Tuesday, February 18, 2014

کیا نہج البلاغہ میں مولا علی کا یہ قول اسنادی طور پر معتبر ہے کہ شوری انصار و مہاجرین کے لیے ہے؟

 
کئی دفعہ نواصب نہج البلاغہ کے خط نمبر ٦ سے استدلال قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ 
 
 
بے شک انہوں نے میری بیعت کی اسی شرط پر کہ جس پر انہوں نے ابو بکر، عمر، عثمان کے بیعت کی تھی- اس بنا پر جو موجود ہے، اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ اور جو نہیں تھا، اس کے پاس رد کرنے کا جواز نہیں۔ شوری مہاجرین و انصار کے لیے ہے، اور اگر وہ کسی پر اجتماع کر لیں اور اسے امام کہیں، تو اللہ کی رضا کے لیے ہے
 
 
عربی متن یوں ہے
 


Quote
 
إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوهم عليه، فلم يكن للشاهد أن يختار ولا للغائب أن يرد، وإنما الشورى للمهاجرين والأنصار، فإن اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذلك لله رضى
 

 
 
 
اس کے جو مصادر، مصادر نہج البلاغہ و اسانیدہ، جلد ۳، صفحہ ۲۰۹؛ پر درج ہیں؛ ان میں صرف ایک ہی شیعہ کتاب ہے، اور وہ نصر ابن مزاحم کی کتاب، وقعۃ صفین، صفحہ ۲۹؛ ہے۔ 
 
 
اور مذکورہ کتاب میں جو سند ہے، وہ کچھ یوں ہے


Quote
 
نصر : عمر بن سعد ، عن نمير بن وعلة ، عن عامر الشعبي ، أن عليا عليه السلام 

 
 
اس کا بنیادی راوی، عامر بن شراجیل شعبی؛ اہلسنت سے تعلق رکھتا تھا۔ اور شیعہ رجال کے رو سے قابل اعتبار نہیں۔ آغہ جواہری اپنی کتاب، المفید من معجم رجال الحدیث، میں فرماتے ہیں کہ یہ  خبیث، فاجر اور كذاب ہے
 
 
عربی متن یوں ہے


Quote
 
095 – عامر بن شرحبیل : وھو الفقیھ العامي ، المعروف بالشعبي ، خبیث فاجر كذاب ، – 6085 – 6086
معلن بعدائھ إلى أمیر المؤمنین ( ع )


 
 
باقی ۲ راویان کے بارے میں شیخ حسن عجمی فرماتے ہیں کہ نمیر بن وعلہ مجہول ہیں اور اس کی صراحت اہلسنت کے علما میں رازی نے الجرح و التعدیل میں کی ہے۔ اور عمر بن سعد کو بھی شیخ نے مجہول کہا ہے
 
 
عربی متن یوں ہے
 

Quote
 
وفي السند نمير بن وعلة وهو مجهول، صرّح بذلك الرازي في الجرح والتعديل والذهبي في ميزان الاعتدال، وفي السند عمر بن سعد الأسدي ولا يعرف من هو تحديداً، فهو مجهول.

 
 

No comments:

Post a Comment