Monday, October 17, 2016

ماتم اور نوحہ

السلام علیکم

جیسے ہی ماہ محرم شروع ہوتا ہے، شیعان حیدر کرار پر عزاداری کو لے کر طعن و تشنیع کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ کئی سارے لوگ تو صحیح بخاری و دیگر سنی کتب کے حوالے دے کر ایسے اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ یہ ساری کتب تو ہم پر حجت ہیں۔  


بخاری صاحب کے بارے میں ہم پہلے ہی ایک مقالہ لکھ چکے ہیں۔جس میں ہم نے مکمل طور پر اس بات کو واضح کیا تھا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔ لنک ملاحظہ ہو- یاد رہے کہ یہ اہلسنت کے سب سے بڑے محدث ہیں۔ باقیوں کا خود اندازہ لگا لیں

اہلسنت کی روایات سے امام حسین پر گریہ کرنے کے حوالے سے ہم نے چند مقالے پہلے لکھے تھے۔ اس کے لنک بھی فراہم کر رہے ہیں

لنک 1
لنک 2 

اب چونکہ شیعان حیدر کرار نے نے قرآن و سنت سے گریہ ثابت کیا ہوا ہے، میں نے محسوس کیا کہ اس بار لوگ گریہ پر زیادہ نہیں بول رہے تھے۔ کیونکہ یہ کہنا کہ گریہ کرنا صبر کے خلاف ہے، اس سے حضرت یعقوب علیہ السلام پر حرف آتا ہے کہ وہ اتنا روئے کہ آنکھوں کی بینائی چلی گئی۔ جیسا کہ قرآن میں سورہ یوسف، آیت 84 میں ذکر ملتا ہے

وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ


اور اس نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف! اور غم سے اس کی آنکھیں سفید ہو گئیں پس وہ سخت غمگین ہوا

اس وجہ سے انہوں نے اس بارے ایک اور بات کو پکڑا کہ بخاری میں یہ روایت ملتی ہے

(ليس منا من لطم الخدود‘ وشق الجيوب‘ ودعا بدعوي الجاهلية) (صحيح البخاري‘ ج ۲، ص ۸۱‘ ح: ۱۲۹۴)

"وہ ہم میں سے نہیں ہے جو رخساروں کو پیٹے، گریباں پھاڑے اور زمانہ جاہلیت کے کلمات کہے۔"




ذرا قرآن میں سے دیکھیں کہ کون چہرے کو پیٹ رہا ہے

سورہ ذاریات، میں یہ آیت ملتی ہے

29. فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ


    [Jalandhry]    تو ابراہیمؑ کی بیوی چلاّتی آئی اور اپنا منہ پیٹ کر کہنے لگی کہ (اے ہے ایک تو) بڑھیا اور (دوسرے) بانجھ

اب اللہ جانے کہ حضرت ابراہیم کی بیوی پر مفتی کیا فتوی لگائے گا

بات صرف حضرت ابراہیم کی زوجہ پر ہی نہیں رکے گی۔ ایک اور روایت بھی ملاحظہ ہو۔ مسند امام احمد بن حنبل میں ہمیں یہ روایت ملتی ہے کہ جس میں بی بی عائشہ نبی اکرم کے وفات کی خبر دیتی ہیں اور ساتھ میں یہ الفاظ ملتے ہیں

 ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قبض وهو في حجري ثم وضعت رأسه على وسادة وقمت ألتدم مع النساء واضرب وجهي


کہ جب نبی اکرم کا انتقال ہوا، وہ میرے حجرے میں تھے۔ پھر میں نے ان کا سر تکیے پر رکھا اور خواتین کے ساتھ مل کر التدم کیا، اور چہرے پر ضرب لگائے۔

پہلے یہ بتا دوں کہ سند کے لحاظ سے یہ روایت یہ روایت معتبر ہے

مسند احمد کے محقق، شیخ حمزہ احمد زین نے اپنی تحقیق میں سند کو صحیح قرار دیا ۔ ملاحظہ ہو ان کی تحقیق ج 18، ص 199

یہ روایت مسند ابو یعلی، ج 8، ص 63 پر بھی درج ہے، اور اس کتاب کے محقق، شیخ حسین سلیم اسد نے مسند ابو یعلی کی سند کو حسن درجے کا کہا، اور مسند احمد کی سند کو صحیح قرار دیا

مسند احمد کے ایک اور محقق، شیخ شعیب الارناؤط نے سند کے بارے میں لکھا کہ یہ حسن درجے کی ہے۔ ملاحظہ ہو مسند احمد تحقیق شیخ شعیب الارناوط، ج 43، ص 369

اب یہ واضح کر دیں کہ التدم ہوتا کیا ہے جو بی بی نے کیا

ابن اثیر اپنی کتاب النهاية فی غریب الحدیث و الأثر، ج 4، ص 245 پر یہ درج کرتے ہیں

والالْتِدَام: ضَرْب النِّسَاءِ وُجوهَهُنّ فِي النِّياحة.

التدام یہ ہے کہ عورت اپنے چہرے پر نوحہ کرتے ہوئے ضرب لگائے

مشہور عالم،  أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى اپنی کتاب، القاموس المحیط، ص ۱۱۵۷ پر اس سے ملتی جلتی بات درج کرتے ہیں۔ مگر ان کا قول یہ ہے کہ نوحہ کرتے ہوئے اگر سینے پر ضرب لگائے جائیں تو التدم ہے

عربی عبارت یوں ہے

 ضَرَبَتْ صَدْرَها في النِّياحَةِ

اب یہ تو مسئلہ ہی بن گیا، اہل تشیع کو طعن کا نشانہ بناتے بناتے بات کہیں اور ہی پہنچ گئی۔

یہاں تو بی بی کی طرف سے نوحہ کرتے ہوئے ماتم مل گیا

توجہ رہے کیونکہ آگے نوحے پر بھی اعتراض نقل کرنا ہے ہم نے۔ خیر

ایک اور روایت بھی ہدیہ کرتے چلیں

طبری اپنی تاریخ، ج 3، ص 423 پر، اور اردو ترجمہ از نفیس اکیڈمی، ج 2، حصہ 2، صفحہ 201 پر، یہ روایت نقل کرتے ہیں

حَدَّثَنِي يُونُسُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ أَقَامَتْ عَلَيْهِ عَائِشَةُ النَّوْحَ، فَأَقْبَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ حَتَّى قَامَ بِبَابِهَا، فَنَهَاهُنَّ عَنِ الْبُكَاءِ عَلَى أَبِي بَكْرٍ، فَأَبَيْنَ أَنْ يَنْتَهِينَ، فَقَالَ عُمَرُ لِهِشَامِ بْنِ الْوَلِيدِ: ادْخُلْ فَأَخْرِجْ إِلَيَّ ابْنَةَ أَبِي قُحَافَةَ، أُخْتَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِهِشَامٍ حِينَ سَمِعَتْ ذَلِكَ مِنْ عُمَرَ: إِنِّي أُحَرِّجُ عَلَيْكَ بَيْتِي فَقَالَ عُمَرُ لِهِشَامٍ: ادْخُلْ فَقَدْ أَذِنْتُ لَكَ، فَدَخَلَ هِشَامٌ فَأَخْرَجَ أُمَّ فَرْوَةَ أُخْتَ أَبِي بَكْرٍ إِلَى عُمَرَ، فَعَلاهَا بِالدِّرَّةِ، فَضَرَبَهَا ضَرَبَاتٍ، فَتَفَرَّقَ النَّوْحُ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ.

سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ جب ابو بکر کا انتقال ہوا، عائشہ نے ان پر نوحہ کرنے والیوں کو بیٹھایا، عمر ان کے گھر پر آ گئے، اور رونے سے منع کیا۔ انہوں نے رکنے سے انکار کیا تو عمر نے ہشام بن ولید سے کہا کہ تم گھر میں داخل ہو جاو اور ابو قحافہ کی بیٹی اور ابو بکر کی بہن کو باہر نکالو۔ عائشہ نے یہ سن کر ہشام سے کہا کہ میں تمہیں مکان میں داخلے سے منع کرتی ہوں۔ مگر عمر نے ہشام سے کہا کہ میں تمہیں اجازت دے رہا ہوں، اندر جاو۔ پس وہ گیا اور ام فروہ ابو بکر کی بہن کو عمر کے پاس لے آیا۔ عمر نے درہ اٹھایا اور انہیں کئی بار مارا۔ یہ دیکھ کر نوحہ کرنے والیاں چلیں گئیں

یاد رہے کہ سند میں یونس بن عبدالاعلی ثقہ ہیں اور ان کی روایات صحیح مسلم میں موجود ہیں۔ وہ یہ روایت عبداللہ بن وہب سے لے رہے ہیں جو کہ ثقہ ہیں اور ان کی روایتیں صحیح بخاری و مسلم سمیت ساری صحاح ستہ میں موجود ہیں ۔ یونس بن یزید بھی ثقہ ہیں اور ان کی روایتیں صحاح ستہ بشمول بخاری و مسلم میں ہیں۔ ابن شہاب مشہور روایت زہری ہیں جو کہ ثقہ ہیں اور ان کی روایتیں صحیح بخاری و مسلم سمیت ساری صحاح ستہ میں موجود ہیں۔ وہ اس روایت میں واضح کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے یہ سعید بن مسیب سے یہ سنا۔ اور سعید بن مسیب ثقہ ہیں اور صحاح ستہ کے راوی ہیں۔  ان کے بارے میں علم جرح و تعدیل کے امام یحیی بن معین فرماتے ہیں کہ

أَصَحُّ الْمَرَاسِيلِ مَرَاسِيلُ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ
صحیح ترین مراسیل سعید بن مسیب کی ہیں

(ملاحطہ ہو معرفۃ علوم الحدیث، امام حاکم، ص 26؛ نیز تحریر علم الحدیث عبداللہ بن یوسف، ج 2، ص 932 پر اس قول کی سند کو صحیح کہا گیا ہے)

اسی طرح علامہ شمس الدین ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام نبلاء، ج4 ، ص 221 پر درج کرتے ہیں

هَذَا حَدِيْثٌ مُرْسَلٌ، وَمَرَاسِيْلُ سَعِيْدٍ مُحْتَجٌّ بِهَا.

یہ حدیث مرسل ہے، مگر سعید بن مسیب کی مرسل سے استدلال قائم کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح اگلے صفحے پر درج کرتے ہیں

قَالَ أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ: مُرْسَلاَتُ سَعِيْدِ بنِ المُسَيِّبِ صِحَاحٌ.

امام احمد بن حنبل اور کئی علماء نے کہا کہ سعید بن مسیب کی مرسل صحیح کا درجہ رکھتی ہے

خود علمائے اہلسنت نے اس روایت کی مانند دیگرروایتوں کو صحیح کا درجہ دیا ہے ۔ مثال کے طور پر فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج 5، ص 74 پر ابن حجر طبقات ابن سعد میں موجود روایت کے بارے میں یوں حکم لگاتے ہیں

وصله بن سعد في الطبقات بإسناد صحيح من طريق الزهري عن سعيد بن المسيب قال لما توفي أبو بكر أقامت عائشة عليه النوح
ابن سعد نے طبقات میں بسند صحیح زہری سے اور وہ سعید بن مسیب سے نقل کرتے ہیں کہ جب ابو بکر کا انتقال ہوا۔۔۔۔

علامہ سیوطی اپنی کتاب، جامع الاحادیث، ج18، ص 94 پر یوں حکم لگاتے ہیں

11612 عن سعيد بن المسيَّب قَالَ : ( لَمَّا مَاتَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بُكِيَ عَلَيْهِ ، فَقَالَ عُمَرُ : إنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ : إنَّ المَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ ، فَأَبَوْا إلاَّ أَنْ يَبْكُوا ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِهِشَامِ ابْنِ الْوَلِيدِ : قُمْ فَأَخْرِجِ النِّسَاءَ فَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : أُخْرِجُكَ ، فَقَالَ عُمَرُ : ادْخُلْ فَقَدْ أَذِنْتُ لَكَ فَدَخَلَ فَقَالَتْ عَائِشَةُ : أَمُخْرِجِيَّ أَنْتَ يَا بُنَيَّ فَقَالَ : أَمَّا لَكِ ، فَقَدْ أَذِنْتُ لَكِ ، فَجَعَلَ يُخْرِجُهُنَّ امْرَأَةً امْرَأَةً وَهُوَ يَضْرِبُهُنَّ بِالدِّرَّةِ حَتّي خَرَجَتْ أُمُّ فَرْوَةَ وَفَرَّقَ بَيْنَهُنَّ ) . ( ابن راهويه وهو صحيح )
.

یعنی کہ ابن راہویہ نے اسے نقل کیا اور یہ صحیح ہے

اب ہم نے واضح الفاط میں دیکھ لیا کہ بی بی عائشہ نے ابو بکر کی وفات پر نوحے کی مجلس کروائی، اور خود بھی نبی اکرم کی وفات پر التدم و ماتم کرتی رہیں

مگر اس کے باوجود  ہم پر اعتراض کرنے والے اس روایت سے بھی استدلال کر رہے ہیں جو کہ سنن ابی داود میں ہے

3128 - حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ [ص:194] الْحَسَنِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّائِحَةَ وَالْمُسْتَمِعَةَ»


''لعنت کی  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نوحہ کرنے والی عورت کو اور نوحہ سننے والی عورت کو۔''

اگرچہ یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، مگر اہلسنت کے مفتی حضرات فرماتے ہیں کہ

یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی پر لعنت فرمائی ہے

اس ویب سائٹ کا اسکرین شاٹ آخر میں دیا گیا ہے ۔ نوحہ کرنے والوں کو ذکر تو کر ہی لیا اب  ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ کون کون سننے والوں میں شامل ہے۔
 
پہلی روایت ہدیہ کرتے ہیں 

عن أمِّ سلمةَ أنها سمعتِ الجنَّ تنوحُ على الحسينِ بنِ عليٍّ


بی بی ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے جنات کو حسین بنی علی پر نوحہ کرتے سنا

ذرا علماء سے پوچھیں کہ سند کیسی ہے

علامہ ہیثمی اپنی کتاب مجمع الزوائد، ج 9، ص 199 پر کہتے ہیں کہ

رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح
طبرانی نے اس کی روایت کی، اور اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں

اسی طرح ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ، ج 6، ص 236 پر اسے صحیح قرار دیا

عبداللہ بن ظافر نے المطالب العالیہ، ج 16، ص 190-191 پر اسے صحیح کا درجہ دیا

یہی روایت بی بی میمونہ سے بھی نقل ہوئی ہے ۔ ہیثمی مجمع الزوائد، ج 9، ص 199 پر درج کرتے ہیں

وعن ميمونة قالت‏:‏ سمعت الجن تنوح على الحسين بن علي ‏، رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح
بی بی میمونہ نے کہا کہ میں نے جنات کو حسین پر نوحہ کرتے سنا۔ طبرانی نے اس کی روایت کی اور اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں
اس لیے گذارش یہ ہے کہ ہم پر خواہ مخواہ فتوے نہ لگائیں۔ آپ کی کتابیں ہم پر حجت نہیں۔ نہ ہی ہم آپ کے فتوؤں کے محتاج ہیں ۔ 

خاکپائے عزادان سید الشہدا

Slave of Ahlubait



No comments:

Post a Comment