Saturday, February 15, 2014

حضور پاک کے نسب کا محفوظ رہنا

 
پاکستانی اسکالر، ڈاکٹر محمود احمد غازی، اپنی کتاب، محاضرات حدیث، صفحہ ٦۳-٦۴، الفیصل ناشران، مارچ، ۲۰۱۰؛ پر لکھتے ہیں


Quote
 
عربوں کے دل میں اللہ تعالی نے یہ ڈالا اور بظاہر ہمارے خیال میں اسی لیے ڈالا کہ سیرت کے واقعات محفوظ رکھنے تھے، کہ اپنے قبائل اور برادریوں کے نسب و محفوظ رکھیں۔ علم الانساب ان کے ہاں ایک باقاعدہ فن تھا۔ اس پر درجنوں کتابیں آج بھی موجود ہیں۔ علم الانساب کے نام سے ان موضوعات پر کتابیں لکھی گئیں کہ عرب قبائل کا نسب کی تھا؟ کون کس کا بیٹا تھا، کس کو پوتا تھا، کس کا دادا تھا، کس کی شادی کہاں ہوئی ، کس کی کتنی اولادیں تھیں، کس قبیلہ کی آپس میں رشتہ داریاں تھیں۔ ان معلومات پر درجنوں کتابیں آج بھی دستیاب ہیں جو لوگوں نے وقتا فوقتا لکھی
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
جب ہم انساب کی ان کتابوں کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک عجیب و غریب بات سامنے آتی ہے، بہت عجیب و غریب۔ اتنی عجیب و غریب کہ اس کو محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔ وہ عجیب و غریب بات یہ سامنے آتی ہے کہ جتنی معلومات محفوظ ہوئیں، وہ مرکوز ہیں رسول اللہ کی شخصیت پر، حالانکہ جس وقت سے محفوظ ہونا شروع ہوئیں، اس وقت تو حضور پیدا بھی نہیں ہوئے تھے
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
رسول اللہ سے لے کر آپ کے پینتیسویں چالیسویں جد امجد عدنان تک بنیادی امور سے متعلق ہر ایک چیز محفوظ ہے۔ رسول اللہ کی دادیاں کون تھیں، نانیاں کون تھیں، پھوپھیاں کون تھیں۔ یہ سب معلومات علم الانساب کی کتابوں میں ملیں گی۔ 
 
۔۔۔۔۔۔۔۔
 
حضرت ابو بکر کی محفوظ نہیں ہیں۔ حضرت عمر کی محفوظ نہیں ہیں، ابو جہل، ابو لہب کی محفوظ نہیں ہیں، خالد بن ولید کی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ اسلام سے پہلے عرب کے بڑے بڑے لوگ تھے، انہی کا چرچا تھا۔ ان میں سے کسی کے بارے میں اس طرح کی معلومات محفوظ نہیں رہیں۔ جو محفوظ رہ گئیں، وہ رسول اللہ کے بارے میں محفوظ رہ گئے
 

 
 

No comments:

Post a Comment