السلام علیکم
اس ضمن میں ہمیں اہلسنت کے ہاں ایک مسئلہ ملتا ہے۔ اہلسنت کے ایک جید عالم تھے، ابن خزیمہ۔ انہوں نے بھی ایک احادیث کی کتاب لکھی، جس کا نام ہے صحیح ابن خزیمہ۔ اب اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ یاد رہے جس طرح بخاری اور مسلم نے صحیح احادیث کا انتخاب کیا تھا، ابن خزیمہ نے بھی اپنا ایک اصول بنایا، اور اس پر جو روایات پوری اتریں، ان کو اس میں جمع کر دیا۔
موصوف نے جلد 3، صفحہ 97 پر ایک باب باندھا
الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْمُصَلِّيَ إِذَا نَظَرَ إِلَى مَنْ خَلْفَهُ مِنَ النِّسَاءِ لَمْ يُفْسِدْ ذَلِكَ الْفِعْلُ صَلَاتَهُ
اس بات کی دلیل کہ اگر نمازی، اپنے پیچھے کھڑی عورت کو دیکھ لے، اس عمل سے اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی
اور اس باب میں انہوں نے ایک روایت 2 سندوں کے ساتھ بیان کی کہ
1696 - نا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، أَخْبَرَنَا نُوحٌ يَعْنِي ابْنَ قَيْسٍ الْحُدَّانِيَّ، ثنا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَتْ تُصَلِّي خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ حَسْنَاءُ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ، فَكَانَ بَعْضُ الْقَوْمِ يَتَقَدَّمُ فِي الصَّفِّ الْأَوَّلِ لِئَلَّا يَرَاهَا، وَيَسْتَأْخِرُ بَعْضُهُمْ حَتَّى يَكُونَ فِي الصَّفِّ الْمُؤَخِّرِ، فَإِذَا رَكَعَ نَظَرَ مِنْ تَحْتِ إِبْطِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي شَأْنِهَا {وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ} [الحجر: 24]
ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت نبی اکرم کے پیچھے نماز پڑھتی تھی۔ پس کچھ لوگ اول صف میں جا کر نماز پڑھتے ، تاکہ اس پر نظر نہ پڑھے، اور کچھ آخری صف میں چلے جاتے اور جب رکوع کرتے تو بغل سے اس پر نظر ڈالتے۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی
یاد رہے کہ اس سند کو صرف ابن خزیمہ نے ہی صحیح نہیں مانا بلکہ یہ روایت صحیح ابن حبان، 2/126، پر بھی موجود ہے، یعنی ان کی نظر میں بھی یہ روایت مستند ہے۔ نیز صحیح ابن حبان کی تحقیق شیخ شعیب الارناؤط نے کی ہے۔ اور وہ اس سند کو حسن قرار دیتے ہیں
اسی طرح امام حاکم نے بھی مستدرک ج 3، ص 198 پر اس سند کو صحیح کہا، اور علامہ ذہبی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا
موجودہ زمانے کے مشہور سعودی محقق، شیخ ناصر الدین البانی نے اس روایت کو سلسلہ احادیث صحیحیہ، ج 5، ص 608، روایت 2472 پر درج کیا۔ اور سند کے بارے میں کہا کہ یہ سند صحیح ہے، اس کے راوی ثقہ ہیں اور امام مسلم کے راوی ہیں سوائے عمرو بن مالک نکری کے، اور وہ ثقہ ہے
گویا، متقدمین میں ابن خزیمہ اور ابن حبان، اسی طرح امام حاکم اور علامہ ذہبی، اور موجودہ زمانے کے شیخ شعیب اور البانی نے اس سند کے معتبر ہونے کو تسلیم کیا
No comments:
Post a Comment