نواب صدیق خان قنوجی لکھتے ھیں
وأما الكلام فيمن حارب عليا كرم الله وجهه فلا شك ولا شبهة أن الحق بيده في جميع مواطنه أما طلحة والزبير ومن معهم فلأنهم قد كانوا بايعوه فنكثوا بيعته بغيا عليه وخرجوا في جيوش من المسلمين فوجب عليه قتالهم وأما قتاله للخوارج فلا ريب في ذلك والأحاديث المتواترة قد دلت على أنه يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية وأما أهل صفين فبغيهم ظاهر لو لم يكن في ذلك إلا قوله صلى الله عليه وسلم لعمار: "تقتلك الفئة الباغية" لكان ذلك مفيدا للمطلوب ثم ليس معاوية ممن يصلح لمعارضة علي ولكنه أراد طلب الرياسة والدنيا بين قوم أغتام لا يعرفون معروفا ولا ينكرون منكرا فخادعهم بأنه طلب بدم عثمان
جہاں تک بات ھے ان کی جو علی كرم الله وجهه سے لڑے، اس میں کوئی شک و شبھہ نہیں کہ حق ان کے ہاتھ میں تھا تمام مواقع پر۔ جہاں تک بات ھے طلحة والزبير اور وہ جو ان کے ساتھ تھے، انھوں نے بیعت کی علی کی، اور پھر اس کو توڑ دیا اور مسلمانوں میں سے ایک فوج لے کر آئے، لازم تھا کہ ان سے لڑا جاتا
اور جہاں تک ان جنگوں کا حال ھے جو خوارج سے لڑی گئیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پر متواتر روایات ھیں کہ وہ دین سے خارج تھے جیسے کہ تیر کمان سے نکل جائے۔ اور جہاں تک صفین کے لوگوں کا حال ھے، وہ ظاہری طور پر باغی تھے جیسا کہ رسول اللہ نے عمار سے کہا تھا کہ تم کو باغی گروہ ہلاک کرے گا، اور اس زمن میں یہی مطلوب ھے۔ اور معاویہ علی سے جنگوں میں اصلاح کا خواہشمند نہ تھا، بلکہ ریاست اور دنیا چاہتا تھا، اور وہ ایسی قوم کے ساتھ تھا جو معروف باتوں کا ادراک نہ رکھتے تھے، اور نہ ہی منکر باتوں کا انکار کرتے تھے، سو معاویہ نے انہیں "عثمان کے خون کا بدلہ" کہہ کر دھوکا دیا
الكتاب: الروضة الندية شرح الدرر البهية
المؤلف: أبو الطيب محمد صديق خان بن حسن بن علي ابن لطف الله الحسيني البخاري القِنَّوجي (المتوفى: 1307هـ)
الناشر: دار المعرفة
ج 2 ص 360
No comments:
Post a Comment