Friday, September 4, 2015

حضرت ابو ہریرہ کا اپنی بیوی سے برتاؤ

السلام علیکم 

طبقات ابن سعد، اردو ترجمہ، جلد 2، حصہ چہارم، صفحہ355 پر 2 روایات آتی ہیں۔ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ ہم ان روایات کا عربی متن بھی پیش کریں گے تاکہ آپ کی خدمت میں سند کو بھی پیش کریں، اور راویان کی توثیق بھی پیش کر دیں

روایت آتی ہے 

قال: أخبرنا هَوْذَة بن خليفة قال: أخبرنا ابن عَوْن عن محمد عن أبي هريرة قال: أكْرَيْتُ نفسي من ابنة غزوان على طعام بطني وعُقبة رجلي، قال فكانت تكلّفني أن أرْكَبَ قائمًا وأن أردي أو أورِدَ حافيًا، فلمّا كان بعد ذلك زَوّجنيها الله فكلّفتُها أن تَرْكَبَ قائمة وأن تَرِدَ أو تَرْدِيَ حافية.

 ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دختر غزوان کو پیٹ کے کھانے اور پاؤں کی نوبت پر کرائے میں دیا تھا۔ وہ مجھے تکلیف دیتی اور پاؤں پر چلنے کا کہتی۔ مجبور کرتی کہ میں کھڑا رہوں اور ننگے پاؤں چلوں۔ بعد میں اللہ نے اسے میری بیوی بنایا، تو میں اسے تکلیف دیتا کہ کھڑے ہو کر ننگے پاؤں زمین پر چلو

راویان پر ایک نظر ڈالتے چلیں تا کہ کوئی گلہ نہ کرے

پہلے راوی، ہوذہ بن خلیفہ کو ابن حجر، ذہبی، ابو حاتم نے صدوق کہا ہے۔ ابن حبان نے ان کو ثقات میں شامل کیا ہے۔ مشہور ویب سائٹ، اسلام ویب نے انہیں صدوق حسن الحدیث کی منزل پر رکھا ہے 

عبداللہ ابن عون صحاح ستہ کے راوی ہیں۔

محمد بن سیرین بھی صحاح ستہ کے راوی ہیں

ان کا ابو ہریرہ سے سماعت ثابت ہے

گویا یہ سند کم سے کم حسن درجے کی ہے۔ اور معتبر ہے۔ 

دوسری روایت کا عربی متن یوں ہے


قال: أخبرنا سليمان بن حرب قال: حدّثنا حمّاد بن زيد عن أيّوب عن محمد، عن أبي هريرة أنّه قال: كنتُ أجيرَ ابن عفّان وابنةِ غَزْوَان بطعام بطني وعُقْبَةِ رجلي أسوق بهم إذا ركبوا وأخدمهم إذا نزلوا، فقالت لي يومًا: لتَرِدَنّه حافيًا ولتَرْكَبَنّه قائمًا. فَزَوّجَنِيها الله بعد فقلتُ: لتَرِدِنّه حافيةً ولتَرْكَبِنّه قائمة

. 
 ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ میں ابن عفان اور دختر غزوان کا پیٹ کے کھانے اور پاؤں کی نوبت پر نوکر تھا۔  کہ جب وہ سوار ہونے تھے تو میں ان کو چلاتا تھا، اور جب وہ اترتے تھے تو ان کی خدمت کرتا تھا۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا کہ تم ضرور ضرور کھڑے ہو کر چلو گے، اور ضرور ضرور برہنہ پا چلو گے۔ پھر اللہ نے اس کی مجھ سے شادی کر دی۔ تو میں نے اسے کہا کہ تم  ضرور ضرور برہنہ پا چلو گی، اور  ضرور ضرور کھڑے ہو کر چلو گی 


سند پر نظر دوڑا لیں تو یوں ملتا ہے کہ سلیمان بن حرب صحاح ستہ کے راوی ہیں 

حماد بن زید بھی صحاح ستہ کے راوی ہیں

ایوب سختیانی بھی صحاح ستہ کے راوی ہیں

گویا یہ سند بخاری و مسلم کی شرائط پر پورا اترتی ہے، اور صحیح ہے

اور یہ مستند روایت اس بات پر دلیل ہے کہ ان کی دختر غزوان نے ان کا ایک دن یہ کہتا تھا، نہ کہ روز کا معمول تھا کہ جس کو بنیاد بنا کر اسے بعد میں اس جرم کی نہ صرف سزا دی گئی بلکہ لوگوں کو بھی بتایا گیا کہ میں نے یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔




ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ شادی کب ہوئی؟ ابن حجر اس کا جواب الاصابہ، ج 8، ص 52 پر کچھ یوں دیتے ہیں 

هي أخت عتبة بن غزوان المازني الصحابي المشهور، أمير البصرة. وقصة أبي هريرة معها صحيحة، وكانت قد استأجرته في العهد النبوي، ثم تزوجها بعد ذلك لما كان مروان يستخلفه في إمرة المدينة.

 یہ خاتون عتبہ مشہور صحابی کی بہن ہے، جو کہ بصرہ کا امیر تھا۔ اور اس کا قصہ ابو ہریرہ کے ساتھ صحیح ہے۔ انہوں نے اسے نبی کریم کے عہد میں اجرت پر رکھا اور جب مروان نہیں مدینہ کی حکومت میں امیر بناتے تھے


آخر میں خود جناب ابو ہریرہ سے ہی مروی 2 روایات پیش کرتے ہیں کو نبی کریم نے عورتوں سے کس طرح سے پیش آنے کا حکم دیا 

بخاری و مسلم شریف میں آتا ہے 

وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن ميسرة ، عن أبي حازم ، عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : " من كان يؤمن بالله ، واليوم الآخر ، فإذا شهد أمرا فليتكلم بخير أو ليسكت ، واستوصوا بالنساء ، فإن المرأة خلقت من ضلع ، وإن أعوج شيء في الضلع ، أعلاه إن ذهبت تقيمه كسرته ، وإن تركته لم يزل أعوج ، استوصوا بالنساء خيرا " .
نبی کریم نے فرمایا کہ جو اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہے، جب وہ کسی امر میں بولے، تو اچھا بولے، وگرنہ خاموش رہے۔ عورتوں کے ساتھ اچھا پیش آؤ کیونکہ عورتوں کو پسلی سے بنایا گیا ہے، اور پسلی کا سب سے ترچھا حصہ اوپر والا ہوتا ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے، تو اسے توڑ دو گے۔ اور اگر چھوڑ دو گے تو ترچھا پن نہیں جائے گا۔ اس لیے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو

اسی طرح ابو ہریرہ نبی اکرم سے مسند احمد، ج 12، ص 364، پر نقل کرتے ہیں 

7402 - حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا، أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَخِيَارُهُمْ خِيَارُهُمْ لِنِسَائِهِمْ "

نبی اکرم نے فرمایا کہ سب سے کامل ایمان مومنوں میں اس کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔ اور ان میں سب سے اچھا وہ ہے کہ جس کے اخلاق اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے

کتاب کے محقق، شیخ شعیب الارناوط، سند کے بارے میں کہتے ہیں 

حديث صحيح، وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير محمد بن عمرو -وهو ابن علقمة بن وقاص الليثي-، فمن رجال أصحاب السنن، وروى له البخاري مقرونا، ومسلم متابعة، وهو حسن الحديث، والحديث صحيح بمجموع طرقه وشواهده

حدیث صحیح ہے، اور یہ سند حسن ہے۔ سارے راوی ثقہ ہیں، اور بخاری و مسلم کے ہیں سوائے محمد بن عمرو کے، اور وہ حسن الحدیث ہے۔ یہ حدیث اپنے مختلف سندوں کے باعث مجموعی طور پر صحیح ہے 


ان دو روایات کو پڑھیے اور پھر اوپر والی روایات پر نظر دوڑائے، اور پھر خود فیصلہ کریں

ہم نے تو بس نقل کیا ہے

1 comment: