Saturday, August 27, 2016

نفاس کے احکام

السلام علیکم

ہمارے معاشرے میں کچھ موضوعات پر زیادہ نہیں لکھا جاتا، جس میں خواتین کے مسائل شامل ہیں۔ اس وجہ سے میں نے سوچا کہ اس موضوع پر لکھا جائے۔

 سب سے پہلے تو سوال یہ ہے کہ نفاس ہے کیا ؟

علامہ حلی اپنی کتاب شرائع الاسلام، صفحہ 37 پر اس کے بارے میں واضح کرتے ہیں کہ یہ وہ خون ہے جو کہ عورت کو بچہ پیدا ہونے کے بعد آتا ہے ۔ وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی عورت کو خون آئے ہی نہ، یا پھر کچھ دیر کے لیے آئے، اس لیے اس کی کم سے کم مدت کوئی نہیں، تاہم یہ زیادہ سے زیادہ 10 دن تک شمار ہو گی۔ اس کے بعد آنے والا خون استحاضہ کا شمار ہو گا۔


تحفۃ العوام جدید، صفحہ 84-85 پر بھی اسی طرح درج ہے۔ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کی صورت حیض کے مانند ہے جس میں نماز معاف ہے، مگر روزے کی قضا کرنی ہو گی

جیسا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اس مسئلے پر موجود احکامات معصومین کو ملاحظہ کریں، تو کچھ روایات آپ کے لیے ہدیہ کرتے ہیں

ہماری کوشش یہی ہو گی کہ ایسی روایت ہدیہ کی جائیں کہ جو معتبر ہوں یعنی صحیح، حسن یا موثق کا درجہ رکھیں

وسائل الشیعہ، 2/383 پر ایک روایت یوں ملتی ہے

1 ـ محمد بن الحسن بإسناده عن الحسين بن سعيد ، عن ابن أبي عمير ، عن عمر بن أذينة ، عن الفضيل بن يسار ، عن (1) زرارة ، عن أحدهما ( عليهما السلام ) قال : النفساء تكف عن الصلاة أيامها (2) التي كانت تمكث فيها ثم تغتسل وتعمل (3) كما تعمل المستحاضة.


امام فرماتے ہیں کہ جس عورت کو نفاس ہو، وہ اتنے دن نماز سے دور رہے جتنا اس کے حیض کے دن ہیں، پھر وہ غسل کرے، اور ویسا عمل کرے جیسا کہ استحاضہ والی عورت کرتے ہے

اس روایت کو الکافی، 3/97 پر بھی درج کیا گیا ہے، اور علامہ مجلسی نے مراۃ العقول، 13/239 پر اسے حسن کا درجہ دیا ہے

اسی طرح وسائل، 2/386 پر ایک روایت یوں ملتی ہے

9 ـ وعنهم ، عن أحمد بن محمد ، عن علي بن الحكم ، عن عبدالله بن بكير، عن عبد الرحمن بن أعين قال : قلت له : إن امرأة عبد الملك ولدت فعد لها أيام حيضها ثم أمرها فاغتسلت واحتشت ، وأمرها أن تلبس ثوبين نظيفين ، وأمرها بالصلاة ، فقالت له : لا تطيب نفسي أن أدخل المسجد فدعني أقوم خارجا منه (1) وأسجد فيه.

 فقال : قد أمر بذا (2) رسول الله ( صلى الله عليه واله ) ، قال : فانقطع الدم عن المرأة ورأت الطهر ، وأمر علي ( عليه السلام ) بهذا قبلكم ، فانقطع الدم عن المرأة ورأت الطهر ، فما فعلت صاحبتكم ؟ قلت : ما أدري.

راوی نے اپنے بھائی کے بارے میں بتایا کہ اس کے ہاں جب بچہ ہوا، تو اس نے اپنی بیوی کے حیض کے دن گنے اور اس کے بعد اسے کہا کہ غسل کرے، اندام نہانی میں کپاس رکھے، صاف کپڑنے پہنے اور جا کر نماز پڑھے۔ اس نے جواب دیا کہ اسے اچھا نہیں لگتا کہ وہ مسجد میں داخل ہو، تو وہ باہر کھڑی ہو گی، اور سجدہ مسجد میں کرے گی۔
اس پر امام نے جواب دیا کہ نبی پاک نے بھی ایسا ہی حکم دیا تھا جس سے خون رک گیا اور عورت پاک ہو گئی تھی، اور اسی طرح مولا علی نے بھی کیا۔
اس روایت کو بھی علامہ مجلسی نے مراۃ، 13/240 پر حسن اور موثق قرار دیا۔

ایک اور تفصیلی روایت ہمیں الکافی، 3/99 پر یوں ملتی ہے کہ

4 - عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، وعلي بن إبراهيم، عن أبيه، ومحمد بن إسماعيل، عن الفضل بن شاذان جميعا، عن حماد بن عيسى، عن حريز، عن زرارة (2) قال: قلت له: النفساء متى تصلى؟ قال: تقعد بقدر حيضها وتستظهر بيومين، فإن انقطع الدم وإلا اغتسلت واحتشت واستثفرت وصلت وإن جاز الدم الكرسف تعصبت واغتسلت ثم صلت الغداة بغسل والظهر والعصر بغسل والمغرب والعشاء بغسل وإن لم يجز الدم الكرسف صلت بغسل واحد، قلت: والحائض؟ قال: مثل ذلك سواء فإن انقطع عنها الدم وإلا فهي مستحاضة تصنع مثل النفساء سواء ثم تصلي ولا تدع الصلاة على حال فإن النبي (صلى الله عليه وآله) قال: الصلاة عماد دينكم


زرارہ نے امام سے سوال کیا کہ وہ نفاس والی عورت کب تک نماز نہ پڑھے، امام نے جواب دیا کہ جتنے دن اس کے حیض کے ہوتے ہیں، اتنے دن رکے گی، پھر دو دن انتظار کرے۔ اگر تو خون رک گیا تو ٹھیک، ورنہ وہ غسل کرے، روئی رکھے، اور نماز پڑھے۔ اگر تو خون اتنا آ رہا ہو کہ روئی سے نکل آئے، اس صورت میں فجر کے لیے غسل کرے گی، ظہرین کے لیے بھی غسل کرے گی، اور مغربین کے لیے بھی غسل کرے گی۔ تاہم اگر خون باہر نہیں آ رہا تو ایک ہی غسل کافی ہے۔ زرارہ نے امام سے حائض کے بارے میں سوال کیا تو امام نے جواب دیا کہ وہ بھی ایسا ہی کرے گی اگر خون وقت پر نہ رکا۔ وہ بھی استحاضہ شمار ہو گی، اور وہ نماز نہیں چھوڑے گی کیونکہ نبی پاک نے نماز کو دین کا ستون قرار دیا

علامہ مجلسی نے مراۃ، 13/241 پر اسے صحیح قرار دیا

الکافی کی  اگلی روایت میں ہمیں یوں ملتا ہے

5 - عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، وأبو داود، عن الحسين بن سعيد، عن النضر بن سويد، عن محمد بن أبي حمزة، عن يونس بن يعقوب قال: سمعت أبا عبد الله (عليه السلام) يقول: تجلس النفساء أيام حيضها التي كانت تحيض ثم تستظهر وتغتسل وتصلي:


امام نے فرمایا کہ جس عورت کو نفاس آئے، وہ حیض کے دن کے برابر رکے گی، پھر انتظار کرے، پھر غسل کرے اور نماز پڑھے۔

یہ روایت علامہ مجلسی کی نظر میں موثق ہے ۔ مراۃ، 13/242

اس سے اگلی روایت میں ہمیں یوں ملتا ہے

6 - محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن ابن فضال، عن ابن بكير، عن زرارة، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: تقعد النفساء أيامها التي كانت تقعد في الحيض وتستظهر بيومين.


امام نے فرمایا کہ جس کو نفاس آئے، وہ حیض کے دن کے برابر رکے، پھر دو دن انتظار کرے

اس روایت کو علامہ مجلسی نے موثق مگر صحیح کی مانند قرار دیا ۔ مراۃ 13/242

یعنی اب تک ہم اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ عورت نے اپنے حیض کے دن کے برابر انتظار کرنا ہے، پھر 2 دن مزید دیکھے گی، اور اس کے بعد غسل کر کے نماز پڑھنا ہے۔ اگر تو اسے بہت خون آ رہا ہے، تو اس صورت میں اسے 3 بار غسل کرنا پڑے گا، وگرنہ ایک بار کافی ہے

اچھا اب ایک اور صورت بھی ہو سکتی ہے کہ عورت کو بہت زیادہ خون آ رہا ہے؟ اس ضمن میں وسائل میں ہمیں یہ روایت ملتی ہے

3 ـ وعن المفيد ، عن أحمد بن محمد ، عن أبيه ، عن سعد بن عبدالله ، عن أحمد بن محمد بن عيسى ، عن محمد بن عمرو ، عن يونس قال : سألت أبا عبدالله ( عليه السلام ) عن امرأة ولدت فرأت الدم أكثر مما كانت ترى ؟ قال : فلتقعد أيام قرئها التي كانت تجلس ثم تستظهر بعشرة أيام ، فإن رأت دما صبيباً فلتغتسل عند وقت كل صلاة ، فإن رأت صفرة فلتتوضأ ثم لتصل.
 قال الشيخ : يعني تستظهر إلى عشرة أيام.
امام جعفر الصادق سے سوال ہوا کہ ایک عورت کے ہاں بچہ ہوا، اور اسے بہت زیادہ خون آ رہا ہے؟ امام نے جواب دیا کہ وہ جتنے دن حیض میں بیٹھتی ہے، اتنا تو رکے گی، اگر پھر بھی خون آ رہا ہے تو دس روز پورے گرے، اب اگر خون بہت آ رہا ہے تو ہر نماز کے وقت غسل کرے گی، اور اگر زردی سی دیکھے تو وضو کرے گی۔
شیخ طوسی نے واضح کیا کہ یہاں مراد یہ ہے کہ کل 10 دن تک انتظار کرے گی
اس روایت کو علامہ مجلسی نے میلاذ الاخیار، 2/78 پر موثق کا درجہ دیا۔

یاد رہے کہ جب مقررہ دن پورے ہو جائیں تو شوہر بیوی سے مجامعت کر سکتا ہے جیسا کہ اس روایت سے ثابت ہے

4 ـ وبإسناده عن علي بن الحسن ، عن عمرو بن عثمان ، عن الحسن بن محبوب ، عن علي بن رئاب ، عن مالك بن أعين قال : سألت أبا جعفر ( عليه السلام ) عن النفساء يغشاها زوجها وهي في نفاسها من الدم ؟ قال : نعم إذا مضى لها منذ يوم وضعت بقدر أيام عدة حيضها ، ثم تستظهر بيوم فلا باس بعد أن يغشاها زوجها ، يأمرها فلتغتسل ثم يغشاها إن أحب.


امام باقر سے سوال ہوا کہ اگر عورت کو نفاس ہو تو کیا مجامعت ہو سکتی ہے۔ امام نے فرمایا کہ جب ایام حیض کے برابر دن گذر جائیں، اور وہ ایک دن انتظار کر لے، تو اس کے بعد اس میں کوئی برائی نہیں کہ وہ قربت کریں

اس موضوع پر شیخ حر عاملی صاحب نے وسائل، 2/396 پر ایک پورا باب باندھا ہے کہ

7 ـ باب تحريم وطء النفساء قبل الانقطاع ، وجوازه بعده على

كراهية قبل الغسل.


یعنی خون رکنے سے پہلے نفاس والی عورت سے مجامعت حرام ہے، اور اس کے بعد جائز ہے مگر غسل سے پہلے مکروہ ہے

اوپر درج کی گئی روایت کے علاوہ اس میں 2 اور روایات بھی ہیں۔ جو کہ یوں ہیں

 2 ـ وعنه ، عن أحمد ومحمد ابني الحسن ، عن أبيهما ، عن عبدالله بن بكير ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : إذا انقطع الدم ولم تغتسل فلياتها زوجها إن شاء.


امام الصادق فرماتے ہیں کہ جب خون رک جائے، مگر غسل نہ کیا گیا ہو، اور شوہر قریب آنا چاہے، تو آ سکتا ہے

اس روایت کو آغہ سید صادق روحانی نے فقہ امام صادق، 2/153 پر موثق قرار دیا ۔ اسی طرح آغہ سید محمد سعید طباطبائی نے بھی اپنی کتاب، مصباح المنھاج، 5/26 پر اسے موثق قرار دیا

3 ـ وعن علي بن الحسن ، عن أيوب بن نوح وسندي بن محمد جميعا ، عن صفوان بن يحيى ، عن سعيد بن يسار ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) قال : قلت له : المرأة تحرم عليها الصلاة ثم تطهر فتوضأ من غير أن تغتسل أفلزوجها أن يأتيها قبل أن تغتسل ؟ قال : لا حتى تغتسل
.

امام الصادق سے سوال ہوا کہ جس عورت کی نماز طہارت نہ ہونے کی وجہ سے حرام تھی، پھر وہ پاک ہوئی اور وضو کر لیا، مگر غسل نہیں کیا، کیا شوہر غسل سے پہلے آ سکتا ہے؟ امام نے جواب دیا کہ نہیِں، غسل کے بعد ہی آ سکتا ہے

اس روایت کو علامہ مجلسی نے میلاذ، 2/52  پر موثق قرار دیا

یہاں پر یہ واضح کرتے چلیں کہ عاملی صاحب نے اس کی وضاحت کی کہ پہلی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جائز ہے، مگر دوسری روایت اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہے کہ مکروہ ہے 

ایک اور بات کی بھی وضاحت کرتے چلیں کہ کچھ روایات میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ عورت کو 18 دن تک انتظار کرنا چاہیے۔ مگر ان روایات کے بارے میں اکثر علماء کا یہ خیال ہے کہ یہ تقیہ میں کہی گئیں ہیں۔ مثال کے طور پر شیخ عاملی صاحب نے وسائل کا جو تیسرا باب باندھا، اس میں انہوں نے کہا کہ


3 ـ باب أن أكثر النفاس عشرة أيام ،

کہ زیادہ سے زیادہ نفاس 10 دن کا ہے


اور اس میں جب وہ روایات شامل کیں جس میں دوسری تعداد کا ذکر ہے، مثال کے طور پر 18 کا، تو انہوں نے لکھا کہ یہ تقیہ پر محمول ہیں۔ ملاحظہ ہو وسائل الشیعہ، 2/388

شیخ طوسی نے بھی تہذیب الاحکام، 1/178 پر انہیں تقیہ میں قرار دیا

اسی طرح عاملی صاحب نے شیخ مفید کے حوالے سے لکھا ہے

10 ـ محمد بن محمد بن النعمان المفيد في ( المقنعة ) قال : جاءت أخبار معتمدة بان انقضاء مدة النفاس مدة الحيض وهي عشرة أيام.


یعنی شیخ مفید کہتے ہیں کہ مستند روایات کی رو سے نفاس کی مدت حیض کی اکثر مدت ہے یعنی کہ 10 دن

شیخ حسن بن شہید الثانی نے بھی منتقی الجمان، 1/233-234 پر یہی درج کیا ہے کہ مسنتد روایات وہی ہیں جو کہتی ہیں کہ عورت اپنی حیض کی عادت کے مطابق دنوں تک رکے گی۔ باقی جو روایات ہیں، وہ تقیہ پر محمولہ یں 

ہماری کوشش یہ تھی کہ ہم آپ کو کچھ روایات دے سکیں
امید ہے کہ آپ کی معلومات میں کچھ اضافہ ہوا ہو گا

انشاءاللہ کوشش کریں گے کہ استحاضہ کے موضوع پر بھی کچھ لکھ لیں

تب تک دعاؤں میں یاد رکھیے گا

فی امان اللہ

No comments:

Post a Comment