
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب سے ملا، اور انہیں کہا کہ ابن مسعود قرآن سے معوذتین مٹاتے تھے، اور کہتے تھے کہ یہ قرآن میں شامل نہیں، تو اس کو قرآن میں مت شمار کرو۔ ابی نے کہا کہ ہم نے نبی اکرم سے پوچھا، تو انہوں نے کہا، اور ہم وہی کہتے ہیں جو انہوں نے کہا۔ پھر ابی نے مجھ سے پوچھا کہ سورہ احزاب میں کتنی آیتیں ہیں۔ میں نے کہا کہ 73۔ انہوں نے کہا کہ قسم کہا کر کہتا ہوں کہ یہ سورہ بقرہ جتنی لمبی تھی۔ اور اس میں آیت رجم شامل تھی۔
لو جی کر لو بات۔ ایک مسئلہ حل ہوا نہیں کہ اور مسئلہ چھیڑ دیا
خیر اس پر بعد میں آتے ہیں
محقق شیخ شعیب الارناوط اس سند پر حکم یوں لگاتے ہیں
عاصم بن أبي النجود صدوق له أوهام، وحديثه في الصحيحين مقرون، وباقي السند ثقات على شرط الصحيح
عاصم بن ابی نجود صدوق یعنی سچے ہیں اگرچہ انہیں وہم ہوتے تھے۔ اور ان کی روایات بخاری و مسلم میں مقرون انداز میں شامل ہیں۔ باقی سند کے راوی ثقہ ہیں، اور صحیح کی شرط پر ہیں
یاد رہے کہ یہاں پر شیخ شعیب نے سند پر مکمل حکم نہیں لگایا کیونکہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ روایت 2 صحابہ کا تحریف واضح کر رہی ہے۔ مگر اسی کتاب میں کئی مقامات پر جب عاصم بن ابی نجود کی روایت آئی تو انہوں نے اسے حسن سند قرار دیا۔ مگر یہاں پر منافقت ضروری تھی، سو کی۔ ایک حوالہ دیتا ہوں۔ جلد 1، ص 234 پر ایک سند پر یوں حکم لگایا
إسناده حسن من أجل عاصم، فإن حديثه لا يرتقي إلى الصحة، وأخرجه الطيالسي "411" ومن طريقه البيهقي في "دلائل النبوة" 2/364 عن حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النجود، بهذا الإسناد.
یہ سند حسن ہے عاصم کی وجہ سے، ان کی روایت صحیح تک نہیں پہنچتی
بس ایک اور حوالہ پیش کرتے ہیں اور پھر آگے چلتے ہیں
مسند احمد، ج 35، ص 117 پر یہ روایت آتی ہے
21188 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ أَشْكَابٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مَعْنٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللهِ، " يَحُكُّ الْمُعَوِّذَتَيْنِ مِنْ مَصَاحِفِهِ، وَيَقُولُ: إِنَّهُمَا لَيْسَتَا مِنْ كِتَابِ اللهِ "
عبداللہ بن مسعود معوذتین کو قرآن میں سے مٹاتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہے
شیخ شعیب نے سند کے بارے میں کہا
إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الصحيح.
یہ سند صحیح ہے، راوی سارے ثقہ ہیں، اور صحیح حدیث کے ہیں
یہی روایت مجمع الزوائد، ج 7، ص 149 پر ہے اور علامہ ہیثمی نے سند کے بارے میں کہا
رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُ عَبْدِ اللَّهِ رِجَالُ الصَّحِيحِ، وَرِجَالُ الطَّبَرَانِيِّ ثِقَاتٌ.
عبداللہ بن احمد اور طبرانی نے روایت کی۔ عبداللہ نے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں، اور طبرانی کے راوی ثقہ ہیں
میرے خیال میں اس موضوع کو مزید نہیں بڑھاتے، اور اگلی روایت پیش کرتے ہیں
روایت نمبر 14
تفسیر من سنن سعید بن منصور، ج 2، ص 432-433 سے روایت پیش خدمت ہے
140- حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: نا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ (1) ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَا يقولنَّ أحدُكم: أَخَذْتُ الْقُرْآنَ كلَّه، وَمَا يُدْرِيهِ مَا كلُّه، قَدْ ذَهَبَ مِنْهُ قُرْآنٌ كَثِيرٌ، وَلَكِنْ يَقُولُ: أَخَذْنَا مَا ظَهَرَ منه
ابن عمر کہتے ہیں کہ کوئی بھی یہ نہ کہے کہ مجھے پورا قرآن ملا۔ کون جانتا ہے کہ پورا کتنا ہے۔ اس قرآن کا بیشتر حصہ چلا گیا۔ اس لیے کہو کہ مجھے اتنا ملا جتنا ظاہر ہے
کتاب کے محقق، اگلے صفحے پر سند پر یہ حکم لگاتے ہیں
[140] سنده صحيح
سند صحیح ہے
روایت نمبر 15
سورۃ مریم سے ایک آیت پیش کرتے ہیں
إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا
میں نے رحمان کے لیے روزہ کی نذر مانی ہے سو آج میں کسی انسان سے بات نہیں کروں گی
تفسیر طبری، ج 15، ص 517 پر یہ روایت ملتی ہے ہمیں
حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ، قَالَ: ثنا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، قَرَأَ: «إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا وَصَمْتًا»
انس صحابی اس آیت کی تلاوت یوں کرتے تھے کہ
إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا وَصَمْتًا
اس روایت میں یعقوب بن ابراہیم الدورقی صحاح ستہ کہ راوی ہیں۔ ابن علیہ بھی صحاح ستہ کے راوی ہیں- سلیمان بن طرخان التیمی بھی صحاح ستہ کے راوی ہیں۔ میں اہلبیت کا ادنی سا غلام یہ کہتا ہوں کہ یہ سند صحیح ہے، اور سارے راوی بخاری و مسلم کے ہیں
یہی روایت فضائل قرآن ، ج 1، ص 304 پر قاسم بن سلام نے درج کی
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقْرَأُ: (إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا وَصَمْتًا)
اور عباد بن عوام بھی صحاح ستہ کے راوی ہیں
گویا یہ سند بھی شیخین کے شرط پر صحیح ہے
روایت نمبر 16
سورۃ حج کی آیت پیش خدمت ہے
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ
اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی بھی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجا کہ جس نے جب کوئی تمنا کی ہو
مسند اسحاق بن راہویہ ، ج 2، ص 480 پر یہ روایت ملتی ہے
أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ «وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ وَلَا مُحَدَّثٍ»
ابن عباس اس آیت کی تلاوت یوں کرتے تھے
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ وَلَا مُحَدَّثٍ
سفیان ابن عینیہ اور عمرو بن دینار، دونوں صحاح ستہ کے راوی ہیں۔
گویا یہ سند بھی صحیح ہے
روایت نمبر 17
سورۃ مدثر کی کچھ آیات پیش خدمت ہیں
40. فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ
باغوں میں ہو ں گے ایک دوسرے سے پوچھیں گے
41. عَنِ الْمُجْرِمِينَ
گناہگارو ں کی نسبت
42. مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ
کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا
فضائل قرآن، میں قاسم بن سلام یہ روایت نقل کرتے ہیں
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي الزَّعْرَاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَرَأَ: (يَا أَيُّهَا الْكُفَّارُ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ)
عبداللہ ابن زبیر اس آیت کی تلاوت یوں کرتے تھے کہ
يَا أَيُّهَا الْكُفَّارُ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ
عبدالرحمن بن مہدی، سفیان ابن عینیہ، سلمہ بن کھیل صحاح ستہ کے راوی ہیں، ابو زعراء کا نام عمرو ابن عمرو یا ابن عامر ابن مالک ہے۔ اور ابن حجر نے انہیں بھی ثقہ قرار دیا ہے
گویا یا سند بھی صحیح ہے۔
نیز یہ روایت تفسیر ابن ابی حاتم، ج 10، ص 3385 پر بھی موجود ہے
گویا ان کی نظر میں بھی معتبر ہے
روایت نمبر 18
ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب اتحاف الخیرۃ المہرۃ بزوائد المسانید المشرۃ، ج 10، ص 181 پر یہ روایت درج کرتے ہیں
5787 - وَقَالَ إِسْحَاقُ بن راهويه: أبنا عبد الرزاق، أبنا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ بِجَالَةَ التَّمِيمِيِّ قَالَ: "وَجَدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- مُصْحَفًا فِي حِجْرِ غُلَامٍ لَهُ فِيهِ: "النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وُهُوَ أَبٌ لَهُمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ" فَقَالَ: احْكُكْهَا يَا غُلَامُ. فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَحُكُّهَا، وَهِيَ فِي مُصْحَفِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: شَغَلَنِي الْقُرْآنُ وشغلك الصفق في الأسواق إذ يعرض رحاك عَلَى عُنُقِكَ بِبَابِ ابْنِ الْعَجْمَاءِ".
هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِيِّ.
عمر کو حجرہ میں ایک لڑکے کے ہاتھوں میں قرآن کا نسخہ ملا کہ جس میں یہ آیت یوں لکھی ہوئی تھی
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وُهُوَ أَبٌ لَهُمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ"
عمر نے اسے کہا کہ اس کو مٹاؤ۔ اس نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! میں نہیں مٹاؤں گا۔ ابی بن کعب کے مصحف میں یوں ہی ہے۔ عمر ابی بن کعب کے پاس گیا ۔ اس نے کہا کہ میں قرآن میں مصروف تھا اور تم بازاروں میں اور عجمیوں کے پاس مصروف تھے۔
ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ سند بخاری کی شرط پر صحیح ہے
روایت نمبر 19
سورۃ الاسرا کی آیت کا جزو پیش خدمت ہے
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ
اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو
ابن حجر فتح الباری، ج 8، ص 373 پر درج کرتے ہیں
وَقد جَاءَ عَن بن عَبَّاسٍ نَحْوُ ذَلِكَ فِي قَوْلُهُ تَعَالَى وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاه قَالَ وَوَصَّى الْتَزَقَتِ الْوَاوُ فِي الصَّادِ أَخْرَجَهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ عَنْهُ
ابن عباس سے اس آیت میں یوں آیا ہے کہ قضی کی جگہ پر وصی کا لفظ ہے۔ سعید بن منصور نے جید سند کے ساتھ ان سے نقل کیا ہے
سند کی ذمہ داری ہم ابن حجر پر ڈال رہے ہیں
روایت نمبر 20
سورۃ اعلی کی آیک آیت پیش ہے
1. سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى
اپنے رب کے نام کی تسبیح کیا کر جو سب سے اعلیٰ ہے
امام حاکم اپنی مستدرک، ج 2، ص 567 پر درج کرتے ہیں
3923 - حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الْفَقِيهُ، ثنا الْهَيْثَمُ بْنُ خَلَفٍ، ثنا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَشُرَيْحُ بْنُ يُونُسَ، قَالَا: ثنا هُشَيْمٌ، أَنْبَأَ أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَرَأَ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} [الأعلى: 1] قَالَ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى» قَالَ: وَهِيَ قِرَاءَةُ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 3923 - على شرط البخاري ومسلم
ابن عمر جب اس آیت کو پڑھتے تھے، تو یوں پڑھتے
سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى
اور کہتے تھے کہ یہ ابی بن کعب کی قرات ہے۔
امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ سند بخار و مسلم کی شرط پر صحیح ہے مگر انہوں نے نہیں لکھی۔
علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے
روایت نمبر 21
سورۃ العصر آپ نے کئی بار پڑھی ہو گی۔ ایک روایت امام حاکم اپنی مستدرک، ج 2، ص 582 پر درج کرتے ہیں
3971 - أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَّارُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَ إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرٍو ذِي مَرٍّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ " قَرَأَ: وَالْعَصْرِ وَنَوَائِبِ الدَّهْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 3971 - صحيح
حضرت علی اس سورۃ کی قرات یوں کرتے تھے
وَالْعَصْرِ وَنَوَائِبِ الدَّهْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ
امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے، مگر بخاری و مسلم نے نہیں لکھی
علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ یہ صحیح روایت ہے
روایت نمبر 22
قاسم بن سلام اپنی فضائل قرآن ، ج 1، ص 318 پر یہ روایت نقل کرتے ہیں
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي نَوْفَلِ بْنِ أَبِي عَقْرَبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَرَأَ (إِذَا جَاءَ فَتْحُ اللَّهِ وَالنَّصْرِ)
ابن عباس اس سورۃ کی تلاوت یوں کرتے تھے
إِذَا جَاءَ فَتْحُ اللَّهِ وَالنَّصْرِ
جی ہاں، ترتیب مخلتف ہے
محمد بن جعفر الہذلی اور شعبہ صحاح ستہ کے راوی ہیں۔ اور ثقہ ہیں
ابی نوفل امام مسلم کے راوی ہیں، نیز ابو داؤد اور نسائی نے بھی ان سے روایت لی
اس لیے یہ سند کم سے کم امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے
روایت نمبر 23
صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ، ج 2، ص 726 سے ایک روایت حاضر ہے
119 - (1050) حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَعَثَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ إِلَى قُرَّاءِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ ثَلَاثُمِائَةِ رَجُلٍ قَدْ قَرَءُوا الْقُرْآنَ، فَقَالَ: أَنْتُمْ خِيَارُ أَهْلِ الْبَصْرَةِ وَقُرَّاؤُهُمْ، فَاتْلُوهُ، وَلَا يَطُولَنَّ عَلَيْكُمُ الْأَمَدُ فَتَقْسُوَ قُلُوبُكُمْ، كَمَا قَسَتْ قُلُوبُ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَإِنَّا كُنَّا نَقْرَأُ سُورَةً، كُنَّا نُشَبِّهُهَا فِي الطُّولِ وَالشِّدَّةِ بِبَرَاءَةَ، فَأُنْسِيتُهَا، غَيْرَ أَنِّي قَدْ حَفِظْتُ مِنْهَا: لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ، لَابْتَغَى وَادِيًا ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَكُنَّا نَقْرَأُ سُورَةً، كُنَّا نُشَبِّهُهَا بِإِحْدَى الْمُسَبِّحَاتِ، فَأُنْسِيتُهَا، غَيْرَ أَنِّي حَفِظْتُ مِنْهَا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ، فَتُكْتَبُ شَهَادَةً فِي أَعْنَاقِكُمْ، فَتُسْأَلُونَ عَنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ "
آن لائن لنک سے ترجمہ پیش خدمت ہے
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے قاریوں کو بلوایا تو ان کے پاس سو ایسے شخص آئے جو قرآن مجید پڑھ چکے تھے ، حضرت ابو موسیٰ نے کہا تم اہل بصرہ میں سب سے بہتر ہو اور اے قرآن پڑھنے والو!تم قرآن مجید پڑھتے رہو، کہیں زیادہ مدت گزرجانے سے تمہارے دل سخت نہ ہوجائیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں کے دل سخت ہوگئے تھے ، اور ہم ایک سورت پڑھتے تھے جو لمبائی میں اور سخت وعیدات میں سورۃ توبہ کے برابر تھی مجھے وہ سورت بھلادی گئی البتہ اس کی اتنی بات یاد رہی کہ ابن آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ سوائے مٹی کے کوئی نہیں بھر سکتا اور ہم ایک سورۃاور پڑھتے تھے جس کو ہم مسبحات(جو سورت سبح سے شروع ہوتی ہے) میں سے ایک سورت کے برابر جانتے تھے وہ بھی مجھے بھلادی گئی ، البتہ اس میں سے مجھے اتنا یاد ہے (یا ایھا الذین آمنوا لم تقولون مالا تفعلون)کو یاد رکھا ہے یعنی اے ایمان والوں وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں تو تمہاری گردنوں میں شہادت کے طور پر لکھ دی جاتی ہے قیامت کے دن تم سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔
تو جناب ابو موسی اشعری ہمیں ایک سورۃ کا بتا رہے ہیں کہ جس کی ایک آیت یاد ہے۔ باقی وہ بھول گئے۔ انہوں نے یہ کہیں بھی نہیں کہا کہ جناب یہ سورۃ منسوخ تھا، بلکہ یہ کہا کہ مجھے یاد نہیں
یاد رہے کہ مشہور صحابی، ابی بن کعب بھی ایک ایسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں
امام حاکم اپنی مستدرک، ج 2، ص 244 پر درج کرتے ہیں
2889 – أخبرني عبد الرحمن بن الحسن بن أحمد الأسدي ثنا إبراهيم بن الحسين بن ديزيل ثنا آدم بن أبي إياس ثنا شعبة عن عاصم عن زر عن أبي بن كعب رضي الله عنه قال : قال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن الله أمرني أن أقرأ عليك القرأن فقرأ : { لم يكن الذين كفروا من أهل الكتاب و المشركين } و من نعتها لو أن ابن آدم سأل واديا من مال فأعطيته سأل ثانيا سأل ثالثا و لا يملأ جوف ابن آدم إلا التراب و يتوب الله على من تاب و أن الدين عند الله الحنيفية غير اليهودية و لا النصرانية و من يعمل خيرا فلن يكفره
هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه
تعليق الذهبي قي التلخيص : صحيح
ابی بن کعب کہتے ہیں کہ نبی پاک نے ہمیں کہا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا کہ میں تمہارے لیے قرآن کی قرات کروں، اس کے بعد انہوں نے اس کی قرات کی
کہ اگر ابن آدم ایک وادی مانگے مال سے بھری ہوئی، اور میں اسے دے دوں، تو وہ ایک اور مانگے گا، اور اگر وہ بھی دے دوں تو وہ تیسری وادی مانگے گا، ابن آدم کا پیٹ سوائے مٹی کہ کچھ نہیں بھر سکتا۔ اللہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے، جو توبہ کرتے ہیں۔ اور دین اللہ کی نظر میں حنیفیہ ہے، نہ کہ ییہودیہ یا نصرانیہ، اور جو اچھے پر عمل کرتے گا، اس کے اچھائی کا انکار نہیں کیا جائے گا
امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ صحیح حدیث ہے، جو لکھی نہیں گئی
علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ یہ صحیح ہے
روایت نمبر 24
یہ روایت صحیح بخاری و مسلم دوںوں میں موجود ہے۔ ہم اسے صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب 89، ج 1، ص 193 سے پیش کر رہے ہیں
آن لائن لنک یوں متن اور ترجمہ دیتا ہے
و حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ { وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ } وَرَهْطَكَ مِنْهُمْ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ فَقَالُوا مَنْ هَذَا الَّذِي يَهْتِفُ؟ قَالُوا مُحَمَّدٌ فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ فَقَالَ يَا بَنِي فُلَانٍ يَا بَنِي فُلَانٍ يَا بَنِي فُلَانٍ يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ فَقَالَ أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ بِسَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ قَالُوا مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا قَالَ فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ. قَالَ فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ تَبًّا لَكَ أَمَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا؟ ثُمَّ قَامَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ {تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَقَدْ تَبَّ} كَذَا قَرَأَ الْأَعْمَشُ إِلَى آخِرِ السُّورَةِ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺپر جب یہ آیت نازل ہوئی ”اپنے قریبی رشتہ داروں اور اپنی قوم کے مخلص لوگوں کو ڈرائیے “تو رسول اللہ ﷺنکلے یہاں تک کہ آپ صفا پہاڑ پر چڑھ گئے اور” پکارا یا صباحاہ“ لوگوں نے کہا یہ کون پکارتا ہے؟ انہوں نے کہا محمدﷺہیں پھر سب لوگ آپ کے پاس اکٹھے ہوئے ۔ آپ نے فرمایا اے فلانے کے بیٹو! اے فلانے کے بیٹو! اے فلانے کے بیٹو!اے عبد المناف کے بیٹو! اے عبد المطلب کے بیٹو! و ہ سب اکھٹے ہوئے تو آپ نے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے نیچےگھڑ سوار ہیں۔کیا تم میری تصدیق کروگے ۔ انہوں نے کہا ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔آپ ﷺنے فرمایا تو پھر میں تم کو سخت عذاب سے ڈراتا ہوں۔ابو لہب نے کہا خرابی ہو تمہاری تم نے ہمیں اسی لیے جمع کیا ۔ پھر وہ کھڑا ہوا اس وقت یہ سورت نازل ہوئی ”تبت یدا ابی لہب و تب“ یعنی ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوں ۔ اعمش نے اس سورت کو یونہی آخر تک پڑھا (یعنی قد کا حرف زیادہ کیا اور مشہور قرأت تب ہے بغیر قد کے۔
غور سے دیکھیے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ سرخ رنگ میں دیے گئے الفاظ زائد ہیں۔ یہ قرآن میں موجود نہیں
یہاں پر اہلسنت کی جانب سے یہ بہانہ بنا دیا جاتا ہے کہ یہ منسوخ ہو گیا، جیسا کہ صحیح مسلم کے محقق، فواد عبدالباقی امام نووی سے نقل کرتے ہیں
(ورهطك منهم المخلصين) قال الإمام النووي الظاهر أن هذا كان قرآنا أنزل ثم نسخت تلاوته
اس حصے کے بارے میں امام نووی نے کہا یہ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ قرآن میں نازل ہوا، اور پھر اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی
سوال یہ ہے کہ ابن عباس تو اسے منسوخ نہیں مانتے تھے، وہ تو قرآن میں اضافہ کررہے تھے، ان پر کیا فتوی لگے گا؟ اور یہ مت بھولیے گا کہ یہ بہانہ نہ بنایں کہ جی ان تک خبر نہیں گئی۔۔۔۔۔کمال ہے! امام المفسرین کہا جاتا ہے انہیں، ان تک خبر نہیں گئی؟؟؟؟
روایت نمبر 25
دوبارہ صحیح مسلم، ج 2، ص 1098، کتاب الطلاق سے ایک روایت حاضر ہے
وَحَدَّثَنِى هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِى أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَيْمَنَ مَوْلَى عَزَّةَ يَسْأَلُ ابْنَ عُمَرَ وَأَبُو الزُّبَيْرِ يَسْمَعُ ذَلِكَ كَيْفَ تَرَى فِى رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا فَقَالَ طَلَّقَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهْىَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَسَأَلَ عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهْىَ حَائِضٌ. فَقَالَ لَهُ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- « لِيُرَاجِعْهَا ». فَرَدَّهَا وَقَالَ « إِذَا طَهَرَتْ فَلْيُطَلِّقْ أَوْ لِيُمْسِكْ ». قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَقَرَأَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- يَا أَيُّهَا النَّبِىُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ فِى قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ.
عبد الرحمن بن ایمن جو عزہ کے غلام تھے انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا اس حال میں کہ ابو الزبیر رضی اللہ عنہ سن رہے تھے ، اس آدمی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے حالت حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دی؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عبد اللہ بن عمر نے حالت حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دی ، تو نبی ﷺنے انہیں کہا کہ اس سے رجوع کرلیں ، اور فرمایا: جب وہ حیض سے پاک ہوجائیں تو اس کو طلاق دے دو یا اس کو رکھ لو، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی ﷺنے یہ آیت پڑھی : اے نبیﷺ! جب تم عورتوں
کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو۔
عربی متن میں جو سرخ رنگ میں دیا گیا ہے، وہ قرآن میں نہیں۔ صحیح مسلم کے محقق فواد عبدالباقی کہتے ہیں
(قبل عدتهن) هذه قراءة ابن عباس وابن عمر وهي شاذة
یہ ابن عباس اور ابن عمر کی قراۃ میں ہے، اور یہ شاذ ہے
چلیے جناب، یہ تو مانا کہ وہ دوںوں اس کے قائل تھے۔ یہاں نسخ والی بات بھی نہیں کی
روایت نمبر 26
صحیح مسلم، ج 2، ص 1075 پر یہ روایت ملتی ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى بَكْرٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ فِيمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ. ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ فَتُوُفِّىَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَهُنَّ فِيمَا يُقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ.
آن لائن لنک سے یوں ترجمہ کیا گیا ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قرآن مجید میں پہلے یہ یہ نازل ہوا تھا کہ دس گھونٹ (چسکی) سے حرمت ثابت ہوتی تھی ، پھر یہ حکم منسوخ ہوا اور پھر پانچ چسکیوں سے حرمت کا حکم ہوا، اور رسول اللہ ﷺکے وفات تک قرآن میں اسی طرح پڑھا جاتا تھا۔
بڑے واضح انداز میں انہوں نے بتا دیا کہ نبی اکرم کی وفات تک یوں ہی چلتا رہا
اب کیا کریں جناب؟ آیت کدھر گئی؟
آپ کسی عالم سے پوچھ لیں، وہ یہی بہانہ بنائے گا کہ منسوخ ہو گئی، مگر سوال یہ ہے کہ نبی اکرم کی وفات کے بعد کس نے منسوخ کی؟ کیونکہ بی بی نے واضح کہا کہ ان کی وفات تک تو پڑھی گئی
روایت نمبر 27
سورۃ ذاریات سے ایک آیت ملاحظہ ہو
58. إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ
اب اس آیت کو مد ںظر رکھتے ہوئے اس روایت کو پڑھیے
امام حاکم اپنی مستدرک، ج 2، ص 273 پر درج کرتے ہیں
2983 - أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْمَحْبُوبِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَ إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: " أَقْرَأَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (إِنِّي أَنَا الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ) «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ»
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 2983 - صحيح
عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے اس کی تلاوت یوں کی
(إِنِّي أَنَا الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ)
امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث شیخین کے شرط پر صحیح ہے
علامہ ذہبی نے بھی اسے صحیح کہا
یاد رہے کہ یہ روایت سنن ترمذی، ج 5، ص 191 پر بھی ہے اور ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ اس پر علامہ ناصر البانی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح متن رکھتی ہے
روایت نمبر 28
امام حاکم اپنی مستدرک، ج 3، ص 137 پر یہ روایت درج کرتے ہیں
3192 – أخبرنا أبو زكريا العنبري ثنا محمد بن عبد السلام ثنا إسحاق بن إبراهيم أنبأ النضر بن شميل أنبأ شعبة ثنا أبو سلمة قال : سمعت أبا نضرة يقول : قرأت على ابن عباس رضي الله عنهما { فما استمتعتم به منهن فآتوهن أجورهن فريضة } قال ابن عباس : فما استمعتم به منهن إلى أجل مسمى قال أبو نضرة : فقلت ما نقرأها كذلك فقال ابن عباس : و الله لأنزلها الله كذلك
هذا حديث صحيح على شرط مسلم و لم يخرجاه
تعليق الذهبي قي التلخيص : على شرط مسلم
ابو نضرہ کہتے ہیں کہہ ہم نے ابن عباس کے سامنے یوں قرات کی
فما استمتعتم به منهن فآتوهن أجورهن فريضة
پھر ان عورتوں میں سے جسے تم کام میں لائے ہو تو ان کے حق جو مقرر ہوئے ہیں وہ انہیں دے دو
تو انہوں نے کہا کہ یہ اس طرح ہے
فما استمعتم به منهن إلى أجل مسمى
پھر ان عورتوں میں سے جسے تم ایک خاص مدت تک کام میں لائے ہو
ہم نے کہا کہ ہم تو اس طرح قرات نہیں کرتے۔ اس پر ابن عباس نے کہا کہ خدا کی قسم! یہ اسی طرح نازل ہوئی تھی
امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے مگر انہوں نے نہیں لکھی
علامہ ذہبی نے کہا کہ یہ مسلم کی شرط پر صحیح ہے
یاد رہے کہ اس سے ملتی جلتی ایک روایت تفسیر طبری ، 8، ص 177 پر یوں موجود ہے
9036 - حدثنا حميد بن مسعدة قال، حدثنا بشر بن المفضل قال، حدثنا داود، عن أبي نضرة قال، سألت ابن عباس عن متعة النساء. قال: أما تقرأ"سورة النساء"؟ قال قلت: بلى! قال: فما تقرأ فيها: (فما استمتعتم به منهن إلى أجل مسمى) ؟ قلت: لا! لو قرأتُها هكذا ما سألتك! قال: فإنها كذا.
یعنی ابو نضرہ نے ابن عباس سے عورتوں کے ساتھ متعہ کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ کیا تم سورہ نساء نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا پڑھتا ہوں۔ انہوں نے کہا تم اس میں یہ نہیں پڑھتے کہ ایک خاص مدت تک استمتاع کرو؟ میں نے کہا کہ اس طرح تو قرات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح سے ہے
حمید بن مسعدہ صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ نیز ابن حبان اور نسائی نے انہیں ثقہ کہا ہے اور ابو حاتم نے صدوق یعنی سچا
بشر ابن مفضل صحاح ستہ کے راوی ہیں
داؤد بن ابی ہند صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ ابن معین، نسائی، عجلی نے انہیں ثقہ کہا، اور احمد بن حنبل نے ثقۃ ثقہ کہا
ابو نضرہ کا نام منذر بن مالک ہے، اور یہ بھی صحیح مسلم کے راوی ہیں یحیی ابن معین، نسائی ابو زرعہ، ابن حبان وغیرہ نے انہیں ثقہ کہا ہے
گویا یہ سند بھی کم سے کم امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے
روایت نمبر 29
سورۃ جمعہ کی ایت ملاحظہ ہو
إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ
اب ذرا ملاحظہ ہو کہ حضرت عمر اسے کس طرح پڑھتے تھے
تفسیر طبری، ج 23، ص 381 پر یہ روایت موجود ہے
حدثني يونس بن عبد الأعلى، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: ثنا حنظلة بن أَبي سفيان الجمحّي، أنه سمع سالم بن عبد الله يحدّث عن أبيه، أنه سمع عمر بن الخطاب يقرأ (إذَا نُودِيَ لِلْصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الجُمْعَةِ فَامْضُوْاْ إِلَى ذِكْرِ اللهِ) .
عمر بن خطاب اس آیت کی تلاوت یوں کرتے تھے
إذَا نُودِيَ لِلْصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الجُمْعَةِ فَامْضُوْاْ إِلَى ذِكْرِ اللهِ
یونس بن عبدالاعلی صحیح مسلم کے راوی ہیں، نیز نسائی اور ابن ابی حاتم نے انہیں ثقہ کہا ہے۔ عبداللہ ابن وہب صحاح ستہ بشمول مسلم و بخاری کے راوی ہیں۔ حنظلہ ابن ابی سفیان بھی صحاح ستہ کے راوی ہیں۔ اسی طرھ سالم بن عبداللہ بن عمر بھی صحاح ستہ کے راوی ہیں۔ گویا یہ سند کم سے کم امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے
اب مزے کی بات یہ کہ عمر صاحب مرتے دم تک ایسا ہی کہتے رہے ۔ ملاحظہ ہو اگلی روایت
اسی تفسیر کے اسی صفحے سے پڑھیے
قال: أخبرنا ابن وهب، قال: أخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال: أخبرني سالم بن عبد الله بن عمر، أن عبد الله قال: لقد توفى الله عمر رضي الله عنه، وما يقرأ هذه الآية التي ذكر الله فيها الجمعة: (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ) إلا فامضوا إلى ذكر الله.
عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ عمر مر گئے مگر اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے کہ
فامضوا إلى ذكر الله
شروع کے راویان تو پچھلے سند کے ہی ہیں۔ یونس بن یزید بن ابی نجاد صحاح ستہ کے راوی ہیں۔ ابن شہاب زہری بھی صحاح ستہ کے راوی ہیں اور سالم بن عبداللہ بھی۔ گویا یہ سند بھی امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے
روایت نمبر 30
صحیح بخاری، ج 8،ص 168 پر ایک طویل حدیث کے بیچ میں عمر کا یہ اعترافی بیان آتا ہے
إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالحَقِّ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الكِتَابَ، فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَرَأْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا، رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: وَاللَّهِ مَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ، وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ،
اللہ نے نبی اکرم کو حق کے ساتھ بھیجا۔ اور ان پر اپنی کتاب نازل کی۔ جس میں آیت رجم ہے۔ ہم نے اسے پڑھا اور دیکھا کہ آپ نے رجم کیا۔ اور بعد میں ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ جب زمانہ گذر جائے گا، ماننے والے کہیں گے کہ ہمیں اللہ کی کتاب میں آیت رجم نہیں ملتی اور وہ ایک اللہ کے نازل کردہ فریضہ کو ترک کر دیں گے۔ رجم اللہ کی کتاب میں حق ہے ان پر جو زنا کریں شادی کے بعد، مردوں اور عورتوں میں
سنن ابی داؤد، ج 4، ص 144، روایت نمبر 4418 پر اسی روایت کا تذکرہ ہے، اور اس میں ایک جملہ یہ بھی ہے کہ
وَايْمُ اللَّهِ، لَوْلَا أَنْ يَقُولَ النَّاسُ: زَادَ عُمَرُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، لَكَتَبْتُهَا "
خدا کی قسم! اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کر دیا، تو میں اس لکھ دیتا
شیخ البانی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے
یعنی عمر کی نظر میں اسے اللہ کی کتاب میں لکھا ہونا چاہیے تھا، اور یہ ان کی نظر میں منسوخ نہیں تھا۔ بس خوف اس کا تھا کہ لوگ یہ کہیں گے کہ عمر نے کتاب اللہ میں اس کا اضافہ کر دیا۔ وگرنہ ان کا اپنا عقیدہ اس روایت کے بارے میں واضح ہے
یہ بات بخاری صاحب نے اپنی صحیح میں ج 9 ،ص 69 میں ان الفاظ میں لکھی ہے
لَوْلاَ أَنْ يَقُولَ النَّاسُ زَادَ عُمَرُ فِي كِتَابِ اللَّهِ، لَكَتَبْتُ آيَةَ الرَّجْمِ بِيَدِي
اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کر دیا، تو میں اسے اپنے ہاتھوں سے لکھتا
ایک بات کا اضافہ کرتے چلیں کہ شیخ البانی نے اپنی سلسلہ احادیث صحیحیہ، ج 6، ص 972، روایت نمبر 2913 پر اسی آیت رجم کے حوالے سے کئی روایات پیش کی ہیں۔ ہمارا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عمر اس کا شامل کرنا چاہتے تھے، مگر لوگوں کے خوف سے نہ کیا
روایت نمبر 31
سنن ابن ماجہ،ج 1، ص 625 پر یہ روایت ملتی ہے
1944 - حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «لَقَدْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ، وَرَضَاعَةُ الْكَبِيرِ عَشْرًا، وَلَقَدْ كَانَ فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي، فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَشَاغَلْنَا بِمَوْتِهِ، دَخَلَ دَاجِنٌ فَأَكَلَهَا»
بی بی عائشہ فرماتی ہیں کہ آیت رجم اور آیت رضاعت الکبیر نازل ہوئی تھیں۔ اور ایک صفحے پر لکھی ہوئی میرے تکیے کی نیچے پڑی تھیں۔ جب نبی اکرم کا انتقال ہوا، ہم مشغول تھے۔ ایک بکری آئی اور اس کھا گئی
اس روایت کو اہلسنت کے جید ترین علماء نے مستند مانا ہے
مثال کے طور پر شیخ البانی نے اسے اپنے صحیح ابن ماجہ، ج 2، ص 148 پر حسن قرار دیا
شیخ زبیر علی زئی نے سنن ابن ماجہ کی تخریج میں اسے حسن کہا۔ ملاحظہ ہو ان کی تحقیق ج 3، صفحہ 156
شیخ حسین سلیم اسد نے مسند ابو یعلی کی تخریج ، ج 8، ص 64 میں اس روایت کی ایک سند کو حسن اور دوسرے کو صحیح قرار دیا
ابن حزم نے المحلی ج 12، ص 177 پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا
کمال ہے! ہم نے تو یہ سنا تھا کہ شیعوں کا قرآن بکری کھا گئی۔۔۔۔۔
روایت نمبر 32
روایت نمبر 13 میں بھی ہم اس کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ ابی بن کعب کا یہ کہنتا تھا کہ سورۃ احزاب سورۃ بقرہ جتنی تھی ۔ سورہ احزاب میں 73 آیتیں ہیں، اور سورہ بقرہ میں 286۔ آسان الفاظ میں 213 آیتیں غائب ہیں
ایک حوالہ دیتے چلیں
امام حاکم اپنی مستدرک، ج 3، ص 276 پر کہتے ہیں
3554 – أخبرنا أبو العباس أحمد بن هارون الفقيه ثنا علي بن عبد العزيز حجاج بن منهال ثنا حماد بن سلمة عن عاصم عن زر عن أبي بن كعب رضي الله عنه قال : كانت سورة الأحزاب توازي سورة البقرة و كان فيها الشيخ و الشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة
هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه
تعليق الذهبي قي التلخيص : صحيح
ابی بن کعب نے کہا کہ سورہ احزاب سورہ بقرہ جتنی تھی اور اس میں آیت رجم تھی
امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے
علامہ ذہبی نے کہا کہ یہ صحیح ہے
روایت نمبر 33
ہیثمی اپنی مجمع الزوائد، ج 7، ص 156 پر یہ روایت درج کرتے ہیں
11613 - وَعَنِ الْأَعْمَشِ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ فِي قَوْلِ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ - "وَأَقْوَمُ قِيلًا" قَالَ: وَأَصْدَقُ. فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهَا تُقْرَأُ: وَأَقْوَمُ، فَقَالَ: أَقْوَمُ وَأَصْدَقُ وَاحِدٌ. رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَأَبُو يَعْلَى بِنَحْوِهِ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: وَأَصْوَبُ قِيلًا، وَقَالَ: إِنَّ أَقْوَمَ وَأَصْوَبَ، وَأَهْيَأَ، وَأَشْبَاهَ هَذَا وَاحِدٌ، وَلَمْ يَقُلِ الْأَعْمَشُ سَمِعْتُ أَنَسًا، وَرِجَالُ أَبِي يَعْلَى رِجَالُ الصَّحِيحِ، وَرِجَالُ الْبَزَّارِ ثِقَاتٌ.
اعمش کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک سے سنا کہ وہ اللہ کے اس قول (وَأَقْوَمُ قِيلًا)کے بارمیں کہہ رہتے تھے کہ اس طرح ہے
وَأَصْدَقُ
ان سے کہا گیا کہ اس کی قرات و اقوم ہے۔ تو انہوں نے کہ کہ اقوم اور اصدق ایک ہی ہے۔ بزار اور ابو یعلی نے اس کو نقل کیا۔ مگر انہوں نے کہا کہ انس نے کہا تھا
وَأَصْوَبُ قِيلًا
اور جب کہا گیا کہ یہ اقوم ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ اقوم اور اصوب ایک ہی ہیں۔
مگر اعمش نے یہ نہیں کہا کہ میں نے انس سے سنا ۔ ابو یعلی کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں اور بزار کے راوی ثقہ ہیں
یہ روایت تفسیر طبری، ج 23، ص 685 پر بھی موجود ہے
حدثني يحيى بن داود الواسطي، قال: ثنا أبو أُسامة، عن الأعمش، قال: قرأ أنس هذه الآية (إنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أشَدُّ وَطْئًا وأصْوَبُ قِيلا) ، فقال له بعض القوم: يا أبا حمزة إنما هي (وَأَقْوَمُ قِيلا) قال: أقوم وأصوب وأهيأ واحد.
حدثني موسى بن عبد الرحمن المسروقي، قال: ثنا عبد الحميد الحماني، عن الأعمش قال: قرأ أنس (وَأَقْوَمُ قِيلا) وأصوب قيلا؛ قيل له: يا أبا حمزة إنما هي (وَأَقْوَمُ) قال أنس: أصوب وأقوم وأهيأ واحد.
دوںوں روایتوں میں ایک ہی بات ہے کہ
اعمش کہتے ہیں کہ انس نے اس آیت کی قرات یوں کی
(إنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أشَدُّ وَطْئًا وأصْوَبُ قِيلا)
تو لوگوں نے کہا کہ اقوم ہے۔ اس پر انس نے کہا کہ اصوب اور اقوم ایک ہی ہے
دو اسناد کا ذکر کیا ہے یہاں پر
پہلے سند میں ابو اسامہ کا نام حماد بن اسامہ ہے، یہ صحاح ستہ کے راوی ہیں، اور اسی طرح اعمش بھی۔ یحیی بن داود الواسطی کو ابن حبان نے ثقہ کہا ہے۔ اور شیخ البانی اپنی سلسلہ احادیث صحیحیہ، ج 5، ص 193 پر درج کرتے ہیں
وهذا إسناد جيد، رجاله ثقات رجال الشيخين غير يحيى بن داود بن ميمون
الواسطي، ذكره ابن حبان في " الثقات "
یہ سند جید ہے۔ اس کے راوی ثقہ ہیں اور بخاری و مسلم کے ہیں سوائے یحیی بن داود الواسطی کے جنہیں ابن حبان نے ثقہ شمار کیا ہے
گویا ان کی سند جید شمار ہوتی ہے
دوسری سند میں موسی بن عبدالرحمن کو نسائی، ابن ابی حاتم اور ابن حبان نے ثقہ کہا ہے ۔ عبدالحمید حمانی بخاری و مسلم کے راوی ہیں
روایت نمبر 34
قاسم بن سلام اپنی کتاب فضائل قرآن، ص 289 پر یہ روایت درج کرتے ہیں
حدثنا أبو عبيد قال: حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عمر بن الخطاب، أنه كان يقرأ: (غير المغضوب عليهم وغير الضالين)
عمر بن خطاب اس آیت کی تلاوت یوں کرتے تھے
غير المغضوب عليهم وغير الضالين
اس سند کے بارے میں ابن کثیر اپنی تفسیر، ج 1، ص 55 پر کہتے ہیں کہ
ولهذا روى أبو القاسم بن سلام في كتاب فضائل القرآن عن أبي معاوية عن الأعمش عن إبراهيم عن الأسود عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أنه كان يقرأ (غير المغضوب عليهم وغير الضالين) وهذا الإسناد صحيح .
یہ سند صحیح ہے
اسی طرح یہ روایت تفسیر من سنن سعید بن منصور، ج 2، ص 534 پر بھی درج ہے۔ اور کتاب کے محقق، سعد بن عبد الله بن عبد العزيز آل حميد فرماتے ہیں
سنده صحيح، وعنعنة الأعمش هنا محمولة على السماع
سند صحیح ہے، اور اعمش کا عنعن انداز میں نقل کرنا سماع پر محمول ہے
اسی طرح اس سند کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج 8، ص 159 پر صحیح قرار دیا ہے
خلاصہ کلام
ہم نے آپ کی خدمت میں کئی روایات پیش کیں
ان کے اسناد کی توثیق بھی علمائے اہلسنت کی زبانی دکھائی
اور جہاں پر علماء نے کلام نہیں کیا تھا۔ وہاں خود راویان کا تعارف کرایا
روایات اور بھی ہیں،اور جو روایات پیش کی گئیں، ان کے بھی دیگر اسناد وغیرہ موجود ہے
مگر ہماری بنیادی کوشش یہ تھی کہ اختصار بھی رہے اور طبیعت پر گراں بھی نہ گذرے
اب ہم آخری حوالہ مشہور دیوبندی عالم، انور شاہ کشمیری کے کتاب، فیض الباری علی شرح بخاری، ج 4، ص 98، طبع دارالکتب علمیہ لبنان سے پیش کرے ہیں
موصوف کہتے ہیں
واعلم أنَّ في التحريف ثلاثةُ مذاهبَ: ذهب جماعةٌ إلى أن التحريفَ في الكتب السماوية قد وقع بكُلِّ نحو في اللفظ والمعنى جميعًا، وهو الذي مال إليه ابنُ حَزْم؛ وذهب جماعةٌ إلى أن التحريف قليلٌ، ولعلَّ الحافِظَ ابنَ تيميةَ جنح إليه؛ وذهب جماعةٌ إلى إنكارِ التحريف اللفظي رأسًا، فالتحريفُ عندهم كلُّه معنوي. قلت: يَلْزَمُ على هذا المذهب أن يكونَ القرآنُ أيضًا مُحرَّفًا، فإِنَّ التحريفَ المعنويِّ غيرُ قليل فيه أيضًا، والذي تحقَق عندي أن التحريفَ فيه لفظيُّ أيضًا، أما إنه عن عمد منهم، لمغلطة. فا تعالى
علم میں رہے کہ تحریف کے حوالے سے تین نقطہ نظر ہیں۔
ایک گروہ کہتا ہے کہ آسمانی کتابوں میں لفظ اور معنی دوںوں میں تحریف ہوئی۔ اور ابن حزم اس کی طرف مائل ہیں
دوسرا گروہ کہتا ہے قلیل مقدار میں تحریف ہوئی۔ میرے خیال میں ابن تیمیہ اس کی طرف ہیں
اور پھر ایک جماعت اس کی طرف ہے کہ لفظی تحریف نہیں، مگر معنی تحریف ہوئی۔
میں کہتا ہوں کہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن میں بھی تحریف ہوئی۔ اور معنی میں تحریف کم نہیں ہے۔ اور جہاں تک میری تحقیق ہے، یہ تحریف لفظی بھی ہے اب اللہ جانتا ہے کہ یہ جان بوجھ کر ہوئی یا غلطی سے
No comments:
Post a Comment