Saturday, August 27, 2016

کیا حضرت ابن عباس نے اسرائیلیات سے تعلیم دی؟

السلام علیکم 

اکثر لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جب کوئی صحابی روایت بیان کرے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اس نے نبی اکرم سے سنی ہے 

اس سلسلے میں ہم ایک مثال دینا چاہیں گے۔ امام حاکم نے اپنی مستدرک ، 2/535 پر ایک روایت درج کی ہے 

3822 - أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ، ثنا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ النَّخَعِيُّ، أَنْبَأَ عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ، ثنا شَرِيكٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} [الطلاق: 12] قَالَ: سَبْعَ أَرَضِينَ فِي كُلِّ أَرْضٍ نَبِيٌّ كَنَبِيِّكُمْ وَآدَمُ كآدمَ، وَنُوحٌ كَنُوحٍ، وَإِبْرَاهِيمُ كَإِبْرَاهِيمَ، وَعِيسَى كَعِيسَى «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 3822 - صحيح

ابن عباس نے سورہ طلاق کی 12ویں آیت کے تفسیر میں فرمایا کہ 7 زمین ہیں، اور ہر زمین میں تمہارے نبی کی مانند نبی ہے، آدم کی مانند آدم ہے، نوح کی مانند نوح ہے، ابراہیم کی مانند ابراہیم ہے، عیسی کی مانند عیسی ہے۔
امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، اگرچہ لکھی نہیں گئی
علامہ الذھبی نے بھی اسے صحیح کہا ہے 

  یہ روایت بیہقی نے اپنی کتاب الاسماء و الصفات، 2/267 پر بھی درج کی ہے۔ نیز اس سے ملتی جلتی روایت اگلے صفحے پر درج کی ہے 

832 - وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسَ، ثنا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ} [الطلاق: 12] قَالَ: فِي كُلِّ أَرْضٍ نَحْوَ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ. إِسْنَادُ هَذَا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا صَحِيحٌ، وَهُوَ شَاذُّ بِمُرَّةَ، لَا أَعْلَمُ لِأَبِي الضُّحَى عَلَيْهِ مُتَابِعًا وَاللَّهُ أَعْلَمُ

یعنی ابن عباس نے اس آیت کی ضمن میں فرمایا کہ ہر زمین پر ابراہیم علیہ السلام کی مانند نبی ہے۔ 

بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ سند ابن عباس تک صحیح ہے تاہم انہوں نے اسے شاذ قرار دیا  کہ مرۃ کے علاوہ کسی نے ابی ضحی سے اس کی متابعت میں روایت بیان نہیں کی

یاد رہے کہ یہ روایت تفسیر طبری،  23/469 پر بھی درج ہے۔ اور وہاں ایک اور روایت بھی ملتی ہے 

حدثنا عمرو بن عليّ، قال: ثنا وكيع، قال: ثنا الأعمش، عن إبراهيم بن مهاجر، عن مجاهد، عن ابن عباس، في قوله: (اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الأرْضِ مِثْلَهُنَّ) قال: لو حدثتكم بتفسيرها لكفرتم وكفركم تكذيبكم بها.

ابن عباس نے فرمایا کہ اگر میں اس کی تفسیر تمہیں بیان کروں تو تم کفر کرو گے، اور کفر یہ ہے کہ تم اس کی تکذیب کرو گے 

اب ہم دیکھتے ہیں کہ ابن کثیر نے البدایہ و النھایہ، طبع دارالفکر، 1/21 پر اس کے بارے میں کیا درج کیا ہے

فرماتے ہیں کہ

 وَهَكَذَا مَا يَذْكُرُهُ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَتَلَقَّاهُ عَنْهُمْ طَائِفَةٌ مِنْ عُلَمَائِنَا مِنْ أَنَّ هَذِهِ الْأَرْضَ مِنْ تُرَابٍ وَالَّتِي تَحْتَهَا مِنْ حَدِيدٍ وَالْأُخْرَى مِنْ حِجَارَةٍ مِنْ كِبْرِيتٍ وَالْأُخْرَى مِنْ كَذَا فَكُلُّ هَذَا إِذَا لَمْ يُخْبَرْ بِهِ وَيَصِحَّ سَنَدُهُ إِلَى مَعْصُومٍ فَهُوَ مَرْدُودٌ عَلَى قَائِلِهِ. وَهَكَذَا الْأَثَرُ الْمَرْوِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ فِي كُلِّ أَرْضٍ مِنَ الْخَلْقِ مِثْلُ مَا فِي هذه حَتَّى آدَمَ كَآدَمِكُمْ وَإِبْرَاهِيمَ كَإِبْرَاهِيمِكُمْ فَهَذَا ذَكَرَهُ ابْنُ جَرِيرٍ مُخْتَصَرًا وَاسْتَقْصَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الْأَسْمَاءِ وَالصِّفَاتِ وَهُوَ مَحْمُولٌ إِنْ صَحَّ نَقْلُهُ عَنْهُ على أنه أخذه ابن عباس رضى الله عنه عَنِ الْإِسْرَائِيلِيَّاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ

یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ اہل کتاب میں کثیر لوگوں نے بیان کیا اور ہمارے علمائ میں ایک گروہ ان سے ملا کہ زمین کی ایک تہہ مٹی کی ہے، اس کے نیچے لوہے کی ہے، اس کے نیچے پتھروں کی وغیرہ ۔ اب اگر اس کی خبر ہمیں معصوم نے نہیں دی اور ان تک سند صحیح نہیں ہے، تو یہ مردود قول ہے۔ اسی طرح کی ایک روایت ابن عباس سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہر وہ زمین جو اس طرح سے بنائی گئی ہے، اسی کی مانند ہے حتی کہ آدم آدم کی مانند، ابراہیم ابراہیم کی مانند۔ یہ ابن جریر نے مختصر صورت میں درج کی اور بیہقی نے الاسماء و الصفات میں- اور اگر یہ روایت ابن عباس سے صحیح ہے تو ہم اسے اس پر محمول کریں گے کہ یہ ابن عباس نے اسرائیلیات سے اخذ کی ہے۔  

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ نفیس اکیڈمی کی جانب سے شائع کردہ اردو ترجمہ ملاحظہ کریں تو اس میں ترجمے میں بہت کمی کی گئی ہے 



No comments:

Post a Comment