اس مضمون میں ھم شیعان حیدر کرار کے امامت سے متعلق عقیدے کی وضاحت از روئے قرآن اور کتب اھلسنت کریں گے۔ میری یہ کوشش ھو گی کہ اختصار پیش نظر رھے
اللہ نے قرآن میں فرمایا
۞ وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو ان میں پورے اترے۔ خدا نے کہا کہ میں تم کو لوگوں کا امام بناؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ (پروردگار) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو)۔ خدا نے فرمایا کہ ہمارا اقرار ظالموں کے لیے نہیں ہوا کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(۱)۔
اس آیت سے ھمیں پتہ لگتا ھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کی گئ، اور آیت بتا رھی ھے کہ یہ ان کے صاحب اولاد ھونے کے بعد کا واقعہ ھے
کیوںکہ آیت میں لفظ ( وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۖ) کا تذکرہ ھے، اور اس سے مراد یہ ھے کہ وہ ایک سے زیادہ اولاد رکھتے تھے۔ اس بات پر قرآن دلیل ھے کہ ابراھیم علیہ السلام کو اولاد بڑھاپے میں ملی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۲)۔
یہ وہ زمانہ ھے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نبوت کے عہدے پر فائز تھے۔ اور تفاسیر اھلسنت اس بات پر دلیل ھیں کہ جن آزمائشوں سے ابراہیم علیہ السلام کو گذارا گیا، ان میں اللہ کی رضا کے لیے اپنے قوم کو چھوڑنا، اللہ کے حکم سے نمرود پر جحت قائم کرنا، اسماعیل علیہ السلام کی قربانی، وغیرہ شامل ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۳)۔
اور یہ اس بات کی دلیل ھے کہ امامت نبوت سے الگ ایک عہدہ ھے، وگرنہ نبوت تو اس وقت بھی ابراھیم علیہ السلام کو حاصل تھی ۔
دوسری بات یہ کہ اس عہدے پر وہ از خود فائز نہ ھوئے تھے بلکہ اللہ نے ان کہ فائز کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اور ابراھیم علیہ السلام نے یہ کہہ کر کہ
قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۖ
اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ امامت من جانب اللہ ھی ھے- بندوں کے اختیار میں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وگرنہ وہ خود ہی اپنی اولاد کو عطا فرما دیتے-
گویا، امامت نبوت سے الگ ایک عہدہ ھے، اگرچہ اللہ نے اس عہدے پر انبیاء کو بھی فائز کیا
ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسا کہ ابراھیم علیہ السلام کی مثال سامنے ھے
اور
یہ کہ یہ عہدہ صرف خدا ھی دیتا ھے
اب آتے ھیں ابراھیم علیہ السلام کی دعا کی طرف۔۔۔۔۔۔جو انہوں نے اپنی ذریت کے لیے کی
کیا یہ دعا پوری ھوئی؟
ابن کثیر نے کہا
وقوله قال: { وَمِن ذُرِّيَّتِى } قال: { لاَ يَنَالُ عَهْدِي ٱلظَّـٰلِمِينَ } لما جعل الله إبراهيم إماماً، سأل الله أن تكون الأئمة من بعده من ذريته، فأجيب إلى ذل
اور اس قول کے متعلق کہ میری ذریت میں۔۔۔۔۔۔اللہ نے کہا کہ یہ وعدہ ضالمین کے لیے نہ ھو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب اللہ نے ابراھیم کو امام بنایا، انہوں نے اللہ سے اپنے بعد اپنی اولاد میں امامت مانگی۔ اللہ نے یہ پوری کر دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۴)۔
یہاں سے یہ بات ثابت ھوئی کہ امامت ذریت ابراھیم میں ھو گی، مگر جیسا کہ ابن کثیر نے کہا
وأخبر أنه سيكون من ذريته ظالمون، وأنه لا ينالهم عهد الله، ولا يكونون أئمة
یہ وعدہ سب کے لیے نہیں یعنی جو کہ ظالم ھوں، ان تک یہ وعدہ نہیں پہنچے گا
یہ بات بھی یاد رھے کہ حضرت ابراھیم کی اولاد کو امامت ملنے کی ایک ھی شرط بیان کی گئی
ھے، اور وہ یہ ھے کہ وہ ظالمین میں نہ ھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہیں کسی آزمائش میں سے گذارنے کا
کوئی قرینہ اس آیت سے نہیں ملتا
اب شرط ایک ھے کہ وہ ظالم نہ ھوں
ظالم وہ ھوتا ھے کہ جو ظلم کرے۔۔۔۔۔۔اور ظلم کیا ھے؟ لسان العرب (۵)،القاموس المحيط وغیرہ میں اس کی تعریف ان الفاظ کے ساتھ کی گئی ھے
الظُّلْمُ: وَضْع الشيء في غير موضِعه.
ظلم یہ کے کہ کسی چیز کو ایسے مقام پر رکھا جائے جو اس کی نہ ھو
اسی وجہ سے قرآن میں اللہ نے ایک نبی، حضرت یونس کا ذکر یوں کیا
87. وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
اور ذوالنون (کو یاد کرو) جب وہ (اپنی قوم سے ناراض ہو کر) غصے کی حالت میں چل دیئے اور خیال کیا کہ ہم ان پر قابو نہیں پاسکیں گے۔ آخر اندھیرے میں (خدا کو) پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے (اور) بےشک میں ظالمین میں ھوں ۔۔۔۔۔(٦)۔
اور حضرت آدم کا ذکر یوں کیا
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا۔۔۔۔۔ (۷)۔
ظاہر ھے کہ انبیا معصوم ھوتے ھیں، اور اس ظلم سے مراد یہ ھے کہ انہوں نے وہ کیا، جو کہ نہیں کرنا چاھیے تھا، اسی کو ترک اولی کہا جاتا ھے
گویا، جن لوگوں کو امامت ملے گی،وہ ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھیں گے۔ اسی وجہ سے شیعان حیدر کرار کا عقیدہ ھے کہ امام ترک اولئ بھی نہیں کرتا- اور یہ عقیدہ اسی وجہ سے ھے کہ امام ظلم نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرطبی نے اس سے ملتا جلتا قول لکھا کہ
ٱستدلّ جماعة من العلماء بهذه الآية على أن الإمام يكون من أهل العدل والإحسان والفضل مع القوّة على القيام بذلك، وهو الذي أمر النبيّ صلى الله عليه وسلم ألاّ ينازعوا الأمر أهله؛ على ما تقدّم من القول فيه
اس آیت سے ھمارے علما کی ایک جماعت نے استدلال قائم کیا کہ امام عدل و احسان و فضل کرنے والا ھوتا ھے، اور اس میں قیام کی صلاحیت ھو،اور یہ وہ ھیں کہ جن کے لیے رسول اللہ نے کہا کہ ان سے اس امر (امامت) میں مت جھگڑو، جیسا کہ پہلے گذر چکا ھے۔۔۔۔۔۔(۸)۔
قرطبی نے یہ بات کر کے ان لوگوں کی بولتی بند کر دی جو یہ کہہ کر لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ھین کہ اس آیت میں امام سے مراد انبیا ھیں
ھم پہلے یہ کہہ چکے ھیں کہ جب یہ آیت نازل ھوئی تھی، اس وقت ابراہیم علیہ السلام پہلے ہی نبوت پر فائز تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور قرطبی نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ اس سے مراد اس زمانے کی امامت , ھے
اور ان سے امر امامت میں لڑنا منع ھے
خیر، کیا اس آیت سے صرف ھم ھی عصمت پر استدلال کر رھے ھیں،یا علمائے اھلسنت نے بھی اس سے استدلال قائم کیا ھے۔۔
رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ھیں
المسألة السادسة: الآية تدل على عصمة الأنبياء من وجهين. الأول: أنه قد ثبت أن المراد من هذا العهد: الإمامة. ولا شك أن كل نبي إمام، فإن الإمام هو الذي يؤتم به، والنبي أولى الناس، وإذا دلت الآية على أن الإمام لا يكون فاسقاً، فبأن تدل على أن الرسول لا يجوز أن يكون فاسقاً فاعلاً للذنب والمعصية أولى. الثاني: قال: { لاَ يَنَال عَهْدِي ٱلظَّـٰلِمِينَ } فهذا العهد إن كان هو النبوة؛ وجب أن تكون لا ينالها أحد من الظالمين وإن كان هو الإمامة، فكذلك لأن كل نبي لا بد وأن يكون إماماً يؤتم به، وكل فاسق ظالم لنفسه فوجب أن لا تحصل النبوة لأحد من الفاسقين
چھٹا مسئلہ: یہ آیت دلیل ھے انبیا کی عصمت پر ۲ وجہ سے ۔ پہلا یہ کہ یہ ثابت ھے کہ اس عہد سے مراد امامت ھے، اور اس میں شک نہیں کہ ھر نبی امام ھوتا ھے، اور امام وہ ھوتا ھے کہ جس میں یہ اکٹھے ھوں، اور نبی سب لوگوں سے افضل ھوتا ھے، اور اس آیت میں دلیل ھے کہ امام فاسق نہیں ھو سکتا، تو پھر اس میں اولی دلیل ھے کہ رسول کے لیے جائز نہیں کہ وہ فاسق ھو اور گناہ اور معصیت پر عمل کرتا ھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ھر فاسق اپنی نفس کے لیے ظالم ھوتا ھے، اس لیے واجب ھے کہ کسی فاسق نے کبھی بھی نبوت حاصل نہیں کی ۔۔۔۔۔(۹)۔
اس سے ظاہر ھے کہ صرف ھم ھی اس آیت سے عصمت پر دلیل قائم نہیں کر رھے
مگر رازی کا یہ کہنا کہ ہر بنی امام ھے، کافی بعید ھے کیوںکہ ھم دیکھ ھی چکے ھیں کہ ابراھیم خلیل اللہ بنی ھو کر بھی امامت پر اپنی زندگی کے آخری ایام میں تب فائز ھوئے
بيضاوي نے بھی اس سے عصمت انبیاء پر دلیل پکڑی، نیز انہوں نے کہا کہ اس آیت سے یہ بھی ثابت ھے کہ فاسق امامت کے اھل نہیں
وتنبيه على أنه قد يكون من ذريته ظلمة، وأنهم لا ينالون الإمامة لأنها أمانة من الله تعالى وعهد، والظالم لا يصلح لها، وإنما ينالها البررة الأتقياء منهم. وفيه دليل على عصمة الأنبياء من الكبائر قبل
البعثة، وأن الفاسق لا يصلح للإمامة
اور اس میں تنبیہ ھے کہ ان کی ذریت میں ظالم بھی آئیں گے، مگر امامت ان تک نہیں جائے گی،
کیوںکہ امامت اللہ کی جانب سے ایک امانت اور عہد ھے، اور ظالم اس کے لائق نہیں، اور کوئی شک نہیں کہ یہ ان کے متقی اولاد کے پاس جائے گی۔ اور اس میں دلیل ھے انبیاء کی عصمت پر گناھان کبیرہ پر بیعثت سے پہلے، اور فاسق امامت کے لائق نہیں ۔۔۔۔۔ (۱۰)۔
ان کے علاوہ اس آیت سے عصمت انبیا پر دلیل لانے والوں میں صاحب تفسیر ضیاءالقرآن (۱/۹۲) بھی شامل ھیں
اچھا ایک معتبر حدیث آتی ھے اھلسنت کے ھاں، اور اس میں آتا ھے
من مات وليس عليه إمام مات ميتة جاهلية
جو مرا اور اس کا کوئی امام نہ ھو، وہ جاھلیت کی موت مرا ۔۔۔۔۔(۱۱)۔
اب ایک طرف تو یہ دعوی کہ امامت کا عقیدہ سے تعلق نہیں، اور دوسری طرف بغیر امام کی موت جاھلیت کی موت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چہ معنی؟
ایک اور بات بھی شیعہ کرتے ھیں کہ زمین جحت خدا سے خالی نہیں رھتی
یہ بات بھی اھلسنت کے ھاں ان الفاظ میں آئی ھے
غزالی امام علی علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ھوئے لکھتے ھیں
لا تخلو الأرض من قائم لله بحجة إما ظاهر مكشوف وإما خائف مقهور لكيلا تبطل حجج الله تعالى وبيناته
زمین کبھی خالی نہیں رھتی اللہ کے جحت سے، جو ظاھر ھو یا پھر کوف کی وجہ سے چھپا ھوا، تاکہ اللہ کی جحتیں اور اس کی نشانیاں باطل نہ ھوں ۔۔۔۔۔(۱۲)۔
اسی طرح ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں، اور بدر الدین عینی نے عمدۃالقاری میں لکھا
وفي صلاة عيسى خلف رجل من هذه الأمة مع كونه في آخر الزمان وقرب قيام الساعة دلالة للصحيح من الأقوال أن الأرض لا تخلو عن قائم لله بحجة . والله أعلم
اور عیسی کا اس امت کے فرد کے پیچھے نماز پڑھنا، اور وہ بھی اس کے ساتھ کہ یہ آخری زمانے میں ھو گا، اور قیامت قائم ھونے کے قریب ھو گا، یہ دلیل ھے اس قول کے صحیح ھونے پر کہ زمیں خالی نہیں ھوتی اللہ کی جحت سے۔
اس کے علاوہ ابن قیم جوزی، ابن تیمیہ ابن صلاح وغیرہ نے بھی یہ بات اپنی کتب میں درج کی ھے ۔۔۔۔۔۔۔(۱۳)۔
اب تک ھمیں مندرجہ ذیل باتوں کا پتہ چلا
۱- امامت من جانب اللہ ھوتی ھے
۲- امامت کا وعدہ ذریت ابراہیم کے لیے ھے
۳- امام ظالم نہیں (یاد رھے کہ اپنی نفس کے ساتھ کیا گیا ظلم بھی ظالم بنا دیتا ھے)
۴- امام فاسق نہیں
۵- جس کا کوئی امام نہیں۔ وہ جاھلیت کی موت مرے گا
٦- زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں ھوتی
اب ھم ذرا بحث کو اس زاویہ سے دیکھتے ھیں کہ تقریبا سب ھی مسلمان آج کل ایک
ہستی کا انتظار کر رہے ھیں- یعنی امام مہدی علیہ السلام
اب اگر امامت من جانب اللہ نہیں، تو پھر برادران اھلسنت ایک امام کو بنام مہدی منتخب کیوں نہیں کر لیتے؟ سارے مسائل ہی حل ھو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوری کریں، اور قصہ ختم ۔۔۔۔۔
مگر کیا کریں، انکار بھی مشکل ھے کیونکہ جہاں ایک طرف امام کے بغیر موت جاھلیت کی موت ھے، وہیں خروج مھدی بھی عقائد میں شامل ھے
شيخ حمود التويجري نے اپنی کتاب، إتحاف الجماعة بما جاء في الفتن والملاحم وأشراط الساعة، میں ایک باب باندھا
الایمان بخروج المھدی من عقائد اہلسنۃ و الجماعۃ
خروج ّمھدی پر ایمان اہلسنت کے عقائد میں ھے ۔۔۔۔۔ (۱۴)۔
شیخ البانی نے کہا کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اھلبیت نبی سے خروج مھدی، جو کہ زمین کو عدل سے ایسے بھرے گا جیسا کہ وہ ظلم سے بھری تھی
میں (البانی) کہتا ھوں کہ یہ ایسا ہی ھے جیسا کہ انہوں (ابن قیم جوزی) نے کہا ھے، اور یہ وہ عقیدہ ھے کہ جو خلف (آج کے لوگ) کو اسلاف سے ملا ھے ۔۔۔۔۔(۱۵)۔
ڈاکٹر صالح بن فوزان نے اپنی کتاب ،الارشاد الی صحیح الاعتقادات ،صفحہ ۱٦٦، میں قیامت کے شرائط کا ذکر کیا، اور ان پر عقیدہ رکھنے کو صلب العقیدہ، یعنی عقیدے کا مرکز قرار دیا، اور صفحہ ۱٦۹ میں ان میں سے ایک شرط خروج المھدی علیہ السلام کو قرار دیا
شیخ ابن باز نے فتاوی نور علی الدرب، صفحہ ۳۵٦؛ میں یہاں تک کہا کہ مھدی کا آخری زمانے میں آنا، اور زمین کو عدل سے ایسے بھرنا جیسا کہ یہ ظلم سے بھری تھی، یہ ثابت ھے، اور یہ احادیث صحیحہ متواترہ سے ثابت ھے۔ اور اس کے انکار کو کفر و گمراھی قرار دیا ھے
سنن ابی داود کے مترجم، ابو عمار عمر فاروق سعیدی نے لکھا
امام مھدی حضرت عیسی کے نزول آسمانی کے وقت ظھور پذیر ھو چکے ھوں گے۔ اور یہ روایات معنوی ظور پر حد تواتر تک پہنچی ھیں۔اس لیے ان کا انکار گمراھی ھے، اور ان میس سے صحیح روایات پر ایمان رکھنا ضروری ھے ۔۔۔۔۔۔(۱٦)۔
تو پھر ان صحیح روایات کی ھی بات کر لیتے ھیں، آخر ان پر ایمان رکھنا ھے
ایک تو یہ ثابت ھے کہ امام مھدی کو تعلق اھلبیت النبی سے ھے، اس پر تو ھم مزید روشنی نہیں ڈالیں گے۔ ھاں یہ ضرور دیکھیں گے کہ جب امام جب آئیں تو کیا کرنا ھے۔ آیا کوئی شوری ھو گی، یا پھر کیا؟ ابن ماجہ نے اپنی سنن میں لکھا
رقم الحديث:
4082
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى , وَأَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ , قَالَا : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ , عَنْ أَبِي قِلَابَةَ , عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ , عَنْ ثَوْبَانَ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَقْتَتِلُ عِنْدَ كَنْزِكُمْ ثَلَاثَةٌ , كُلُّهُمُ ابْنُ خَلِيفَةٍ , ثُمَّ لَا يَصِيرُ إِلَى وَاحِدٍ مِنْهُمْ , ثُمَّ تَطْلُعُ الرَّايَاتُ السُّودُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ , فَيَقْتُلُونَكُمْ قَتْلًا لَمْ يُقْتَلْهُ قَوْمٌ , ثُمَّ ذَكَرَ شَيْئًا لَا أَحْفَظُهُ , فَقَالَ : فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَبَايِعُوهُ , وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ , فَإِنَّهُ خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِيُّ " .
رسول اللہ نے کہا کہ ۳ اشخاص خزانے کے پاس جنگ کریں گے، جہ کہ سب خلیفہ کے بچے ھوں گے۔ مگر کسی ایک کو بھی وہ ںہیں ملے گا- پھر کالے رنگ کے جھنڈے مشرق میں سے آئیں گے، جو تم سے ایسی جنگ لڑیں گے کہ کسی نے ایسی جنگ نہیں لڑی ھو گی۔ پھر ںبی پاک نے کچھ کہا جو میں یاد نہ رکھ سکا۔ پھر کہا: جب وہ تم کو نظر آئیں تو بیعت کر لینا، چاھے گھسٹ کر آنا پڑے، کیوں کہ وہ اللہ کے خلیفہ المھدی ھوں گے ۔۔۔۔ (۱۷)۔
اس روایت کے سارے راوی ثقہ ھیں ۔۔۔۔۔۔(۱۸)۔
صرف ھم ھی اس سند کے راویان کی توثیق نہیں کر رھے بلکہ کتاب کے محقق،فواد عبدالباقی ، نے کہا
زوائد میں ھے: اس کی سند صحیح ھے اور راوی سارے ثقہ ھیں؛ اور حاکم نے مستدرک میں اس کی روایت کی اور کہا کہ اس کی سند شیخیں کے شرط پر صحیح ھے ۔۔۔۔۔(۱۹)۔
یہی بات سندی نے بھی شرح میں کی
وفي الزوائد كذا إسناده صحيح رجاله ثقات ورواه الحاكم في المستدرك وقال : صحيح على شرط الشيخين .۔۔۔۔۔ (۲۰)۔
بحر الخزار میں اس سند کے متعلق یوں کہا گیا
إِسْنَادُهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ
اس کی سند صحیح سند ھے ۔۔۔۔۔(۲۱)۔
ابن کثیر نے کہا
وهذا إسناد قوي صحيح
یہ سند قوی اور صحیح ھے ۔۔۔۔۔۔(۲۲)۔
قرطبی نے کہا
إسناده صحيح ۔۔۔۔۔۔۔ (۲۳)۔
حاکم اور ذھبی نے بھی انہیں صحیح کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔(۲۴)۔
شيخ حمود التويجري نے بھی سند کو صحیح مانا ھے ۔۔۔(۲۵)۔
اس کے علاوہ مسند احمد کی مستند روایت بھی اس بات پر دلیل ھے کہ امام مھدی کو اللہ خلافت پر مبعوث کرے گا ۔۔۔۔۔۔ (۲٦)۔
ان صحیح احادیث سے ثابت ھے کہ یہ ایک خاص شخص ھیں، اھلبیت سے ھیں، ان کی خلافت اللہ کی جانب سے ھے، اور ھمارا کام یہ ھے کہ جب آئیں، تو ھر حال میں ان کی بیعت کریں
ابو داود سجستانی نے سنن ابی داود میں امام مھدی علیہ السلام کے لیے ایک باب بنایا
كتاب المهدي
اور اس میں انہوں نے ۱۲ خلفاء کے متعلق روایات سے اپنے باب کا آغاز کیا، اور شیخ البانی نے ان کو اپنی صحیح سنن ابی داود، ۳/۱۹ میں شامل کیا۔۔۔۔(۲۷)۔
اس سے ظاہر ہے کہ ابو داود ان کو ۱۲ خلفاء میں مانتے تھے
سیوطی نے یہی کہا ھے کہ
فاشار بذلک الی ما قالہ العلما ان المھدی احد الاثنی عشر
یعنی ابو داود نے اس سے اشارہ کیا ھے علما کے اس قول کی جانب کہ مھدی ۱۲ میں سے ایک ھیں ۔۔۔۔۔ (۲۸)۔
یہاں پر ھم اپنی بحث کو سمیٹیں گے، اور دیکھیں گے کہ ھم نے علمائے اھلسنت کے ہاں کیا دیکھا
۱- امام مھدی ایک خاص شخصیت ھیں
۲- اھلبیت النبی (ذریت ابراھیم) سے تعلق رکھتے ھیں
۳- من جانب اللہ مبعوث ھوں گے
۴- رسول اللہ کے حکم کے مطابق ھمیں ہر حال میں ان کی بیعت کرنی ھے
۵-بارہ خلفاء میں سے ایک ھیں
٦- امامت فاسق کو نہیں مل سکتی
۷- بغیر امام کے موت، جاہلیت کی موت ھے
۸- ان کے آنے کو علماء نے عقائد میں شمار کیا ھے، اور اس کو رد کرنا گمراہی و کفر ھے
اب انصاف سے بتائے!کیا یہ عقائد رکھنے والے ھم سے امامت پر سوالات پوچھنے میں حق بجانب ھیں؟
*************************************************************************
(۱) سورہ بقرہ، ۱۲۴
(۲) جیسا کہ خود انہوں نے کہا
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ
الله کا شکر ہے جس نے مجھے اتنی بڑی عمر میں اسماعیل اور اسحاق بخشے بے شک میرا رب دعاؤں کا سننے والا ہے
(سورہ ابراہیم، ۳۹)
نیز، اس بات کی تائید سورہ حجر، ۵۵ اور سورہ ہود، ۷۳ سے بھی ھوتی ھے
(۳)تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں
تفسیر ابن ابی حاتم، ۱/۲۲۰؛ تفسیر در منثور (اردو ترجمہ) ۱/۳۰۱، معارف القرآن، ۱/۳۱۲؛ تفسیر ضیا القرآن، ۱/۹۱ وغیرہ
(۴)آن لائن لنک ملاحظہ کریں
(۵)لسان العرب - ابن منظور - ج ١٢ - الصفحة ٣٧٣
(٦)...
سورہ انبیا، ۸۷
(۷)الأعراف: ۲۳
(۸)تفسير القرطبي - القرطبي - ج ٢ - الصفحة ١٠٨
آن لائن لنک ملاحظہ ھو
(۹)تفسير الرازي - الرازي - ج ٤ - الصفحة ٤٨
آن لائن لنک ملاحظہ ھو
(۱۰)تفسير البيضاوي - البيضاوي - ج ١ - الصفحة ٣٩٨
(۱۱)اس روایت کے مصادر اور اس کے صحیح ھونے کے بارے ّمیں یہ لنک ملاحظہ کریں
(۱۲)إحياء علوم الدين - الغزالي،۱/۷۲
(۱۳)تفصیل یہاں ملاحظہ کریں
(۱۴) إتحاف الجماعة بما جاء في الفتن والملاحم وأشراط الساعة،۲/۵۲۷، طبع ۱۳۹٦
(۱۵) النصحیۃ، البانی، صفحہ ۲٦۷
(۱٦)سنن ابی داود، ۴/۲۸۸، طبع دارالسلام
(۱۷)سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب خروج مھدی، صفحہ ۱۳٦۷، طبع دار احیا الکتب العربیہ
(۱۸)اگر راویان پر نظر ڈالی جائے، تو ثوبان صحابی رسول ھیں، اور مسلم اور دیگر کتب کے راوی ھیں
ان سے روایت لینے والے ھیں ابو اسما، اور تہذیب الکمال میں ھے
[4445] ع عَمْرو بن مرثد أَبُو أسماء الرحبي الشامي الدمشقي
مزی نے مزید لکھا کہ انہوں نے ثوبان سے روایات لی ھیں، اور ابو قلابہ نے ان سے
؛ نیز یہ عجلی، ابن حبان، مسلم کی نظر میں ثقہ ھیں
ابن حجر نے بھی ان کو ثقہ قرار دیا
ان سے ابو قلابہ نے روایت لی، مزی نے ان کا تعارف یوں کرایا
[3283] ع عَبْد اللَّهِ بن زَيْد بن عَمْرو
ويقال ابْن عَامِر بْن ناتل بْن مَالِك بْن عبيد بْن علقمة بْن سَعْد بْن كثير بْن غالب بْن عدي بْن بيهس بْن طرود بْن قدامة بْن جرم بْن ربان بْن حلوان بْن عمران بْن الحاف بْن قضاعة أَبُو قلابة الجرمي البصري
أحد الأئمة الأعلام . قدم الشام، وسكن داريا، وهُوَ ابْن أَخِي أَبِي المهلب الجرمي
مزی کے مطابق خالد الحذا سے انکا سماع ثابت ھے، اور یہ ثقہ ھیں
شیخ البانی نے اپنی سلسلہ ضعیفیہ میں ان پر اعتراض اٹھایا، اور کہا
منكر ...وقد ذهل من صححه عن علته ، وهي عنعنة أبي قلابة ، فإنه من المدلسين كما تقدم نقْلُه عن الذهبي وغيره
یہ حدیث منکر ھے، اور اس میں علت ہے کہ یہ ابو قلابہ سے معنعن صورت میں ائی ھے، اور وہ مدلس ھیں جیسا کہ ذہبی نے کہا
مگر یہ اعتراض ۲ وجہ سے باطل ھے
۱- ہم نے کافی علماء کے اقوال درج کیے ھیں جنھوں نے اس صحیح سند مانا ھے
۲- ابو قلابہ نے یہ روایت ابو اسما سے لی ھے، اور ان کا سماع ثابت ھے جیسا کہ الجرح و التعدیل( ۵/۵۸) میں ابن ابی حاتم نے درج کیا۔۔۔۔۔۔۔
ان کے بعد خالد الحذا آتے ھیں؛ اور مزی نے لکھا
[1655] ع خالد بن مهران الحذاء أَبُو المنازل البصري
یہ بھی ثقہ ھیں
سفیان الثوری کو تو امیر المومنین فی حدیث کا لقب ملا ھے
عبد الرزاق بن همام، بخاری کے شیخ، صحاح ستہ کے راوی ہیں
احمد بن یوسف بھی ثقہ ھیں اور مسلم اور دیگر کتب کے راوی ھیں
[130] م د س ق أَحْمَد بن يُوسُف بن خالد بن سالم بن زاوية الأزدي المهلبي أَبُو الْحَسَن النَّيْسَابُورِيّ المعروف بحمدان السلمي
اور ان کے ساتھ ھیِں محمد بن يحيى الذهلي، جو کہ ثقة حافظ جليل کہلائے جاتے ھیں
(۱۹) نمبر ۱۷ کی طرف رجوع کریں
(۲۰)لنک ملاحظہ کریں
(۲۱)لنک ملاحظہ کریں
(۲۲)النهاية في الفتن والملاحم،ابن كثير، ۱/۱۷
(۲۳)التذكرة، القرطبي ،۱/٦۹۹
(۲۴)مستدرک میں ملتا ھے
8432 - أخبرنا أبو عبد الله الصفار ثنا محمد بن إبراهيم بن أرومة ثنا الحسين بن حفص ثنا سفيان عن خالد الحذاء عن أبي قلابة عن أبي أسماء عن ثوبان رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : يقتتل عند كنزكم ثلاثة كلهم ابن خليفة ثم لا يصير إلى واحد منهم ثم تطلع الرايات السود قبل المشرق فيقاتلونكم قتالا لم يقاتله قوم ثم ذكر شيئا فقال : إذا رأيتموه فبايعوه و لو حبوا على الثلج فإنه خليفة الله المهدي
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين
تعليق الذهبي قي التلخيص : على شرط البخاري ومسلم
(المستدرك بتعليق الذهبي، ۷/۳۳)
تاہم شیخ مقبل الوداعی نے اپنی تخریج میں اس پر ایک اعتراض کیا کہ حسین بن حفص اور ابو اسما بخاری کے راوی نہیں، تاہم ان کے وثاقت پر کوئی اعتراض نہیں کیا
(مستدرک ، ۴/٦۳۱، حدیث ۸۴۹۸،طبع دار الحرمین)
(۲۵) إتحاف الجماعة بما جاء في الفتن والملاحم وأشراط الساعة، ۲/۱۹
.(۲٦)...
ھم پہلے بھی اس بات کا ذکر اپنی ایک پوسٹ میں کر چکے ھیں کہ امام مھدی کو اللہ خلافت پر مبعوث کرے گا (مسند احمد، اردو ترجمہ، ۵/۲۸۸) لنک ملاحطہکریں
(۲۷) خلفائے اثنا عشر سے متعلق روایات کو معتبر طرق و مصادر سے میں نے یہاں جمع کیا ھے
(۲۸) الحاوی للفتاوی،۲/۸۵؛طبع دار الکتب علمیہ، ۱۴۰۳
No comments:
Post a Comment