السلام علیکم
ابن عساکر اپنی کتاب، الاربعین فی مناقب امہات المومنین، صفحہ ۷۱، حدیث ۱۱؛ پر درج کرتے ہیں کہ
بی بی ام سلمہ روایت کرتی ہیں کہ نبی پاک نے اپنی بعض بیویوں کے خروج کا ذکر کیا، اس پر عائشہ ہنس پڑیں۔ نبی پاک نے کہا کہ اے حمیرا! دیکھنا کہ کہیں تم وہ نہ ہو۔ اس کے بعد آپ مولا علی کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اے علی! اگر یہ امر تمہارے ہاتھ میں ہو تو نرمی برتنا
ابن عساکر اس حدیث کو حسن قرار دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ حدیث نبی پاک کے نبوت کی صداقت پر دلیل ہے کیونکہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا- نیز یہ اس بات پر دلیل ہے کہ وہ باتیں جو آپ نے آخرت کے بارے میں کہیں ہیں، وہ بھی صحیح ہیں
عربی متن یوں ہے
وَبِالْإِسْنَادِ قَالَ أَبُو بكر البهيقي أَنا أَبُو عبد الله الْحَافِظُ أَنَا أَبُو بَكْرِ مُحَمَّدُ بن عبد الله بْنِ الْجُنَيْدِ نَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ نَا أَبُو نُعَيْمِ الْفَضْلُ بن دُكَيْن نَا عبد الجبار بْنُ الْوَرْدِ عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَت
(ذَكَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُرُوجَ بَعْضِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ وَضَحَكَتْ عَائِشَةُ فَقَالَ لَهَا انْظُرِي يَا حُمَيْرَاءُ أَنْ لَا تَكُونِي أَنْتِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى عَلِيٍّ وَقَالَ يَا عَلِيُّ إِنْ وُلِّيتَ مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا فَارْفُقْ بِهَا)
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ مِنْ رِوَايَةِ أُمِّ سَلَمَةَ هِنْدٍ زَوْجَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ أَنَّهُ أَخْبَرَ أَبَا الطُّفِيلِ بِمَسِيرِ إِحْدَى زَوْجَات 29 أ) النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ فِي كَتِيبَةٍ وَحُذَيْفَةُ مَاتَ قَبْلَ مَسِيرِهَا وَالْغَالِبُ أَنَّهُ لَا يَقُولُهُ إِلَّا عَنْ سَمَاعٍ
وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دِلَالَةٌ عَلَى صِحَّةِ نُبُوَّتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا أَخْبَرَ أَنَّهُ سَيَكُونُ فَكَانَ كَمَا قَالَ وَذَلِكَ دَلِيلٌ عَلَى صِدْقِهِ فِيمَا أَخْبَرَ عَنْهُ مِنْ أُمُورِ الْآخِرَةِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
ابن عساکر کے علاوہ حاکم نے بھِی اسے اپنی مستررک،کتاب معرفۃ الصحابہ، باب مناقب علی، میں جگہ دی اور کہا یہ روایت بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ اس پر ذہبی نے ان کی بات میں یہ غلطی نکالی کہ عبدالجبار راوی سے انہوں نے روایت نہیں لی۔
یاد رہے کہ عبدالجبار بن الورد ثقہ راوی ہیں، جیسا کہ ابو حاتم رازی، احمد بن حنبل، یحیی ابن معین کا قول ہے- مگر بخاری و مسلم نے ان سے روایت نہیں لی۔ اس وجہ سے حاکم کا یہ کہنا کہ یہ بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح سند ہے، یہ بات درست نہیں ہو گی
اس کے علاوہ ایک اور راوی، عمار الدہنی، سے بھی بخاری نے روایت نہیں لی۔ یہ صرف صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ یہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ ابو حاتم رازی، احمد بن حنبل، نسائی وغیرہ نے کہا
اس سند پر ایک اور اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ سالم بن ابی جعد کو ذہبی نے مدلس شمار کیا ہے، اور روایت معنعن صورت میں ہے
مگر یاد رہے کہ ابن حجر نے انہیں اپنی کتاب، طبقات المدسین،صفحہ ۳۱؛ میں دوسرے طبقے میں شمار کیا ہے- اس طبقے کے بارے میں ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ وہ گروہ ہے کہ جن کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا ہے، اور ان سے صحیح میں ان روایوں کی امامت، اور تدلیس کی قلت کے وجہ سے روایتیں لی ہیں- اس گروۃ میں ابن حجر نے سفیان ثوری اور ابن عینیہ جیسے اہلسنت کے جلیل القدر علماء و راویان کو شمار کیا ہے
عربی متن یوں ہے
من احتمل الأئمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح لامامته وقلة تدليسه في جنب ما روى كالثوري أو كان لا يدلس الا عن ثقة كإبن عيينة
یہ بھی یاد رہے کہ سالم پر تدلیس کا الزام ذہبی کی جانب سے ہے، نہ کہ قدیم علماء کی جانب سے
ابن حجر نے کہا
48 – ع سالم بن أبي الجعد الكوفي ثقة مشهور من التابعين ذكره الذهبي في الميزان بذلك
صحاح ستہ کے راوی، سالم بن ابی جعد، ثقہ اور تابعین میں مشہور ہیں، ذہبی نے اپنی کتاب المیزان میں ان کا ذکر تدلیس کے ساتھ کیا
جب ہم، سلفی عالم، زبیر علی زئی، کی کتاب، الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین، صفحہ ۳۹، کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہ وہاں کہتے ہیں کہ سالم تدلیس سے بری ہیں
گویا یہ الزام ان پر صحیح نہیں
اس کی علاوہ، سندی، اپنی حاشیہ علی سنن ابن ماجہ، جلد ۲، صفحہ ۹۲؛ پر درج کرتے ہیں کہ
کچھ نے کہا ہے کہ ہر وہ حدیث ضعیف ہے جس میں حمیرا آتا ہے، تاہم وہ روایت اس سے مستثنی ہے جو حاکم نے درج کی ہے اور اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے
عربی متن یوں ہے
وقال بعضهم : كل حديث ورد فيه الحميراء ضعيف ، واستثني من ذلك ما أخرجه الحاكم من طريق عبد الجبار بن الورد عن عمار الدهني عن سالم بن أبي الجعد عن أم سلمة قالت ذكر النبي – صلى الله عليه وسلم – خروج بعض أمهات المؤمنين فضحكتعائشة فقال : انظري يا حميراء أن لا تكوني أنت ، ثم التفت إلى علي فقال : إن وليت من أمرها شيئا فارفق بها . قال الحاكم : صحيح على شرطالبخاري ومسلم
قصہ مختصر! ہم نے اس روایت کے بارے میں کچھ علمائے اہلسنت کی رائے دیکھی۔ نیز اس کے سند پر جواعتراضات کیے جا سکتے ہیں، ان کا جائزہ لیا
دعاوں میں یاد رکھیے گا
No comments:
Post a Comment