السلام علیکم
یہ بات تو سبھی کو معلوم ہے کہ رمضان میں لیلۃ القدر یا شب قدر ہوتی ہے۔ اور سارے ہی مسلمان اس رات کو بڑے ذوق و شوق سے عبادت میں مصروف ہوتے ہیں۔اب اس رات کی ایک اہمیت یہ کہ کہ اس میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں کل امر کے ساتھ۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ ائمہ اہلبیت کے کچھ ارشادات کو پیش کیا جائے
ایک حدیث ہدیہ کرتے ہیں
حدثنا أحمد بن محمد عن علي بن الحكم عن سيف بن عميرة عن داود بن فرقد قال سألته عن قول الله عز و جل إِنّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَ ما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ قال نزل فيها ما يكون من السنة إلى السنة من موت أو مولود قلت له إلى من فقال إلى من عسى أن يكون إن الناس في تلك الليلة في صلاة و دعاء و مسألة و صاحب هذا الأمر في شغل تَنَزَّلُ الْمَلائِكَةُ إليه بأمور السنة من غروب الشمس إلى طلوعها مِنْ كُلِّ أَمْر سَلامٌ هِيَ له إلى أن يطلع الفجر.
امام علیہ السلام سے سوال ہوا کہ ان آیات کے بارے میں
إِنّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَ ما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ
تو امام نے جواب دیا کہ اس میں نازل ہوتا ہے کہ جو کچھ پیدائش اور اموات سے متعلق ہونا ہے اس سال سے لے کر اگلے سال تک۔ راوی نے دوبارہ امام سے سوال کیا کہ یہ نازل کس پر ہوتا ہے؟ امام نے جواب دیا کہ کس پر نازل ہونا ہے جب کہ لوگ اس رات میں عبادت میں مصروف ہوتے ہیں اور صاحب امر مصروف ہوتا کہ کہ فرشتے اس بتلاتے ہیں کہ سارے سال میں کیا ہونا ہے غروب آفتاب سے لے کر اس کے طلوع تک۔ اس کے لیے سلامتی ہوتی ہے طلوع شمس تک
یہ روایت بصائر الدرجات، ص 220؛ اور اس کے اردو ترجمہ میں ج 1، ص 570 پر ہے۔ نیز یہ روایت بحار الانوار، ج 94، ص 22؛ اور جامع احادیث الشیعۃ، ج 9 ، ص 52 پر بھی موجود ہے
میں اہلبیت کا ادنی سے غلام یہ گذارش کرتا چلوں کہ اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں
ایک اور روایت میں یوں ملتا ہے
حدثنا العباس بن معروف عن سعدان بن مسلم عن عبد الله بن سنان قال سألته عن النصف من شعبان فقال ما عندي فيه شيء و لكن إذا كانت ليلة تسع عشر من شهر رمضان قسم فيها الأرزاق و كتب فيها الآجال و خرج فيها صكاك الحاج و أطلع الله إلى عباده فغفر الله لهم إلا شارب الخمر فإذا كانت ليلة ثلاثة و عشرين فيها يفرق كل أمر حكيم
ثم ينهى ذلك و يمضى قال قلت إلى من قال إلى صاحبكم و لو لا ذلك لم يعلم.
.
ثم ينهى ذلك و يمضى قال قلت إلى من قال إلى صاحبكم و لو لا ذلك لم يعلم.
.
امام سے جب نصف شعبان کے بارے میں سوال ہوا تو امام نے جواب دیا کہ میرے پاس اس کے بارے میں کچھ نہیں، مگر جب 19 رمضان ہوتی ہے تو اس میں رزق تقسیم ہوتا ہے، اور اس میں موت کے بارے میں لکھا جاتا ہے، اور ان لوگوں کے نام پیش کیے جاتے ہیں کہ جنہوں نے حج کے لیے جانا ہے۔ اور جب اللہ لوگوں کو دیکھتا ہے تو ان کو معاف کر دیتا ہے سوائے شرابی کے۔ اور جب 23ویں کی رات ہوتی ہے تو تمام حکمت والے کام کا فیصلہ ہوتا ہے اور پھر اسے جاری کر کے منسوب کر دیا جاتا ہے ۔ امام سے سوال ہوا کہ کس کی طرف تو امام نے جواب دیا کہ تمہارے امام کی طرف اور اگر وہ نہ ہوتا تو یہ نہیں جانا جا سکتا
یہ روایت بصائر الدرجات کے صفحہ 220 اور اس کے اردو ترجمہ کے ج 1، ص 570-571 پر درج ہے
میں اہلبیت کا ادنی غلام یہ کہتا چلوں کے اس روایت کے بھی سارے راوی ثقہ ہیں
یہ روایت معمولی فرق کے ساتھ ایک اور سند کے ساتھ یوں آتی ہے
حدثنا سلمة بن الخطاب قال حدثنا عبد الله بن محمد عن عبد الله بن القاسم عن محمد بن حمران (4) عن ابى عبد الله عليه السلام قال قلت له ان الناس يقولون ان ليلة النصف من شعبان تكتب فيه الاجال وتقسم فيه الارزاق وتخرج صكاك الحاج فقال ما عندنا في هذا شئ ولكن إذا كانت ليلة تسع عشر من شهر رمضان يكتب فيها الاجال ويقسم فيها الارزاق ويخرج صكاك الحاج ويطلع الله على خلقه فلا يبقى مؤمن الا غفر له الا شارب مسكر فإذا كانت ليلة ثلث وعشرين فيها يفرق كل امر حكيم امضاه ثم انهاه قال قلت إلى من جعلت فداك فقال إلى صاحبكم ولولا ذلك لم يعلم ما يكون في تلك السنة.
یعنی کہ امام جعفر الصادق علیہ سلام سے سوال ہوا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ نصف شعبان میں اموات ، تقسیم رزق اور حاجیوں کے بارے میں لکھا جاتا ہے۔ تو امام نے فرمایا کہ میرے پاس اس بارے میں کچھ نہیں، مگر جب 19 ویں رمضان ہوتی ہے تو اس میں اموات، تقسیم رزق اور حاجیوں کے بارے میں لکھا جاتا ہے، اور اللہ جب اپنے بندوں کو دیکھتا ہے تو کوئی مومن نہیں بچتا مگر یہ کہ اس کی مغفرت ہو جاتی ہے سوائے شرابی کے۔ اور جب 23ویں شب ہوتی ہے تو اس میں تمام حکمت والے کام ہوتے ہیں اور انہیں جاری کر دیا جاتا ہے۔ امام سے پوچھا گیا کہ کس کی طرف تو امام نے فرمایا کہ تمہارے امام کی طرف، اور اگر وہ نہ ہو تو یہ پتہ نہ چل سکے کہ اس سال کیا ہو گا
یہ روایت صفحۃ 243 پر درج ہے
اگر آپ بصائر الدرجات کے اردو ترجمہ کو اس لنک سے ڈاؤنلوڈ کر کے پڑھیں تو اس میں اس موضوع پر قریب 16 روایات ہیں۔ میں ان سب کا ترجمہ تو پیش نہیں کر سکتا، اسی وجہ سے کتاب کا لنک دے دیا ہے
تاہم میں آغہ خمینی کی کتاب آداب نماز صفحۃ 432 سے ایک اقتباس پیش کرتا چلوں تاکہ موضوع کو سمجھا جا سکے
آغہ سورۃ القدر کے تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں
چونکہ لیلۃ القدر ولی کامل کی توجہ تام اور اس کی سلطنت ملکوتیہ کے ظہور کی رات ہے اس لیے ولی کامل، امام ہر عصر اور قطب ہر زمان کے نفس شریف کے توسط سے عالم طبیعت میں تغیرات و تبدیلات واقع ہوتے ہیں
آج ولی کامل، امام ہرعصر، اور قطب زمان حضرت بقیۃ اللہ فی الارضیین، سیدنا و مولانا، امامنا و ہادینا، حجۃ ابن الحسن العسکری ہیں۔ (لہذا یہ تبدیلیاں انہی کے توسط سے آتی ہیں)
لہذا انہیں اختیار ہے کہ عالم طبیعت کی جس حرکت کو چاہیں دھیمی کر دیں اور جس کو چاہیں تیز کر دیں۔ جس رزق کو چاہیں وسیع کر دیں، جس رزق کو چاہیں تنگ کر دیں اور یہ ارادہ، ارادہ حق ہے اور ارادہ ازلیہ کی شعاع اور اس کا سایہ اور عکس ہے اور فرامیں الہیہ کے تابع ہے
نا چیز کو دعاؤں میں یاد رکھیے گا
فی امان اللہ
No comments:
Post a Comment