اس مقالے میں میرا مقصد یہ نہیں کہ متعہ اھلسنت کی نظر میں آج مباح ھے کہ نہیں
یہ تو وہ بھی مانتے ھیں کہ کسی وقت یہ حلال رھا ھے
تو ھم یہ دیکھتے ھیں کہ تب اھلسنت کے مطابق اس کے شرائط کیا تھے
امام نووی، شرح مسلم میں لکھتے ھیں
قال القاضي : واتفق العلماء على أن هذه المتعة كانت نكاحا إلى أجل لا ميراث فيها ، وفراقها يحصل بانقضاء الأجل من غير طلاق
قاضی (عیاض) نے کہا: علماء کا اس بات پر اتفاق ھے اس متعہ میں کہ یہ نکاح ھے، خاص مدت کے لیے، اس میں میراث نہیں ھوتا، اور تفریق {یعنی مرد اور عورت کا الگ ھونا} مدت پوری ھونے پر ھوتی ھے، نہ کہ طلاق سے
[شرح مسلم - النووي - ج ٩ - الصفحة ١٨١]
امام نووی اپنی شرح میں لکھتے ھیں
وفي هذا الحديث : دليل على أنه لم يكن في نكاح المتعة ولي ولا شهود .
اس حدیث میں دلیل ھے کہ نکاح متعہ میں ولی اور گواہی نہیں ھوتی
گویا
1- یہ نکاح مانا جاتا تھا
2- خاص مدت کے لیے مانا گیا
3- اس میں گواہ اور ولی نہیں تھے
4- اس میں میراث نہیں
5- اس میں تفرقہ مدت کے پورا ھونے پر تھا، نہ کہ طلاق پر
No comments:
Post a Comment