Tuesday, February 18, 2014

تحریم متعہ اور ابن کثیر

 
ابن کثیر کا شمار اہلسنت کے مشہور ترین مفسرین میں ہوتا ہے۔ اپنی تفسیر میں ، سورۃ النسا کی مشہور آیت نمبر ۲۴ کے ذیل میں  فرماتے ہین
 
 
اس آیت سے عمومی طور پر نکاح متعہ پر استدلال قائم کیا جاتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اسلام کے شروع میں جائز تھی، اور بعد میں منسوخ ہو گئی 
 
 
عربی متن یوں ہے


Quote
 
وقد استدل بعموم هذه الآية على نكاح المتعة، ولا شك أنه كان مشروعاً في ابتداء الإسلام، ثم نسخ بعد ذلك
 

 
 
یہ بات اکثر اہلسنت کو بتلائی جاتی ہے،  تاہم ہم نے ابن کثیر کی تفسیر سے چونکہ استدلال قائم کرتا ہے، سو اس کا حوالہ دیا
 
 
اسی طرح وہ اپنی تفسیر جلد ۳، صفحہ ۱۷۰، طبع دار طیبہ میں کہتے ہیں
 
 
سفیان ثوری اور وکیع اسماعیل بن ابی خالد سے روایت کرتے ہیں، اور وہ قیس بن ابی حازم سے، وہ عبد اللہ ابن مسعود سے: کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ غزوات میں شرکت کرتے تھے، اور ہمارے ساتھ عورتیں نہیں ہوتی تھیں۔ تو ہم نے رسول اللہ سے کہا کہ کیا ہم اپنے آپ کو خصی کر لیں؟ اس پر انہوں نے ہمیں منع کیا، اور اجازت دی کہ عورت سے متعہ کر لو کسی چادر کے عوض۔ اور پھر انہوں نے تلاوت کی اس آیت کی کہ اے ایمان والوں! اسے حرام نہ کرو کہ جسے اللہ نے حلال کیا
 
یہ روایت اسماعیل سے ہے، اور یہ نکاح متعہ کی ممانعت سے پہلے ہے
 
 
عربی متن یوں ہے


Quote
 
وَقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ ووَكِيع، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْس بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ مَعَنَا نِسَاءٌ، فَقُلْنَا: أَلَّا نَسْتَخْصِي؟ فَنَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، وَرَخَّصَ لَنَا أَنْ نَنْكِحَ الْمَرْأَةَ بِالثَّوْبِ إِلَى أَجَلٍ، ثُمَّ قَرَأَ عَبْدِ اللَّهِ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ [وَلا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ] } (2) .
 
أَخْرَجَاهُ مِنْ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ . وَهَذَا كَانَ قَبْلَ تَحْرِيمِ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ. 

 
 
با الفاظ دیگر، جس وقت اس آیت کی تلاوت ہو رہی ہے، اس وقت تو تحریم متعہ ثابت نہیں
 
 
اور یہ آیت سورۃ مائدہ کی ہے، اسی تفسیر میں وہ یہ بھی لکھتے ہیں
 
 
اور حاکم نے کہا اپنی سند سے کہا جبیر نے کہا کہ ہم حج پر گئے، اور عائشہ سے ملے تو انہوں نے کہا کہ کیا تم سورۃ مائدہ پڑھتے ہو؟ جواب دیا کہا ہاں۔ انہوں نے کہا کہ یہ آخری سورۃ ہے جو کہ نازل ہوئی، جو تم اس میں حلال پاو، وہ حلال ہے۔ اور جو تمہیں اس میں حرام ملے، وہ حرام ہے۔ حاکم نے کہا کہ یہ شیخین، یعنی بخاری و مسلم کے شرط پر صحیح ہے، مگر انہوں نے نہیں لکھا
 
 
عربی متن یوں ہے

،
Quote
 
 وَقَالَ الْحَاكِمُ أَيْضًا: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا يحيى بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: قُرِئَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، قَالَ: حَجَجْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ لِي: يَا جُبَيْرُ، تَقْرَأُ الْمَائِدَةَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَتْ: أَمَا إِنَّهَا آخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ، فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهَا من جلال فَاسْتَحِلُّوهُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهَا مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، ثُمَّ قَالَ: صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ

 
 
 
 
گویا
 
 
عبد اللہ ابن مسعود کی اس روایت میں آخری سورۃ کے نزول کے بعد بھی متعہ کے حلال ہونے کا بیان ہے
 
 
سوال تو پھر ان لوگوں سے بنتا ہے کہ جو یہ کہہ کر سادہ لوح برادران اہلسنت کو دھوکہ دیتے ہیں کہ قرآن میں متعہ کے منسوخ ہونے کا بیان موجود ہے
 

No comments:

Post a Comment