Saturday, February 15, 2014

معاویہ کی شراب نوشی اور نواصب کی خوش فہمیاں

 
ایک تھریڈ میں ہم نے دیکھا کہ کہ نواصب اپنے آقا معاویہ کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اور مسند احمد کی ایک روایت پیش کر کے اسے رد کرنے کی کوشش کر رہے تھے، روایت کا ذکر کچھ یوں کیا انہوں نے
 
حدثنا زيد بن الحباب حدثني حسين حدثنا عبد الله بن بريدة قال دخلت أنا وأبي على معاوية فأجلسنا على الفرش ثم أتينا بالطعام فأكلنا ثم أتينا بالشراب فشرب معاوية ثم ناول أبي ثم قال ما شربته منذ حرمه رسول الله صلى الله عليه وسلم قال معاوية كنت أجمل شباب قريش وأجوده ثغرا وما شيء كنت أجد له لذة كما كنت أجده وأنا شاب غير اللبن أو إنسان حسن الحديث يحدثني
 
عبداللہ بن بریدہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے والد ایک رتبہ حضرت معاویہ کے پاس گئے انہوں نے ہمیں فرش پر بٹھایا اور ہمارے لئے کہانا لایا گیا پھر شراب لایا گیا (یہ شربت بھی ہو سکتا ہے) معاویہ رضہ نے اسے پیا پھر میرے والد کو دیا انہوں نے کہا کہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام کیا ہے میں نے نہیں پیا معاویہ رضہ نے کہا کہ میں قریش کا خوبصورت  نوجوان تھا اور سب سے زیادہ عمداہ دانتوں والا تھا مجھے دودہ یا اچہی باتیں کرنے والے انسانوں کے علاوہ اس بڑہ کر کسی چیز میں لذت محسوس نہیں ہوتی۔
 
ترجمہ نواصب  کا ہے
 
ہمارے سامنے ۲ علمائے اہلسنت کے  مسند احمد کی تخریج پڑی ہے، شیخ شعیب الارناوط اور شیخ حمزہ احمد زین، اور  شیخ شعیب الارناوط نے اس سند کو اپنے تخریج کے جلد ۳۸، صفحہ ۲٦ پر قوی، یعنی مضبوط قرار دیا، اور سند میں کسی قسم کے ضعف کی بات نہیں کی؛  جبکہ شیخ حمزہ احمد زین نے اپنی تخریج کے جلد ۱٦، صفحہ ۴۷۳، میں اسے صحیح سند قرار دیا
 
اس کے علاوہ خود ںواصب کے بقول، حافظ ہیثمی نے کہا 
 
رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح
 
احمد نے اس کی روایت کی، اور اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں
 
ہم نے ۳ علمائے اہلسنت کے بیانات اس سند کی توثیق میں پیش کیے؛ اور اب بھی اگر کوئی اس سند میں مسئلے نکالنے کی کوشش کرے، تو اس کا ہم کچھ نہیں کر سکتے
 
اب آتے ہیں نواصب کی خوش فہمیوں کی جانب
 

کہتے ہیں
 


Quote
 
 
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى 235)نے کہا:
 
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ: قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَأَجْلَسَ أَبِي عَلَى السَّرِيرِ وَأَتَى بِالطَّعَامِ فَأَطْعَمَنَا، وَأَتَى بِشَرَابٍ فَشَرِبَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: «مَا شَيْءٌ كُنْتُ أَسْتَلِذُّهُ وَأَنَا شَابٌّ فَآخُذُهُ الْيَوْمَ إِلَّا اللَّبَنَ، فَإِنِّي آخُذُهُ كَمَا كُنْتُ آخُذُهُ قَبْلَ الْيَوْمِ وَالْحَدِيثُ الْحَسَنُ
 
[مصنف ابن أبي شيبة: 6/ 188]۔
ترجمہ:
 
صحابی رسول عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اورمیرے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں چارپائی پربٹھایا ، پھرہمارے سامنے کھانا لائے جسے ہم نے کھایا ، پھرمشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا ، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جوانی میں مجھے دودھ یا اچھی باتوں کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں‌ لذت نہیں محسوس ہوتی تھی،اورآج بھی میرا یہی حال ہے۔
 
غورکریں یہ روایت بھی ’’زیدبن حباب ‘‘ ہی کی بیان کردہ ہے لیکن اس میں وہ منکرجملہ قطعا نہیں ہے جوامام احمدکی روایت میں ہے ، معلوم ہوا کہ زیدبن حباب نے کبھی اس روایت کو صحیح طورسے بیان کیا ہے جیساکہ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے ، اورکبھی ان سے چوک ہوگئی ہے جیساکہ مسند احمد کی روایت میں ہے۔
 

 
 
قارئین کرام! آپ انصاف سے بتائیں کہ کیا ان نواصب پر وحی ہوئی ہے کہ ان کو معلوم ہوا کہ زید بن
حباب سے چوک اس روایت میں ہوئی ہے جو کہ انہوں نے احمد سے بیان کی ؟
 
اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ چوک اس روایت میں نہیں جو کہ ابن ابی شیبہ کی ہے؟
 
یاد رہے کہ ابن ابی شیبہ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ دلیل کے طور پر یہ ملاحظہ کریں
 
ابن ابی شیبہ نے مسلم اور ابن ماجہ سے بیان کیا کہ سمرہ، جو کہ صحابی تھا، شراب بیچ رہا تھا۔ 
 
صحیح مسلم میں یوں درج ہے 
 
رقم الحديث: 2969
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ ، قَالُوا : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : بَلَغَ عُمَرَ : أَنَّ سَمُرَةَ بَاعَ خَمْرًا
 
یعنی مسلم کہتے ہیں کہ مجھ سے کہا  أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ اور إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ نے، اور ابو بکر (ابن ابی شیبہ) کے الفاظ ہیں کہ سفیان نے عمرو سے، اس نے طاوس سے، اس نے ابن عباس سے، جنھوں ن کہا کہ عمر کو خبر ملی کہ سمرہ شراب بیچ رہا تھا
 
 
اور ابن ماجہ نے کہا
 
رقم الحديث: 3382
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ , عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : بَلَغَ عُمَرَ ، أَنَّ سَمُرَةَ بَاعَ خَمْرًا , فَقَالَ : قَاتَلَ اللَّهُ سَمُرَةَ
 
یعنی مجھ سے کہا ابن ابی شیبہ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
اور آگے وہی سند ہے
 
اب اسے ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب، المصنف میں جب اسی سند سے اس روایت کو لکھا تو یوں لکھا 
 
رقم الحديث: 21015
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : بَلَغَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّ فُلَانًا يَبِيعُ الْخَمْرَ 
 
وہی سند ہے جو کہ مسلم اور ابن ماجہ کی ہے، مگر یہاں سمرہ کے نام کی جگہ فلانا ایا ہے
 
 
یعنی، ابن ابی شیبہ کی مسلم اور ابن ماجہ سے بیان کردہ روایت؛ اور اپنی ہی کتاب میں درج شدہ روایت میں فرق ہے- نواصب یہ بہانا بھی بنا سکتے ہیں کہ در اصل مسلم اور ابن ماجہ نے غلطی کی، ہمیں اس میں بھی فرق نہیں پڑتا، انہی کی صحاح ستہ کے ۲ کتب داو پر لگیں گے - یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ ابن ابی شیبہ نے غلطی کی، اور یہ بھی ہمارے بات کو ثابت کرے گی کہ یہ موصوف بھی غلطی کر سکتے ہیں
 
قارئین کرام! صحابہ کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔حتی کہ تحریف بھی؛ اس روایت میں  تحریف کی طرف اشارہ خود نواصب نے کیا۔ انہی کی زبانی ملاجظہ ہو
 
لکھتے ہیں

Quote
 
چنانچہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی جب اس روایت کومجمع الزوائدمیں درج کیا تو منکرجملہ کو چھوڑدیا، امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے لکھا:
 
عن عبد الله بن بريدة قال: دخلت مع أبي على معاوية فأجلسنا على الفراش ثم أتينا بالطعام فأكلنا ثم أتينا بالشراب فشرب معاوية ثم ناول أبي ثم قال معاوية: كنت أجمل شباب قريش وأجوده ثغراً وما من شيء أجد له لذة كما كنت أجده وأنا شاب غير اللبن وإنسان حسن الحديث يحدثني.
 
رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح وفي كلام معاوية شيء تركته،
 
[مجمع الزوائد للهيثمي: 5/ 55]۔
 

 
کمال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیثمی نے واضح لکھا ہے کہ یہ روایت احمد کی ہے، مگر وہ جملہ نہیں ہے جیسا کہ خود نواصب لکھ چکے ہیں
 
چلو انہی کے کلام سے یہ تو ثابت ہوا کہ علمائے اہلسنت کو اگر کوئی چیز پسند نہیں، تو وہ اس کو لکھنا پسند نہیں کرتے
 
 
قصہ مختصر! نواصب کے جانب سے مسند احمد کی جس سند کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اسے ان کے ۳ علماء نے قوی و صحیح قرار دیا ہے 
 
 
 
mashrb.gif
 

3 comments:

  1. آپ نے لکھا صحابہ کو بچانے کی کوشش ہوتی ہے تو یہ بات آپ کو سمجھ آجا ءے اللہ کرے کہ صحابہ کیا ہوتے ہیں اور ان کے دشمن یا کافر ہوتے تھےیامنافق اور اب بھی ایسا ہی ھے اورامام

    ReplyDelete
  2. امام احمد بھی امام علم رجال وہ کیا فرماتے ہیں یہ بھی لکھنا تھا

    ReplyDelete
  3. ثم قال کا مطلب کیا ہے

    ReplyDelete