Saturday, September 26, 2015

معاویہ کا حضرت محمد بن ابو بکر کو قتل کرنا

السلام علیکم
 
حضرت محمد بن ابو بکر حضرت عائشہ کے بھائی تھے۔ گویا اس لحاظ سے یہ بھی مسلمانوں کے ماموں ٹھہرے جیسا کہ اکثر آپ نے معاویہ کے لیے سنا ہو گا کہ وہ خال المومنین ہیں۔ 

برادر جابری الیمانی نے ایک روایت پیش کی۔ ان کی تحقیق کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے 

الاحاد و المثانی، ج 1، ص 475 پر یہ روایت ملتی ہے 


663- أخبرنا بن أبي عمر(العدني ثقة) حَدَّثَنَا عَبْد الرَّزَّاق(ثقة حافظ) عَن مَعْمَر(ثقة ثبت) عن الزُّهْرِيّ(
الفقيه الحافظ ) عن القاسم(بن محمد بن أبي بكر ثقة ) قال قدم معاوية المدينة فاستأذن على عائشة فأذنت له وحده ولم يدخل معه أحد فلما دخل قالت عائشة أكنت تأمن أن أقعد لك رجلا فيقتلك كما قتلت أخي مُحَمد بن أبي بكر قال ما كنت تفعلين ذلك قالت لم قال إني في بيت أمن قالت أجل 

 معاویہ مدینہ آیا تو عائشہ سے ملنے گیا۔ ان کے ساتھ کوئی اندر نہ گیا۔ اس پر عائشہ نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کونسی چیز اس بات سے امن میں رکھے گی کہ میں ایک شخص کا لا کر نہ بیٹھاؤں جو تمہارا قتل کر دے جیسا کہ تم نے میرے بھائی محمد بن ابو بکر کا کیا۔ اس پر معاویہ نے کہا کہ آپ ایسا نہیں کریں گی۔ عائشہ نے پوچھا کیوں؟ اس نے کہا کہ میں امن والے گھر میں داخل ہو چکا ہوں- عائشہ نے کہا صحیح ہے
یہ واحد موقع نہیں جب امی عائشہ نے ایسے خیالات کا اظہار کیا ہو۔ اس روایت میں تو قاسم بن محمد بن ابو بکر ہیں

ایک روایت ہم آپ کو ہدیہ کرتے ہیں جس میں آپ دیکھیں گے کہ معاویہ کے ساتھ اور لوگ بھی گئے ۔ یہ روایت مستدرک امام حاکم، ج 4، ص 393 پر موجود ہے 

8038 - أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَتَّابٍ الْعَبْدِيُّ بِبَغْدَادَ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ النَّرْسِيُّ، ثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلَابِيُّ، ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ مُعَاوِيَةَ، عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَتْ: يَا مُعَاوِيَةُ، قَتَلْتَ حُجْرًا وَأَصْحَابَهُ وَفَعَلْتَ الَّذِي فَعَلْتَ أَمَا تَخْشَى أَنْ أَخْبَأَ لَكَ رَجُلًا فَيَقْتُلَكَ؟ قَالَ: لَا إِنِّي فِي بَيْتِ أَمَانٍ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْإِيمَانُ قَيْدُ الْفَتْكِ، لَا يَفْتِكُ مُؤْمِنٌ»
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 8038 - سكت عنه الذهبي في التلخيص

مروان بن حکم کہتے ہیں کہ میں معاویہ کے ساتھ بی بی عائشہ کا پاس گیا۔ انہوں نے کہا کہ اے معاویہ تم نے حجر اور اس کے ساتھیوں کو مار ڈالا، اور وہ کیا جو کیا۔ کیا تم اس سے خوفزدہ نہیں کہ میں کسی کو بلا لو تا کہ تم کو قتل کر دے۔ اس نے کہا نہیں میں امن والے گھر میں ہوں۔ اور میں نے نبی اکرم سے سنا کہ ایمان بربادی کو قید کر لیتی ہے۔ مومن بربادی یا تباہی نہیں مچاتا

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بی بی جمل کے میدان میں لڑتی پھر رہی ہو، کیا وجہ ہے کہ وہ یہاں پر صرف پوچھ رہی ہے کہ خوف تو نہیں۔۔

ایک روایت مسند احمد ج 28، ص 43-44 سے پیش خدمت ہے 

16832 - حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ، دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ لَهُ: أَمَا خِفْتَ أَنْ أُقْعِدَ لَكَ رَجُلًا فَيَقْتُلَكَ؟ فَقَالَ: مَا كُنْتِ لِتَفْعَلِي  وَأَنَا فِي بَيْتِ أَمَانٍ،وَقَدْ  سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ - يَعْنِي -: " الْإِيمَانُ قَيَّدَ الْفَتْكَ "، كَيْفَ أَنَا فِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَكِ، وَفِي حَوَائِجِكِ؟ قَالَتْ: صَالِحٌ، قَالَ: فَدَعِينَا وَإِيَّاهُمْ حَتَّى نَلْقَى رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ 

سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ معاویہ عائشہ سے ملا۔ اس پر عائشہ نے ان سے کہا کہ کیا تم کو خوف نہیں کہ میں کسی مرد کو لا کر بیٹھا دوں جو تم کو قتل کر دے۔ اس نے کہا کہ آپ ایسا نہیں کریں گی۔ میں امن والے گھر میں ہوں اور میں نے نبی اکرم سے سنا کہ ایمان بربادی کو قید کر دیتی ہے۔ یہ بتائے کہ میرا آپ کے ساتھ اور آپ کی ضروریات کو لے کر، کیسا تعلق ہے۔ عائشہ نے کہا کہ اچھا ہے۔ اس پر معاویہ نے کہا کہ پھر آپ ہمیں اور انہیں چھوڑ دیں یہاں تک کہ ہم اپنے رب سے مل جائیں

کتاب کے محقق، شیخ شعیب الارناؤط کہتے ہیں 

صحيح لغيره
یہ حدیث دیگر روایات کے ساتھ مل کر صحیح ہے 

مسند احمد کے دوسرے محقق، شیخ حمزہ احمد زین، نے اپنی تحقیق کے ج 13، ص 175، ح 16775 پر اس سند کو حسن کہا ہے

اس روایت پر آپ خود غور کریں کہ کیا وجہ تھی کہ بی بی خاموش تھی

1 comment:

  1. Jin ka bap Ameer Mua'awiyah ke hatho shaheed huwa yani Hazrat Qasim(r) unho ne Sahabah(r) ko maaf kiya awr kehte thay. روى أفلح بن حميد ، عن القاسم قال : اختلاف الصحابة رحمة Yani Sahabah ka ikhtilaf rehmat he. Ap ka to bap shaheed nahi huwa.

    ReplyDelete