Thursday, September 3, 2015

وہابی عالم کا قرآن سے صحابہ کے فاسق ہونے کی دلیل دینا

السلام علیکم 

وہابی عالم، محمد بن صالح العثيمين، اپنی کتاب، شرح مختصر التحرير ص669-670، پر تحریر کرتے ہیں 

وقوله: "وَالصَّحَابَةُ عُدُولٌ، وَالمُرَادُ: مَنْ لَمْ يُعْرَفْ بِقَدْحٍ"؛ يعني: المراد من قوله: إنَّ الصحابة عدول مَن لم يُعرَف بقَدْح، فأمَّا مَن عُرِفَ بقدْح فإنَّه ليس بعَدْل حسَب القدح الذي فيه.
ويدلُّ لذلك أنَّ الله تعالى قال: (والذين يرمونَ المُحصناتِ ثمَّ لم يأتوا بأربعة شهداءَ فاجلدوهم ثمانين جلدةً ولا تقبلوا لهم شهادةً أبداً وأولئكَ هُمُ الفاسقون * إلا الذين تابوا من بعد ذلك وأصلحوا) [النور:4-5]، فدلَّ ذلك على أنَّ فيهم الفَسَقة، وأنَّ مَن رمى محصنةً ولو في عهد الرسول فإنَّه فاسقٌ يجبُ أنْ يُجلَد ثمانين جلدةً، وأن لا تُقبَل له شهادةٌ أبداً، فالحاصل: أنَّ الصحابة عُدولٌ إلَّا مَن عُرف بقدحٍ".

 اور یہ قول: کہ صحابہ عادل ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ جن کی برائی معلوم نہ ہو۔ کیونکہ جب ان کی برائی/گناہ معلوم ہو تو وہ اپنی برائی کے حساب کے مطابق عادل نہیں ہوں گے۔ اور اس پر دلیل ہے اللہ کا یہ قول کہ 

اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی درے مارو اور کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو۔ اور یہی بدکردار ہیں۔ہاں جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور (اپنی حالت) سنوار لیں تو خدا (بھی) بخشنے والا مہربان ہے

یہ دلیل ہے ان کے فاسق ہونے پر۔ تو جس نے الزام لگایا شادی شدہ پر عہد رسول میں، وہ فاسق ہے اور اسے 80 کوڑے لگائے گئے، اور ان کی گواہی کبھی قبول نہیں کی گئی۔ 

اس سے یہ حاصل ہوا کہ صحابہ عادل ہیں جب تک ان کا گناہ/برائی معلوم نہ ہو






یہ پوسٹ برادر عاشق امیر المومنین کے عربی تحقیق سے ماخوذ ہے


No comments:

Post a Comment