صحیح بخاری میں ایک روایت آتی ھے
اس میں ایک جملہ آتا ھے
يحدثنا حتى أتى ذكر بناء المسجد فقال كنا نحمل لبنة لبنة وعمار لبنتين لبنتين فرآه النبي صلى الله عليه وسلم فينفض التراب عنه ويقول ويح عمار تقتله الفئة الباغية يدعوهم إلى الجنة ويدعونه إلى النار قال يقول عمار أعوذ بالله من الفتن
ابو سعید کہتے ھیں کہ جب ھم مسجد نبوی کی تعمیر کر رھے تھے، تو ھم ایک ایک اینٹ اٹھا رھے تھے اور عمار دو سع۔ جب رسول اللہ نے دیکھا تو انکا جسم صاف کرنے لگے اور کہنے لگے: عمار پر مصیبت آئے گی، انہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ یہ ان کو جنت کی طرف بلا رھے ھوں گے اور وہ ان کو دوزخ کی طرف دعوت دے رھے ھوں گے۔ عمار نے کہا کہ اللہ مجھے فتنے سے بچائے
{صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب مسجد کی تعمیر میں مدد کا بیان}
اسی طرح کی روایت صحیح ابن حبان، جلد ۱۵، صفحہ ۵۵٦-۵۵۷؛ پر درج کی ہے، اور محقق شیخ شعیب الارناوط نے اسے شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے
اسی طرح کی روایت مسند احمد، اردو ترجمہ ، 7/13 میں بھی آئی ھے
تھوڑے سے فرق کے ساتھ سیر اعلام میں ذھبی نے بھی ۲ روایات درج کی ھیں
شیخ شعیب الارناوط نے دونوں اسناد کو معتبر قرار دیا
{سیر اعلام نبلاء، 1/415}
اب عمار کس جنت کی طرف پکار رھے تھے، اور انکے قاتلین کس جہنم کی طرف پکار رھے تھے، اس کی وضاحت ابن حجر عسقلانی سے سنتے ھیں
فإن قيل كان قتله بصفين وهو مع علي والذين قتلوه مع معاوية وكان معه جماعة من الصحابة فكيف يجوز عليهم الدعاء إلى النار ؟ فالجواب أنهم كانوا ظانين أنهم يدعون إلى الجنة ، وهم مجتهدون لا لوم عليهم في اتباع ظنونهم ، فالمراد بالدعاء إلى الجنة الدعاء إلى سببها وهو طاعة الإمام ، وكذلك كان عمار يدعوهم إلى طاعة علي وهو الإمام الواجب الطاعة إذ ذاك ، وكانوا هم يدعون إلى خلاف ذلك لكنهم معذورون للتأويل الذي ظهر لهم
اور عمار کا قتل صفین میں ھوا جب وہ علی کے ساتھ تھے، اور ان کو قتل کرنے والے معاویہ اور ان کے ساتھی تھے؛ اور معاویہ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت تھی، پھر یہ کیسے جائز ھو گیا کہ وہ دوزخ کی طرف بلاتے ھوں? اس کا جواب یہ ھے کہ وہ مجتھد تھے، اور ان پر کوئی الزام نہیں کیوں کہ وہ اپنے ظن کی پیروی کر رھے تھے۔ اور جنت کی طرف پکارنے سے مراد ھے اس سبب کی طرف پکارنا جو جنت لے کر جائے، اور وہ ھے امام کی اطاعت۔ اور عمار اسی کے مطابق علی کی اطاعت کی طرف پکار رھے تھے جو کہ ایسے امام تھے جن کی پیروی واجب ھے ؛ اور جو ان کے خلاف تھے اور پکار رھے تھے (ابن حجر کے گلے میں ھڈی پھنس گئی اس لیے شرما شرمی لکھ نہیں رھے کہ کس کی طرف جبکہ حدیث میں صاف ھے جہنم کی طرف- از مترجم)، وہ معذور تھے اور اس کی تاویل صاف ظاھر ھے ان کے لیے
{فتح الباری، جلد 1، صفحہ 701، طبع دار السلام ، ریاض}
یہ اجتہاد بھی کمال چیز ھے
ایک صحابی کا قتل ھو گیا
رسول اللہ نے صاف بتا دیا کہ قاتلین جہنم کی طرف پکارنے والے ھیں، اور ادھر
اجتہاد کا نام آیا
اور فرشتوں کو بھی لالے پڑ گئے کہ اب کیا کریں ? قتل لکھیں یا خطائے اجتہادی کے جزا میں ایک نیکی درج کریں
اور اس سے بڑا کمال یہ کہ یہ اجتہاد ھم مظلوموں پر لاگو نہیں ھوتا
ھم کسی صحابی پر تنقید کر دیں، تو نواصب کی جانب سے غوغا اٹھ جاتا ھے کا ان کو سزا دو، قتل کر دو؛
کوئی تو کہہ دے، کوئی نہیں یار، خطائے اجتہادی ھے
ھم آہ بھی کرتے ھیں تو ھو جاتے ھیں بدنام
وہ قتل (حقیقت میں) بھی کرتے ہیں اور چرچہ نہیں ھوتا
خیر، ابن حجر کی بات ھو رھی تھی، حضرت نے 2 باتیں پتے کی کہیں ھیں
پڑھیے
پہلی بات یہ کہ
اور جنت کی طرف پکارنے سے مراد ھے اس سبب کی طرف پکارنا جو جنت لے کر جائے، اور وہ ھے امام کی اطاعت۔ اور عمار اسی کے مطابق علی کی اطاعت کی طرف پکار رھے تھے جو کہ ایسے امام تھے جن کی پیروی واجب ھے
چلو یہ تو مانا کہ مولا کی اطاعت واجب ھے، اور جنت جانے کا ذریعہ ھے، اب جس جس نے نہیں کی، ان کا انجام خود سوچیں
ھم شیعان حیدر کرار تو مولا کی ھی اطاعت کرتے ھیں
اب نواصب کہیں گے، کہ میاں ابن حجر کی اس بات کا کیا کہو گے
وہ مجتھد تھے، اور ان پر کوئی الزام نہیں کیوں کہ وہ اپنے ظن کی پیروی کر رھے تھے
میں تو کچھ نہیں کہوں گا، بس ایک آیت کی تلاوت کا شرف حاصل کریں گے جو سورہ یونس میں آئی ھے
36. وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ
جالندھری نے یوں ترجمہ کیا
[Jalandhry]
اور ان میں سے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں۔ اور کچھ شک نہیں کہ ظن حق کے مقابلے میں کچھ بھی کارآمد نہیں ہوسکتا۔ بےشک خدا تمہارے (سب) افعال سے واقف ہے
No comments:
Post a Comment