Monday, July 25, 2016

سادات کی عظمت

السلام علیکم 

آج کل مجھے کچھ حلقوں میں یہ محسوس ہوا کہ سادات کے بارے میں موجود روایات کو زیادہ موضوع سخن نہیں بنایا جاتا۔ اوراس موضوع پر ہمیں انٹر نیٹ پر کچھ خاص مواد بھی نہیں ملا، تو میں نے سوچا کہ اس پر ایک مختصر مقالہ لکھا جائے۔ اگر زیادہ تفصیل کے متلاشی ہوں،تو سید حسن ابطحی کی کتاب، انوار زہرا، کی طرف رجوع کریں 

موضوع کا آغاز ہم شیخ صدوق کے اس کلام سے کریں گے، جو انہوں نے اپنی کتاب الاعتقادات، صفحہ 111 پر کی ہے 

قال الشيخ - رضي الله عنه -: اعتقادنا في العلوية أنهم آل رسول الله، وأن مودتهم واجبة، لأنها أجر النبوة. قال عز وجل: (قل لا أسئلكم عليه أجرا إلا المودة في القربى). والصدقة عليهم محرمة، لأنها أوساخ أيدي الناس وطهارة لهم، إلا صدقتهم لإمائهم وعبيدهم، وصدقة بعضهم على بعض. وأما الزكاة فإنها تحل لهم اليوم عوضا عن الخمس، لأنهم قد منعوا منه. واعتقادنا في المسئ منهم أن عليه ضعف العقاب، وفي المحسن منهم أن له ضعف الثواب. وبعضهم أكفاء بعض، لقول النبي صلى الله عليه وآله وسلم حين نظر إلى بنين وبنات علي وجعفر ابني (أبي) طالب: (بناتنا كبنينا، وبنونا كبناتنا).



شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ آل علی کے بارے میں ہمارے یہ عقیدہ ہے کہ یہ آل محمد ہیں، اور ان سے مودۃ رکھنا واجب ہے، کیونکہ یہ اجر نبوت ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا کہ اے ان سے کہہ دو! میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ میرے قرابتداروں سے مودت رکھو۔ 

اور ان پر صدقہ حرام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدقہ لوگوں کے ہاتھوں کا میل /گندگی ہوتی ہے جس سے ان  لوگوں کو  طہارت مل جاتی ہے۔ تا ہم یہ( آل محمد ) آپس میں ایک دوسرے کو صدقہ دے سکتے ہیں اور اپنے غلاموں اور کنیزوں کا بھی صدقہ دے سکتے ہیں

اور ان کو زکاۃ حرام ہے، اور اس کے عوض ان کے لیے خمس ہے۔ 

ان میں جو گناہگار ہے، ان کو دوگنی سزا ملے گی۔ اور جو نیک ہے، اس کو دوگنا اجر ملے گا

اور سادات آپس میں ایک دوسرے کے کفو ہیں کیونکہ نبی اکرم نے جب مولا علی اور حضرت جعفر کے بیٹے اور بیٹیوں پر نظر ڈالی تو کہا کہ ہماری بیٹیاں ہمارے بیٹوں کے لیے ہیں اور ہمارے بیٹے ہماری بیٹیوں کے لیے 

یاد رہے کہ ہم نے اس روایت کا ترجمہ اس روایت کی بنیاد پر کیا ہے جو کہ شیخ صدوق نے اپنی کتاب من لا یحضرۃ الفقیہ، ج3، صفحہ 249، حدیث 1184؛ کتاب النکاح، باب اکفاء؛ میں پیش کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کے محقق، عصام عبد السید، نے اس مقام پر یہ بات لکھی ہے کہ 

وفي بعض النسخ: بناتنا لبنينا وبنونا لبناتنا
اس کتاب یعنی الاعتقادات، کے بعض نسخوں میں یہ روایت اس طرح سے موجود ہے۔

شیخ صدوق کا ہر نکتہ قابل غور ہے، اور اگر ہم بس اسی پر اکتفا کر لیں، تو بھی کافی ہے۔ تاہم ہم دیگر علماء کے اقوال اور ائمہ اہلبیت کی کچھ احادیث سے بھی استفادہ کرتے ہیں تاکہ موضوع کے ساتھ کچھ انصاف کر پائیں۔ اگرچہ اختصار کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا- اس وجہ سے ہم علماء کے مکمل اقوال پیش نہیں کریں گے بلکہ میں ان کے کلام کا خلاصہ پیش کروں گا


پاکستان سے تعلق رکھنے والے مجتہد، علامہ محمد حسین ڈھکو اپنی کتاب احسن الفوائد، صفحہ 643 پر کچھ لوگوں کا ایک اعتراض پیش کرتے ہیں کہ سادات میں جو لوگ گناہگار ہیں، ان کی تعظیم و تکریم کا کوئی حکم موجود نہیں۔

علامہ صاحب ایسے لوگوں کو کم توفیق، کوتاہ اندیش اور لابالی قرار دیتے ہیں۔ اور تفصیل سے اس بات کی وضاحت صفحہ کرتے ہوئے حدیث پیش کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا کہ میری اولاد میں نیک لوگوں کی عزت اللہ کی خاطر کرو، اور گناہ گاروں کی میری وجہ سے 

اسی طرح صفحہ 644 پر اس بات کی بھی وضاحت کرے ہیں کہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہوئے  کہتے ہیں کہ حضرت نوح کے بیٹے کو بھی تو ان کے اہل و عیال سے خارج کر دیا گیا تھا، علامہ صاحب اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ  وہ اس بنیاد پر صحیح توجیح نہیں کر رہے کہ اس کا جرم صرف یہ نہ تھا کہ وہ گناہ گار تھا، بلکہ یہ تھا کہ وہ تو سرے سے ایمان ہی نہیں لایا تھا۔ اس وجہ سے علامہ صاحب باب ہی اس طرح باندھتے ہیں 

بد عقیدہ ہونے سے شرف سیادت ختم ہو جاتی ہے 

 اور صفحہ 645 پر اس حدیث سے دلیل قائم کرتے ہیں کہ ایک بار امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ ہماری اولاد کی طرف نظر کرنا عبادت ہے۔ اس پر راوی نے سوال کیا کہ کیا صرف ائمہ کی طرف نظر کرنا عبادت ہے؟ اس پر امام عالی مقام نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ ان کی ساری اولاد کی طرف نظر کرنا عبادت ہے سوائے اس کے کہ وہ ان کا منہاج، یعنی مذہب و طریقہ، چھوڑ دیں

اس بات کو علامہ صاحب اسی صفحہ پر ایک مثال سے بھی واضح کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے والدین گناہ گار ہوں، تو بھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا احترام نہیں کیا جائے گا، وہ اپنی جگہ پر واجب ہی رہے گا

علامہ صاحب نے اس کتاب کے صفحہ 647 پر ایک باب باندھا ہے، 

صحیح النسب سادات کا تائب ہو کر مرنا

اور اس میں اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ اگر سید گناہوں میں مبتلا رہا ہو، تو بھی توفیق الہی شامل حال رہتی ہے، اور وہ توبہ کر لیتا ہے۔ اور اس کی وضاحت میں امام الصادق علیہ السلام کی ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا کہ 

إنه لم تمت منا إلا وتدركه السعادة قبل أن تخرج نفسه ولو بفواق ناقة ، قال : قلت : وما فواق ناقة ؟ قال : حلابها

ہمارے خاندان میں کوئی نہیں مرتا مگر یہ کہ وہ سعادت حاصل کر لیتا ہے اس سے قبل کہ اس کی موت ہو چاہے اتنا ہی وقت ملے جتنا اونٹنی کے دو مرتبہ دودھ دھونے کے درمیان ہوتا ہے 

اس موقع پر علامہ صاحب نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے وکیل، احمد بن اسحاق اور ایک سید، سید حسین قمی کا واقعہ بھی درج کیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ احمد بن اسحاق سادات کی بہت قدر کرتے تھے۔ مگر انہیں پتہ چلا کہ سید حسین قمی شراب نوشی کرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے سید حسین قمی کا مشاہرہ بند کر دیا اور ان سے ملنے سے انکار کر دیا- بعد میں جب وہ امام عالی مقام کے پاس گئے، تو امام نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر تمہارے پاس ہماری اولاد کے لیے وقت نہیں، تو ہمارے پاس تمہارے لیے وقت نہیں۔ پھر انہوں نے امام کو بتایا کہ میں تو اس وجہ سے ایسا کر رہا تھا جس پر امام نے فرمایا کہ 

جو کچھ بھی ہو، سادات کا اکرام و احترام لازم ہے۔ ہر گز ان کو حقیر نہ سمجھو اور ان کی توہین و تذلیل نہ کرو کیونکہ ان کی نسبت ہماری طرف ہے، ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں ہو جاؤ گے 

بعد میں جب یہ واقعہ سید حسین قمی کو پتہ چلا، تو انہوں نے شراب نوشی سے توبہ کر لی 
  
مشہور شیعہ مفسر قرآن، علامہ حسین بخش جاڑا کی ایک کتاب ہے، لمعۃ الانوار فی عقائد الابرار۔ یہ کتاب علامہ صاحب نے شیعہ عقائد کے بارے میں لکھی ہے، اور مکتبہ انوار النجف نے اسے شائع کیا۔ اس کتاب  کے صفحہ 334-335 پر علامہ صاحب نے سادات کی تعظیم کے بارے میں گفتگو کی۔  میں ان کا مکمل کلام تو پیش نہیں کر پاؤں گا، مگر اس کا خلاصہ یہ ہے کہ 

سادات کی عزت کرنا واجب ہے، اور جو انہیں پست نظر سے دیکھے، وہ محمد و آل محمد کے منزلت سے ناواقف ہے۔ اس امر کے واجب ہونے کے لیے قرآنی آیات و احادیث کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی یہ نسبت ہی کافی ہے۔ اس کی مثال علامہ صاحب یوں دیتے ہیں کہ صفا و مروہ کو بی بی ہاجرہ سے نسبت ملی، تو وہ شعائر اللہ بن گئے، اور آب زمزم حضرت اسماعیل کی وجہ سے آب شفا بن گیا۔ اسی طرح قرآن کے صفحے، اس کی جلد اور جس کپڑے میں اسے رکھا جاتا ہے، وہ سب لائق تعظیم ہے - علامہ صاحب یہ نکتہ پیش کرتے ہیں کہ ان میں کچھ تو عارضی تعلق ہوتے ہیں جبکہ سادات کا تو خونی رشتہ ہے، اس وجہ سے ان کی تعظیم کے واجب ہونے میں کوئی شک نہیں - اور اس وجہ سے اگر کوئی ان کی توہین کرے، یا کسی سے کروائے، یا کوئی ایسا عمل کرے کہ جس سے ان کی توہین ہو، تو وہ محمد و آل محمد کی توہین کر رہا ہے کیونکہ نسبت کی توہین در حقیقت اصل کی توہین ہوتی ہے- اس ضمن میں وہ ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا کہ میری اولاد کے نیک لوگوں کی عزت اللہ کے لیے کرو، اور بروں کی عزت میری وجہ سے کرو 

علامہ صاحب کے اس بیان کے بعد، میں نے سوچا کہ اس موضوع پر کچھ روایات پیش کی جائیں تاکہ بات بالکل واضح ہو جائے 


ایک روایت شیخ صدوق کی کتاب، علل الشرائع سے پیش خدمت ہے 

اس کا عربی متن ہم آن لائن لنک سے پیش کر رہے ہیں

4 - حدثنا محمد بن موسى بن المتوكل رحمه الله قال: حدثنا علي بن محمد ابن ماجيلويه عن أحمد بن أبي عبد الله البرقي عن أبيه عن حماد بن عثمان عن عبيد ابن زرارة عن أبي عبد الله (ع) قال: كنت عند زياد بن عبيد الله وجماعة من أهل بيتي، فقال: يا بني علي وفاطمة ما فضلكم على الناس؟ فسكتوا، فقلت ان من فضلنا على الناس انا لا نجب ان تأمر احد سوانا وليت احد من الناس لا يجب ان يكون منا إلا الشرك، قال: ثم قال ارووا هذا الحديث.  

یہ روایت اردو ترجمہ کے صفحہ 706 پر موجود ہے۔ اور ہم اس کا ترجمہ وہیں سے پیش کر رہے ہیں

امام جعفر الصادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں اور میرے خاندان کے کچھ افراد زیاد بن عبید اللہ کے پاس تھے۔ اس نے کہا کہ اے علی و فاطمہ کی اولاد! تم لوگوں کو دیگر مسلمانوں پر کیا فضیلت حاصل ہے ؟ میں (یعنی امام) نے جواب دیا کہ عام مسلمانوں پر ہم لوگوں کی دیگر فضیلتوں میں سے یہ ایک فضیلت ہی تو ہے کہ ہم لوگ یہ پسند نہیں کرتے کہ ہم لوگوں پر ہمارے علاوہ کوئی دوسرا امیر بنے، اور کاش لوگوں میں سے کوئی بھی اس امر کی خواہش نہ کرے کہ وہ خود کو ہم لوگوں میں شمار کرے سوائے اس کے کہ وہ مشرک ہو جائے۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر آپ نے فرمایا کہ اس حدیث کو تم لوگ روایت کرو 

میں اہلبیت کا ادنی غلام یہ گذارش کرتا چلوں کہ سند کے اعتبار سے یہ روایت معتبر ہے، اور ہم نے حاشیہ نمبر 1 میں اس پر روشنی ڈالی ہے 

اس روایت کو غور سے پڑھیے، اور سمجھنے کی کوشش کیجیے

ایک اور روایت پیش خدمت ہے

امالی شیخ صدوق، مجلس 49، حدیث 3، عربی طبع میں صفحہ 370 پر یہ روایت ملتی ہے 

حدثنا محمد بن موسى بن المتوكل (رضي الله عنه)، قال: حدثنا محمد بن يحيى العطار، قال: حدثنا محمد بن الحسين بن أبي الخطاب، قال: حدثنا النضر بن شعيب، عن خالد القلانسي، عن الصادق جعفر بن محمد، عن أبيه، عن آبائه (عليهم السلام)، قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وآله): إذا قمت المقام المحمود تشفعت في أصحاب الكبائر من أمتي، فيشفعني الله فيهم، والله لا تشفعت فيمن آذى ذريتي

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلی وسلم فرماتے ہیں کہ جب میں مقام محمود پر کھڑا ہوں گا تو اپنی امت میں ان لوگوں کی شفاعت کروں گا کہ جنہوں نے گناہان کبیرہ کیے ہیں مگر خدا کی قسم! ان کی نہیں کروں گا جنہوں نے میری اولاد کو اذیت دی ہو گی 

اسی سے ملتی جلتی ایک طویل روایت ہمیں عیون اخبار رضا، 1/470، باب 25 اور امالی شیخ صدوق، مجلس 53، حدیث 10 پر ملتی ہے کہ 
مَنْ آذَى شَعْرَةً مِنِّي فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ آذَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَعَنَهُ مَلا السَّمَاوَاتِ وَمَلا الأَرْض.
نبی اکرم نے فرمایا کہ جس نے میرے کسی بال کو بھی تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف دی، اور جس نے مجھے تکلیف دی، اس نے اللہ کو تکلیف دی، اور جس نے اللہ کو تکلیف دی، اس پر آسمان و زمین والوں کی لعنت ہے 
جہاں ہمیں ایک طرف یہ روایات ملتی ہیں، وہیں پر ہمیں وہ روایات بھی ملتی ہیں کہ جن میں نبی اکرم اور ائمہ اہلبیت نے ہمیں یہ بتلایا ہے کہ سادات کا خیال رکھنے، ان کی عزت کرنے کا کتنا ثواب ملتا ہے

شیخ صدوق کی کتاب من لا یحضرۃ الفقیہ سے چند روایات پیش کرتے ہیں۔ ہم اس ضمن میں اس کتاب کے اردو ترجمے سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس کتاب کا کمال یہ ہے کہ شیخ صدوق نے اس میں ان روایات کو جمع کیا جو ان کے مطابق صحیح اور حجت کا درجہ رکھتی تھیں (2) 

اس کتاب کے جلد 2، صفحہ 48 پر شیخ صدوق نے ایک باب باندھا ہے 

اولاد علی کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا ثواب

اس میں وہ یہ روایت درج کرتے ہیں کہ 

نبی اکرم نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن 4 لوگوں کی شفاعت کروں گا خواہ وہ اپنے ساتھ دنیا بھر کے گناہ ہی کیوں نہ سمیٹ کر لے آئیں - 
وہ شخص جس نے میری اولاد کی مدد کی 
وہ شخص جس نے میری اولاد کی تنگدستی میں اپنا مال خرچ کیا 
وہ شخص جس نے زبان و دل سے میری اولاد سے محبت کی
وہ شخص جس نے میری اولاد کی حاجت روائی کی اس وقت جب سب اسے چھوڑ کر جا رہے تھے 

اسی طرح اس باب میں یہ روایت بھی درج ہے 

امام الصادق فرماتے ہیں کہ جب قیامت کا دن ہو گا، تو منادی ندا دے گا کہ اے گروہ خلائق ! خاموشی سے سنو کہ نبی اکرم تم سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ پھر آپ کھڑے ہو کر کہیں گے:- اے گروہ خلائق! اگر تم میں کسی نے مجھے کوئی بخشش کی ہو، یا کوئی احسان کیا ہو، یا نیک سلوک کیا ہو، تو وہ کھڑا ہو جائے، تاکہ میں اس کا بدلہ دے دوں۔ ہر طرف سے لوگ آواز دیں گے کہ کہ آپ پر ہمارے ماں باپ قربان! ہماری طرف سے کونسی بخشش،کونسا احسان، کونسا نیکی ہو سکتی ہے؟ ہم سب پر تو ساری بخشش، سارے احسان اور نیکیاں اللہ اور اس کے رسول کے ہیں۔ تو پھر آپ کہیں گے کہ اچھا پھر جس نے میرے اہلبیت میں کسی کو پناہ دی ہو، یا نیکی کی ہو یا کسی کے پاس کپڑے نہ ہوں، تو اسے کپڑے پہنائے ہوں؛ یا وہ بھوکا ہو، اور اس کھانا کھلایا ہو، وہ آئے تاکہ میں اس کا بدلہ دے دوں۔ تو کچھ لوگ کھڑے ہوں گے اور اللہ کی طرف سے آواز آئے گی کہ اے میرے حبیب! میں نے ان لوگوں کے بدلے کا اختیار تمہیں دے دیا۔ تم انہیں جنت میں جہاں چاہو، ساکن کر دو
امام فرماتے ہیں کہ پھر نبی اکرم انہیں جنت کے مقام وسیلہ میں لے آئیں گے جہاں ان کے، اور آپ اور آپ کی اہلبیت کے درمیان کوئی حجاب نہ ہو گا

اس موضوع پر روایات اور بھی ہیں جن میں مزید فضیلت بیان کی گئی ہے، مگر جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ اختصار کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا

اس لیے میں یہاں پر اس مقالے کا اختتام کرتا ہوں 

دعاؤں میں یاد رکھیے گا 

شکریہ






------------------------------------------
حاشیہ


(1)

 اس سند کے راوی یہ ہیں 

محمد بن موسی بن متوکل ثقہ ہیں ۔ ملاحظہ ہو خلاصۃ الاقوال، از حلی، صفحہ 251، راوی 857

علی بن محمد بن ماجیلویہ ثقہ ہیں۔ ملاحظہ ہو خلاصہ صفحہ 187

احمد بن ابو عبداللہ برقی ثقہ ہیں۔ ملاحظہ ہو خلاصہ صفحہ 63

ان کے والد محمد بن خالد برقی ثقہ ہیں۔ ملاحظہ ہو خلاصہ صفحہ 237

 حماد بن عثمان بھی ثقہ ہیں۔ خلاصہ صفحہ 125

عبید بن زرارہ بھی ثقہ ہیں۔ ملاحظہ ہو خلاصہ 222


(2) 

شیخ صدوق اس کتاب کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں 

ولم أقصد فيه قصد المصنفين في إيراد جميع مارووه، بل قصدت إلى إيراد ما افتي به وأحكم بصحته وأعتقد فيه أنه حجة فيما بيني وبين ربي

میرا ارادہ دیگر مصنفین کی طرح یہ نہیں کہ جو کچھ ملے، اس جمع کر دوں، بلکہ میرا ارادہ یہ کہ وہ جمع کروں جس کی بنیاد پر میں فتوی دیتا ہوں، اور اس پر صحیح کا حکم لگاتا ہوں، اور یہ میرا ایمان ہے کہ یہ روایات میرے اور اللہ کے درمیان حجت ہیں



No comments:

Post a Comment