محرم کے آغاز سے شیعان حیدر کرار کو نواصب کی جانب سے لگاتار یہ سننے کو ملتا ہے کہ شیعہ امام حسین پر گریہ کر کے بدعت کے مرتکب ہو رہے ہیں
اسی وجہ سے، ہم نے سوچا کہ براداران اہلسنت کو بتایا جائے کہ ان کے مستند روایات کے مطابق جب
نبی پاک کو شہادت حسین سے آگاہ کیا گیا، تو ان کا ردعمل کیا تھا، کیوں کہ شہادت حسین کا ذکر سن کر، جو بھی نبی نے کیا، وہ سنت قرار پائے گا، اور کسی بھی صورت میں بدعت نہیں ہو سکتا۔
ہم اس مختصر تحریر میں، روایات کی توثیق علمائے اہلسنت کی زبانی پیش کریں گے
روایت نمبر ۱
احمد بن حنبل نے مسند میں روایت نقل کی ہے
عن عبد الله بن نجي عن أبيه أنه : سار مع علي رضي الله عنه وكان صاحب مطهرته فلما حاذى نينوى وهو منطلق إلى صفين فنادى علي رضي الله عنه : اصبر أبا عبد الله اصبر أبا عبد الله بشط الفرات قلت : وماذا قال : دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم وعيناه تفيضان قلت : يا نبي الله أغضبك أحد ما شأن عيناك تفيضان قال : بل قام من عندي جبريل قبل فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات قال : فقال : هل لك إلى أن أشمك من تربته قال : قلت : نعم فمد يده فقبض قبضة من تراب فأعطانيها فلم أملك عيني أن فاضتا
عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی (ع) کے ساتھ جا رہے تھے ،ہم نینوی سے گزرے،جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے،تب حضرت علی (ع) نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا ، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا،میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی (ع) نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ (ص) کے پاس کمبرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ،میں نے کہا یا رسول اللہ (ص) کیا کسی نے آپ (ص) کو غضبناک کیا ہے،جس کی وجہ سے آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ، تب رسول (ص) نے کہا نہیں ، ابھی جبریل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسین (ع) دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے .تب جبرئل نے کہا کہ یارسول اللہ (ص) کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسین (ع) شہید ہونگے?میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں
(مسند امام احمد، جلد ۱، صفحہ ۴۴٦، روایت ٦۴۸، مع تخریج شیخ احمد شاکر)
محقق شیخ احمد شاکر نے حاشیہ میں لکھا
اس کی سند صحیح ہے، یہ روایت مجمع الزوائد، ۹/۱۸۷ میں درج ہے، اور ہیتمی نے لکھا ہے کہ یہ روایت احمد، ابو یعلی، بزار اور طبرانی نے درج کی ہے، اس کے راویت ثقہ ہیں اور اس کے روایت میں نجی منفرد نہیں ہیں
شیخ احمد شاکر اور حافظ ہیتمی کے علاوہ، مسند ابو یعلی کے محقق، شیخ حسین سلیم اسد نے بھی اپنی تحقیق میں اس رواتی کی سند کو حسن کہا ہے، حوالے کے لیے ملاحطہ ہو
مسند ابو یعلی، جلد ۱، صفحہ ۲۹۷، روایت نمبر ۳٦۳
نیز، علامہ شوکانی سے اسے اپنی کتاب درالسحابہ، صفحہ ۲۹۷ پر درج کیا، اور لکھا
یہ روایت احمد، ابو یعلی، بزار اور طبرانی نے درج کی، اور اس سند کے راوی ثقہ ہیں
روایت نمبر ۲
حافظ ہیتمی نے مجمع الزوائد، ۹/۱۲۰ میں درج کیا
15116- عن أم سلمة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال: “لا يدخل علي أحد”. فانتظرت فدخل الحسين، فسمعت نشيج رسول الله صلى الله عليه وسلم يبكي، فاطلعت فإذا حسين في حجره والنبي صلى الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي، فقلت: والله ما علمت حين دخل، فقال: “إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت فقال: أفتحبه؟ قلت: أما في الدنيا فنعم، قال: إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها: كربلاء، فتناول جبريل من تربتها”. فأراها النبي صلى الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل
قال: ما اسم هذه الأرض؟ قالوا: كربلاء، فقال: صدق الله ورسوله، كرب وبلاء.
15117- وفي رواية: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء.
رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.
بی بی ام سلمہ سے روایت ہے کہ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول الله صلى الله عليه وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے، فرمایا کہ کسی کو آنے نہ دینا۔ امام حسین علیہ السلام اندر گئے، اور میں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم کے رونے کی آواز سنی، میں اندر گئی، اور دیکھا کہ امام حسین گود میں ہیں، رسول الله صلى الله عليه وسلم اپنے
ماتھے سے پسینہ صاف کر رہے تھے، اور رو رہے تھے۔ میں نے کہا: بخدا میں نہیں جانتی کہ کب یہ داخل ہوئے۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل ہمارے ساتھ گھر میں تھے۔ اور انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے کہا اس دنیا میں ہاں۔ اس نے کہا کہ آپ کی امت ان کو قتل کر دے گی زمیں کربلا میں۔ پھر جبرائیل وہاں کی مٹی لے آئے، اور رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اسے دیکھا۔ جب امام حسین اپنے مقتل پہنجے، پوچھا: اس زمین کا کیا نام ہے؟ کہا گیا: کربلا۔ فرمایا: اللہ اور ان کے رسول نے سچ کہا، کرب و بلاء
اور راویت میں ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے سچ کہا زمین کرب و بلاء
طبرانی نے مختلف سندوں کے ساتھ روایت کی، اور ان میں ایک روایت کے راویت ثقہ ہیں
گویا رسول الله صلى الله عليه وسلم امام حسین کی شہادت کا ذکر سن کر روئے
روایت نمبر ۳
ابراہیم ابن طھمان کی وثاقت علمائے اہلسنت میں ثابت ہے۔ ہم مشیخۃ ابن طھمان،صفحہ ۵۵، کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو وہاں یہ روایت پاتے ہیں کہ
عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ هَاشِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ : دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِيَ ، فَقَالَ : ” لا يَدْخُلْ عَلَيَّ أَحَدٌ ” , فَسَمِعْتُ صَوْتًا ، فَدَخَلْتُ ، فَإِذَا عِنْدَهُ حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ وَإِذَا هُوَ حَزِينٌ ، أَوْ قَالَتْ : يَبْكِي ، فَقُلْتُ : مَا لَكَ تَبْكِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : ” أَخْبَرَنِي جِبْرِيلُ أَنَّ أُمَّتِي تَقْتُلُ هَذَا بَعْدِي ” ، فَقُلْتُ : وَمَنْ يَقْتُلُهُ ؟ فَتَنَاوَلَ مَدَرَةً ، فَقَالَ : ” أَهْلُ هَذِهِ الْمَدَرَةِ تَقْتُلُهُ “ .
ام سلمہ سے روایت ہے کہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ گھر میں تشریف لائے۔ فرمایا: کسی کو آنے نہ دو۔ پھر میں نے ان کی آواز سنی، میں اندر گئی، انے کے پاس امام حسین تھے اور وہ اداس تھے، یا بی بی نے کہا کہ وہ رو رہے تھے۔ سو بی بی نے کہا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں یا رسول اللہ؟ فرمایا: مجھے جبرائیل نے خبر دی کہ میری امت میرے بعد ان کو قتل کر دے گی۔ میں نے پوچھا کون قتل کرے گا؟ انہوں نے مٹی دیکھائی اور کہا کہ اس جگہ کے لوگ قتل کر دیں گے
کتاب کے محقق، طاہر ملک، فرماتے ہیں
اس کی سند حسن ہے۔ سارے راوی ثقہ ہیں، اور یہ حدیث صحیح ہے، اس کے شواہد ہیں اور دیگر سندیں بھی، جن میں سے کچھ صحیح لغیرہ ہیں، جیسے کہ مسند احمد، ٦/۲۹۴؛ اور ہمارے استاد شیخ البانی نے سلسلہ احادیث صحیحیہ، ۸۲۱-۸۲۲، میں اسناد کی طرف اشارہ کیا، اور ان کی صحت کو تسلیم کیا۔ اور یہ ہمارے رسول کی نبوت کی نشانیوں میں ہے، جو کہ کئی ہیں۔ اور وہ نہیں بولتے تھے سوا اس کے جو ان پر وحی کی جاتی تھی
نتیجہ
ہم نے ۳ متعبر روایات اہلسنت دیکھیں جن میں ہم نے دیکھ شہادت حسین کے ذکر کے بعد نبی پاک نے گریہ کیا
ہم برادران اہلسنت سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ان روایات کی موجودگی میں ذکر حسین کے بعد گریہ کرنے کو بدعت قرار دیا جا سکتا ہے؟ یا پھر یہ سنت قرار پائے گی؟
No comments:
Post a Comment