محمد یوسف لدھیانوی اپنی کتاب، آپ کے مسائل اور ان کا حل، جلد ۱۰، صفحہ ۵۲-۵۵، طبع مکتبہ لدھیانوی، ۲۰۰۲ء؛ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہیں
سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ سائل نے کہا کہ اس کی وضاحت کریں کہ
تاریخ المدینۃ المنورہ، تالیف عبدالمعبود؛ میں یہ بات کی ہے کہ زمین کا وہ خطہ اور متبرک حصہ جو رحمت للعالمین کے جسد اطہر اور اعضائے شریفہ سے مس کئے ہوئے ہیں، وہ مکہ، بلکہ کعبۃ اللہ سے بھی افضل ہے، سموات سبع تو کجا، عرش عظیم سے بھی اس کی شان، بالا، اعلئ، برتر، ارفع اور انتہائی بلند ہے
اب وہ جواب دیتے ہیں کہ
جو مسئلہ اس کتاب میں ذکر کیا ہے وہ قریب قریب اہل علم کا اجماعی مسئلہ ہے، وجہ اس کی بالکل ظاہر ہے کہ آنحضرت افضل الخلق ہیں، کوئی مخلوق بھی آپ سے افضل نہیں اور ایک حدیث میں ہے کہ آدمی جس مٹی سے پیدا ہوتا ہے، اسی میں دفن کیا جاتا ہے، لہذا جس پاک مٹی میں آنحضرت کے جسد اطہر کی تدفین ہوئی اسی سے آپ کی تخلیق ہوئی، اور جب آپ افضل الخلق ہوئے،، تو وہ پاک مٹی بھی تمام مخلوق سے افضل ہوئی
علاوہ ازیں زمین کے جن اجزاء کو افضل الرسل، افضل البشر، افضل الخلق کے جسد اطہر سے مس ہونے کا شرف حاصل ہے، وہ باقی تمام مخلوقات سے اس لیے بھی افضل ہیں کہ یہ شرف عظیم ان کے سوا کسی مخلوق کو حاصل نہیں
آپ کا یہ ارشاد بالکل بجا اور بر حق ہے کہ (پہلے اللہ اور پھر حضور اکرم ہیں) مگر زیر بحث مسئلے میں خدا نخواستہ اللہ تعالی کے درمیان اور آنحضرت کے درمیان تقابل نہیں کیا جا رہا، بلکہ آنحضرت کے درمیان اور دوسری مخلوقات کے درمیان تقابل ہے، کعبہ ہو، عرش ہو، کرسی ہو، یہ سب مخلوق ہے، اور آنحضرت تمام مخلوق سے افضل ہیں، اور قبر مبارک کی جسد اطہر سے لگی ہوئی مٹی اس اعتبار سے اشرف و افضل ہے کہ جس اطہر سے ہم آغوش ہونے کی جو سعادت اسے حاصل ہے، وہ نہ کعبہ کو حاصل ہے، نہ عرش و کرسی کو۔
اور اگر یہ خیال ہو کہ ان چیزوں کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہے، اور روضہ مطہر کے مٹی کی نسبت آنحضرت کی طرف ہے، اس لیے یہ چیزیں اس مٹی سے افضل ہونی چاہئیں، تو اسکا جواب یہ ہے کہ اس پاک مٹی کو آنحضرت سے ملابست کی نسبت ہے، اور کعبہ اور عرش و کرسی کو حق تعالی شانہ سے مالبست کا تعلق نہیں، حق تعالی شانہ اس سے پاک ہے
No comments:
Post a Comment