کئی دفعہ ہمارے سادہ براداران اہلسنت کو یہ کہہ کر دھوکہ دیا جاتا ہے کہ
رسول اللہ نے کہا تھا کہ آخری زمانہ میں ایک قوم آئے گی، جنھیں رافضی کہا جائے گا، وہ صحابہ پر تبرا کریں گے، اگر ان میں کوئی بیمار ہو جائے تو اسے نہ پوچھا جائے، ان میں کوئی مر جائے، تو پوچھا نہ جائے، اور اگر تمھاری کوئی مر جائے، انہیں شامل نہ ہونے دو
وغیرہ وغیرہ
اس ضمن میں ہم سلفی عالم، حافظ زبیر علی زئی کی تحقیق سے استفادہ کرتے ہیں کہ کیا یہ روایت مستند ہے؟
مختصر الفاظ میں
ںہیں، ایسی کوئی روایت بھی مستند نہیں ہے
اور اگر تفصیل سے جواب درکار ہے، تو ان کی کتاب، فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام، جلد ۱، صفحہ ۱۳۹ تا ۱۴۷، مکتبۃ الحدیث، ۲۰۰۹؛ کی طرف رجوع کریں
ہم ان کے تحقیق سے اس طرح سے استفادہ کریں گے کہ ہر حدیث کے الفاظ تو نقل نہیں کر پائیں گے، تاہم حدیث کے ماخذ اور اس کے سند کے ضعف کی جو نشاندہی حافظ صاحب نے کی ہے، وہ بیان کر دیتے ہیں
پہلی روایت ابن حبان کی المجروحین، ۱/۱۸۷؛ میں ہے، اور ابن حبان نے اسے باطل کہا ہے
ذہبی نے اس روایت کو سخت منکر قرار دیا
(میزان الاعتدال، ۱/۳۲)
اس کے راوی بشیر القصیر کے متعلق ابن حبان نے کہا کہ یہ سخت منکر الحدیث ہے
(المجروحین، ص ۱۸۷)
دوسری روایت مسند احمد، ۱/۱۰۳، حدیث ۸۰۸؛ ہے، زبیر علی زئی نے سند کو ضعیف کہا ہے کیونکہ ابو عقیل یحیی ابن متوکل اور کثیر ابن اسماعیل نوا ضعیف ہیں
نیز حافظ ابن جوزی نے کہا کہ یہ حدیث رسول اللہ سے صحیح نہیں ہے (العلل المتناہیہ، ۱/۱۵۷؛ حدیث ۲۵۲)
تیسری روایت مسند عبد ابن حمید اور المسند الجامع سے ہے، اور حافظ صاحب نے اس کے راویان عمران بن زید اور حجاج بن تمیم کے متعلق کہا کہ یہ ضعیف ہیں
چوتھی روایت حلیۃ الاولیا، تاریخ بغداد اور العلل المتناہیہ سے ہے۔ حافظ صاحب کو بقول یہ روایت باطل و مردود ہے کیونکہ سوار بن مصعب الہمدانی پر شدید جرح ہے اور اسے منکر الحدیث بھی کہا گیا
اسی طرح جمیع بن عمیر بھی ضعیف ہے، اور عصام بن حکم مجہول ہے
پانچویں روایت المجروحین ابن حبان، العلل المتناہیہ، مسند ابو یعلی، تاریخ دمشق ابن عساکر، موضع اوہام الجمع و التفریق خطیب؛ سے ہے
حافظ صاحب نے اس سند کو بھی ضیعف اور باطل کہا کیونکہ اس کا راوی تلید بن سلیمان پر شدید جرح ہے، اور یحیی ابن معین نے اسے کذاب کہا ہے؛ اور اس پر لعنت کی ہے
اس موقع پر حافظ صاحب نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ مسند ابو یعلی میں غلطی ہے کہ ابو ادریس، جو کہ تلید ہے؛ اس کی جگہ پر ابن ادریس لکھا ہے۔ اور انہوں نے اس کو واضح کیا کہ مسند ابو یعلی کے محقق، ارشاد الحق اثری نے اس کو بیان کیا ہے، تاہم حسین درانی نے غلطی کی ہے۔ تفصیل کے لیے حافظ صاحب کی کتاب کی طرف رجوع کریں
چھٹی حدیث معجم کبیر طبرانی، حلیۃ الاولیا، مسند ابو یعلی، السنۃ ابن ابی عاصم؛ سے ہے، اس کو بھی حافظ صاحب نے ضعیف کہا کیونکہ حجاج بن تمیم ضعیف ہے، اور اس مقام پر انہوں نے ہیثمی کا اس روایت کو حسن سند کہنے کا بھی تعاقب کیا، کہ یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ راوی ضعیف ہے
ساتویں روایت تاریخ بغداد اور معجم اوسط طبرانی سے ہے، اس کو بھی حافظ صاحب نے سخت ضعیف، باطل و مردود قرار دیا کیونکہ اس میں فضل بن غانم اور عطیہ عوفی ہیں، نیز سوار بن مصعب ہیں جن کے بارے میں چوتھی روایت میں بات ہو چکی ہے
آٹھویں روایت السنۃ ابن ابی عاصم سے ہے، اور حافظ صاحب کے مطابق یہ محمد بن اسعد تغلبی کی وجہ سے ضعیف ہے
نویں روایت بھی السنۃ ابن ابی عاصم سے ہے، اور اس کو بھی انہوں نے سخت ضعیف و مردود قرار دیا کیونکہ بکر بن خنیس ضعیف اور سوار منکر الحدیث ہے
آخر میں فرماتے ہیں
Quote
خلاصۃ التحقیق: رافضیوں کا نام لے کر، مذمت والی کوئی روایت بھی صحیح و ثابت نہیں
No comments:
Post a Comment