Saturday, February 15, 2014

کیا حضرت علی علیہ السلام خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے؟

 
اس مختصر سے مقالے میں ہم اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ کیا حضرت علی خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے؟ نیز کیا وہ دیگر خلافتوں سے خوش تھے، یا پھر صبر سے کام لے رہے تھے؟
 
 
آغاز ہم صحیح بخاری کی اس روایت سے کرتے ہیں۔ عمر نے کہا 
 
 
حِينَ تَوَفَّی اللہُ نَبِيَّهُ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَمَنْ مَعَهُمَا 
 
جس وقت اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وفات دے دی تو اس وقت وہ ہم سب سے بہتر تھے، مگر انصارؓ نے ہماری مخالفت کی اور سارے لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے اور حضرت علی وزبیر رضی اللہ عہنما نے بھی ہماری مخالفت کی
 
 
 
اس روایت کو ذہن نشین کرتے ہوئے ہم آتے ہیں ایک دوسری روایت کی طرف۔ یہ روایت تاریخ طبری، جلد ۲، صفحہ ۵۸۰، طبع دار الکتب علمیہ، بیروت؛ سے شروع ہوتی ہے۔ اردو ترجمہ میں یہ روایت جلد ۳، صفحہ ۲۵۳، طبع نفیس اکیڈمی، کراچی؛ سے شروع ہوتی ہے- لنک ملاحظہ کریں
 
 
پہلی نکتے کی طرف اشارہ، عبدالرحمن بن عوف نے کیا، صفحہ ۵۸۲ پر فرماتے ہیں
 
 
 
 فقال لعلي إنك تقول إني أحق من حضر بالأمر لقرابتك وسابقتك وحسن أثرك في الدين ولم تبعد 
 
علی سے کہا: آپ کہتے ہیں کہ میں سب میں زیادہ حق رکھتا ہوں اس امر (خلافت) کا اپنی قرابت کی بنیاد پر، اور اسلام میں سبقت کی بنیاد پر، اور دین میں بہتر ہونے کی وجہ سے، اور آپ اپنے آپ کو اس سے دور نہیں کرتے۔۔۔۔
 
 
یہ تو ہوا ہمارا پہلا نکتہ
اب دوسرے نکتے کی طرف آتے ہیں
 
جب عبدالرحمن نے خلافت عثمان کے حوالے کی، تو جلد ۲، صفحہ ۵۸۳ پر؛ امام علی علیہ السلام نے فرمایا
 
 
 ليس هذا أول يوم تظاهرتم فيه علينا فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون والله ما وليت عثمان إلا ليرد الأمر إليك
 
یہ پہلا دن نہیں کہ جب تم نے ہم پر غلبہ حاصل کیا۔ بہر حال صبر کرنا بہتر ہے، اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو، اس کے مقابلے میں اللہ ہی سے مدد حاصل کی جائے گی۔ آپ نے اسے ولی نہیں بنایا مگر اس وجہ سے کہ وہ یہ امر آپ کو لوٹا دے گا۔
 
 
اس سے واضح ہوا کہ امام علی خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے، اور چھن جانے پر صبر کر رہے تھے
 
 
 
اب آتے ہیں اس روایت کی اسنادی حیثیت کی طرف
 
 
 
طبری نے جلد ۲، صفحہ ۵۸۰ پر اسناد کا ذکر کچھ یوں کیا
 
حدثني عمر بن شبة قال حدثنا علي بن محمد عن وكيع عن الأعمش عن إبراهيم
 
ومحمد بن عبدالله الأنصاري عن ابن أبي عروبة عن قتادة عن شهر بن حوشب
 
وأبن مخنف عن يوسف بن يزيد عن عباس بن سهل
 
ومبارك بن فضالة عن عبيدالله بن عمر
 
ويونس بن أبي إسحاق عن عمرو بن ميمون الأودي
 
 
گویا مختلف اسناد کا زکر کیا ہے طبری نے، مگر ہم  پہلی سند پر روشنی ڈالیں گے، اور باقی اسناد صرف اس سند کو قوی کرنے کی خاطر رہنے دیں گے
 
 
پہلی سند یوں ہے
 
 
حدثني عمر بن شبة قال حدثنا علي بن محمد عن وكيع عن الأعمش عن إبراهيم
 
 
عمر ابن شبہ 
 
عمر ابن شبہ کے متعلق مشھور عالم ذھبی نے کہا کہ علامہ، حافظ، حجت ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ دارقطنی اور دیگر نے انہیں ثقہ قرار دیا۔ ابن ابی حاتم کو صدوق یعنی سچے ہیں، ابو حاتم بستی نے کہا کہ حدیث میں قائم ہیں۔ خطیب نے کہا کہ ثقہ ہیں
 
عربی متن یوں ہے
 
عمر بن شبة ( ق ) ابن عبدة بن زيد بن رائطة ، العلامة الأخباري الحافظ الحجة ۔۔۔۔وثقه الدارقطني وغير واحد . 
 
وقال عبد الرحمن بن أبي حاتم : كتبت عنه مع أبي ، وهو صدوق ، صاحب عربية وأدب . 
 
وقال أبو حاتم البستي : مستقيم الحديث ، وكان صاحب أدب وشعر ، وأخبار ومعرفة بأيام الناس . [ ص: 371 ] 
 
قال أبو بكر الخطيب : كان ثقة 
 
 
 
علی بن محمد المدائنی
 
 
ان کے متعلق ذھبی نے کہا کہ علامہ، حافظ اور صادق یعنی سچے ہیں، اور جو نقل کرتے ہیں، اس میں سچے ہیں، اور عالی، یعنی عمدہ اسناد رکھتے ہیں۔ نیز، یحیی بن معین کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا کہ وہ ان کے ثقہ،ثقہ،ثقہ (یعنی ۳ بار) قرار دیتے ہیں۔ عربی متن ملاحظہ ہو
 
 
المدائني العلامة الحافظ الصادق أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف المدائني الأخباري . نزل بغداد ، وصف التصانيف ، وكان عجبا في معرفة السير والمغازي والأنساب وأيام العرب ، مصدقا فيما ينقله ، عالي الإسناد . ۔۔۔۔۔۔۔ قال يحيى : ثقة ثقة ثقة . فسألت أبي : من هذا ؟ قال: هذا المدائني
 
 
 
وکیع بن جراح
 
 
 
یہ صحاح ستہ کے راوی ہیں، اور ذھبی نے ان کو امام اور حافظ قرار دیا۔ ابن حجر کے بقول یہ ثقة، حافظ اور  عابد ہیں
 
 
 سليمان بن مهران الأعمش
 
 
یہ بھی صحاح ستہ کے راوی ہیں، اور ذھبی نے ان کو امام، شیخ الاسلام اور شیخ المحدیثین قرار دیا۔ اگرچہ ان کو مدلس کہا گیا ہے، تاہم اس روایت کا معنعن ہونا، روایت کی صحت کو ضرر نہیں پہنچاتا کیوںکہ ابراہیم النخعی سے ان کی معنعن روایت صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہیں
 
ملاحظہ ہوں
 
حدثنا أبو نعيم حدثنا الأعمش عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة رضي الله عنها قالت أهدى النبي صلى الله عليه وسلم مرة غنما
 
مصدر:- صحیح بخاری-
 
 
اسی طرح صحیح مسلم میں ملاحظہ ہو
 
 
رقم الحديث: 440
(حديث مرفوع) وحَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الأَسْوَدِ ، وَهَمَّامٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، فِي الْمَنِيِّ ،
 
 
ترمذی نے اپنی سنن، جلد ۱، صفحہ ۱۹۸، اسی معنعن سے مروی حدیث کو حسن صحیح کہا اور البانی نے بھی صحیح کہا- ملاحظہ ہو
 
حدثنا هناد حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن إبراهيم عن همام بن الحارث قال ضاف عائشة ضيف فأمرت له بملحفة صفراء فنام فيها فاحتلم فاستحيا أن يرسل بها وبها أثر الاحتلام فغمسها في الماء ثم أرسل بها فقالت عائشة لم أفسد علينا ثوبنا إنما كان يكفيه أن يفركه بأصابعه وربما فركته من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم بأصابعي قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح
 
 
 
ابراہیم النخعی
 
 
إبراهيم بن يزيد النخعي بھی صحاح ستہ کے راوی ہیں- ذھبی کہتے ہیں کہ یہ امام، حافظ اور فقیہ عراق تھے
 
یہاں تک کی گفتگو میں ہم کو یہ پتہ چلا کہ روایت کی سند صحیح مرسل ہے
 
 
اگرچہ مرسل روایات سے امام احمد، مالکی اور حنفی حضرات کے ہاں استدلال قائم کرنا صحیح ہے، جیسا کہ برادر اسماعیل دیوبندی نے اپنے ایک مقالے میں اس پر روشنی ڈالی تھی- ایک قول ان کے مقالے سے نقل کرتے ہیں:- 
 
 
حافظ ابن رجب حنبلی مرسل سے استدلال کے باب میں لکھتے ہیں
 
وقد استدل کثیر من الفقھاء بالمرسل وھو الذی ذکره اصحابنا انه الصحیح عن الامام احمد وھو قول أبی حنیفة واصحابه واصحاب مالک ایضا
 
فرماتے ہیں کہ فقھاء کی بڑی جماعت نے مرسل روایات سے استدلال کیا ھے اور یہی [مرسل سے استدلال کا] قول ہمارے اصحاب نے امام احمد بن حنبل سے نقل کیا ھے اور یہی صحیح قول ھے اور یہی قول امام ابوحنیفہ اور انکے اصحاب اور مالکیہ کا بھی ھے
 
(شرح علل الترمذی// صفحہ116// طبعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
 
حافظ ذھبی کی کتاب "الموقظة فی علم مصطلح الحدیث" فن اصول کی مستند اور مختصر کتب میں سے ایک ھے علامہ ذھبی نے مرسل سے احتجاج کی تخصیص فرمائی ھے کہ ارسال کرنیوالا راوی کم از کم متوسط طبقے کا تابعی ہو ملاحظہ ہو
 
نعم و ان صح الاسناد الی تابعی متوسط الطبقة کمراسیل مجاھد و ابراھیم والشعبی فھو مرسل جید لا باس به
 
یعنی اگر تابعی تک سند صحیح [متصل] ہو اور تابعی بھی متوسط طبقے کا ہو جیسے کہ مجاھد،ابراھیم نخعی، اور شعبی کی مراسیل ہیں تو اس طبقے کی مراسیل اچھی [صحیح] ہیں ان [سے استدلال کرنے] میں کوئی حرج نہی ھے
 
(الموقظة فی علم مصطلح الحدیث// صفحہ39// طبعہ مکتب المطبوعات الاسلامیہ بیروت)
 
پورے آرٹیکل کا لنک ملاحظہ کریں
 
 
ذھبی نے ابراہیم نخعی کی مراسیل کو جید قرار دیا، اور کہا کا اس میں کوئی برائی نہیں
 
اور یہ قول صرف انہی کا نہیں
 
ابن تیمیہ ان لوگوں کا ذکر کرتے ہیں کہ جو مرسل روایت نہیں کرتے سوائے ثقہ کے، اور اس میں ابراہیم کا شمار کرتے ہیں- عربی متن ملاحظہ ہو
 
ومنهم من يميز بين من عادته لا يرسل إلا عن ثقة ، كسعيد بن المسيب ، وإبراهيم النخعي ، ومحمد بن سيرين 
 
( اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم، جلد ۲، صفحہ ۳۵۰،دار عالم الكتب، بيروت، لبنان)
 
اور ایک اور مقام پر انہوں نے  لکھا کہ ابراہیم کے مراسیل عمدہ/جید ہوتی ہیں
 
مراسيل إبراهيم جياد 
 
(الصارم المسلول، جلد ۱، صفحہ ۵۸۱)
 
اسی طرح ابن معین کہتے ہیں کہ ابراہیم کے مراسیل صحیح ہیں، جیسا کہ بیہقی نے سنن کبری،جلد ۱، صفحہ ۱۴۷ میں ذکر کیا
 
 قَالَ : سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ , يَقُولُ : مُرْسَلاتُ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَحْسَنُ مِنْ مُرْسَلاتِ الْحَسَنِ ,وَمُرْسَلاتُ إِبْرَاهِيمَ صَحِيحَةٌ إِلا حَدِيثَ تَاجِرِ الْبَحْرَيْنِ , وَحَدِيثَ الضَّحِكِ فِي الصَّلاةِ
 
 
 
 
احمد بن حنبل نے کہا کہ ان کی مراسیل میں کوئی برائی نہیں، جیسا کہ علامہ جمال الدين القاسمي الدمشقي نے اپنی کتاب،  قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث، صفحہ ۱۴۲ پر لکھا
 
 وقال أحمد بن حنبل مرسلات سعيد بن المسيب أصح المرسلات ومرسلات إبراهيم النخعي لا بأس بها
 
 
ابن عبدالبر نے اپنی کتاب، الاستذكار، جلد ٦، صفحہ ۱۳۷ پر، تو اس بات کا دعوی کر دیا کہ ان کے مراسیل کے صحیح ہونے پر اجماع ہے
 
وأجمعوا أن مراسيل إبراهيم صحاح
 
 
 
اس طرح انور شاہ کشمیری اپنی کتاب، العرف الشذي شرح سنن الترمذي، جلد ۳، صفحہ ۴۴۱، پر لکھتے ہیں کہ ابراہیم النخعی کے مراسیل کو قبول کیا جاتا ہے
 
 ومراسيل إبراهيم النخعي مقبولة
 
 
 
 
یاد رہے کہ طبری نے دیگر اسناد کا ذکر بھی کیا تھا جو کہ اس سند کو مزید قوت دینی ہیں، اور قابل استدلال بناتی ہیں
 

No comments:

Post a Comment