Wednesday, February 19, 2014

کیا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی کو زنا کے لیے بھیجیا؟

 
ابو ہریرہ نے صحیح بخاری میں ایک روایت نقل کی ہے، کہ جس کا لب لباب یہ ہے کہ ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ۳ مواقع پر جھوٹ بولا
 
 
اور ان میں سے ایک مقام وہ ہے کہ جب وہ اور بی بی سارہ جا رہے تھے اور ایک ظالم کے علاقے سے گذرے۔ اس نے پوچھا کہ یہ کون ہے تو حضرت ابراہیم نے جواب دیا کہ میری بہن ہے۔ اور پھر انہوں نے بی بی سارہ سے کہا کہ زمین پر میرے اور تمہارے علاوہ کوئی مومن نہیں، اس وجہ سے تم میری بات کو رد نہ کرنا کیونکہ میں نے اسے کہا ہے کہ تم میری بہن ہو۔ جب وہ گئیں، تو اس نے کوشش کی کہ غلط حرکت کرے، مگر ناکام ہوا۔ 
 
 
یہ روایت مختلف جگہ میں نقل کی گئی ہے، جیسا کہ 
 
 
صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا} [النساء: 125]؛ جلد ۴، صفحہ ۱۴۰، حدیث ۳۳۵۸، طبع دار طوق النجاة، ۱۴۲۲ ھ۔ 
 
اسی طرح، جلد ۹، صفحہ ۲۱، حدیث ٦۹۵۰، كتاب الإكراہ، باب إذا استكرهت المرأة على الزنا فلا حد عليها (یعنی جب عورت کو کراہت ہو زنا سے، تو اس پر کوئی حد نہیں) ،  طبع دار طوق النجاة، ۱۴۲۲ ھ۔
 
 
اب آتے ہیں بخاری کے سب سے مشہور ترین شارح، کہ جن کو سب حافظ کہہ کر پکارتے ہیں، یعنی حافظ ابن حجر عسقلانی
 
 
موصوف اپنی شرح، فتح الباری، جلد ٦، صفحہ ۳۹۳ طبع دار المعرفة - بيروت ؛ پر رقمطراز ہیں کہ
 
 
اور اس میں اختلاف ہے کہ ابراہیم نے یہ حکم کیوں دیا (کہ بادشاہ کو نہ بتانا کہ تم بہن نہیں)، اس بات کے سمیت کہ وہ ظالم ان کی عزت لوٹنا چاہتا تھا؛ اس سے کیا فرق پڑتا کہ وہ بہن ہے کہ بیوی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس بادشاہ کا مذہب یہ تھا کہ شادی شدہ عورتوں کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا جیسا کہ کہا گیا۔ اور یہ بات محتاج ہے اس چیز کو ختم کرنے کے لیے کہ ابراہیم  بڑے نقصان سے بچنے کی کوشش میں تھے چھوٹا نقصان کر کے، اور وہ ایسے کہ بادشاہ نے تو عزت لوٹنی ہی تھی، اگر وہ جان جاتا کہ اس کا شوہر ہے، وہ غیرت میں ان کا قتل کر دیتا یا پھانسی دے دیتا یا قید کر دیتا یا نقصان پہنچاتا؛ اس کے برعکس اگر وہ یہ جانے کہ اس کا بھائی ہے، تو پھر غیرت بھائی کی جانب سے ہوتی، نہ کہ بادشاہ کی جانب سے، اور وہ پرواہ نہ کرتا
 
 
عربی متن یوں ہے
 
 
Quote
 
واختلف في السبب الذي حمل إبراهيم على هذه الوصية مع أن ذلك الظالم يريد اغتصابها على نفسها أختا كانت أو زوجة فقيل كان من دين ذلك الملك ان لا يتعرض الا لذوات الأزواج كذا قيل ويحتاج إلى تتمة وهو ان إبراهيم أراد دفع أعظم الضررين بارتكاب اخفهما وذلك أن اغتصاب الملك إياها واقع لا محالة لكن ان علم أن لها زوجا في الحياة حملته الغيرة على قتله واعدامه أو حبسه واضراره بخلاف ما إذا علم أن لها أخا فان الغيرة حينئذ تكون من قبل الأخ خاصة لا من قبل الملك فلا يبالي به
 

 
 
 

No comments:

Post a Comment