السلام علیکم
اس پوسٹ میں ہم مذکورہ حدیث کے بارے میں شیخ ناصر الدین البانی کی تحقیق پیش کریں گے- موصوف اپنی کتاب، الثمر المستطاب في فقه السنة والكتاب، صفحہ ۴۸۷ تا ۴۹۱، پر رقمطراز ہیں
امام احمد نے اس کی ابو عوانہ - ابو بلج - عمرو بن میمون - ابن عباس کے سند کے ساتھ درج کیا ہے
اور ترمذی نے نے شعبہ - ابو بلج ، پھر پہلی والی سند کی مانند طریق سے نقل کیا ہے
اور اس کے بعد کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔ میں شعبہ سے اسی سند کے ساتھ اس کو جانتا ہوں- پھر امام ترمذی نے کہ کہ ابو بلج کا نام یحیی بن سلیم ہے
میں (البانی) یہ کہتا ہوں کہ ابو بلج کے بارے میں اختلاف ہے۔ میزان (الاعتدال) میں ہے کہ ابن معین، محمد بن سعد، نسائی، دارقطنی نے اس کو ثقہ کہا۔ ابو حاتم نے کہا کہ یہ صالح الحدیث ہے، اس میں کوئی برائی نہیں۔ بخاری نے کہا کہ اس میں نظر ہے۔ احمد نے کہا کہ یہ منکر حدیث کی روایت کرتا ہے۔ ابن حبان نے کہا کہ یہ خطا کرتا ہے۔ جوزجانی نے کہا کہ یہ غیر ثقہ ہے، اور مناکیر نقل کرتا ہے۔ حافظ ابن حجر نے تقریب (التہذیب) میں کہا کہ یہ صدوق/سچا ہے، مگر خطا کرتا ہے
میں البانی یہ کہتا ہوں کہ باقی راوی سارے ثقہ ہیں، اور بخاری و مسلم کے ہیں۔ پس یہ سند میری نظر میں حسن ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا کہ احمد و نسائی نے اس کی روایت کی، اور راوی سارے ثقہ ہیں۔
اور یہ روایت نسائی نے ابو عوانہ کے سند کے ساتھ کی جیسا کہ البدایہ میں ہے۔ اور اس میں یہ بات زائد ہے کہ
(اور وہ مسجد میں حالتِ جنابت میں داخل ہوتے، اور ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا)
اور ذہبی کا اس حدیث پر حکم غلط ہے کیونکہ ابو بلج اس روایت میں منفرد نہیں، بلکہ اس کی کئی شواہد ہیں۔
ان میں ایک تو سعد بن ابی وقاص سے ہے کہ
نبی اکرم نے کہا کو سب دروازے بند کر دو، اور علی کے دروازے کو چھوڑ دو
امام احمد نے اس کو درج کیا ہے عبداللہ بن شریک- عبداللہ بن رقی کی سند سے۔ اور اس کے راوی ثقہ ہیں سوائے ابن رقیم کے۔ ان سے کسی نے روایت نہیں لی سوائے ابن شریک کے۔ اور حافظ نے تقریب میں، اور خزرجی نے الخلاصہ میں کہا کہ یہ مجہول ہیں۔
ہیثمی نے خیال کیا کہ یہ حسن درجے کی ہے۔ انہوں نے کہا
(احمد، ابو یعلی، بزار، طبرانی نے اس کو نقل کیا، اور اس میں یہ زائد بات ہے
ہم نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! سب دروازے بند کر دیے، سوائے علی کے باب کے: جواب ملا: میں نے یہ دروزاے بند نہیں کیے، بلکہ اللہ نے بند کروائے ہیں۔ اور احمد کی سند حسن ہے)
اور حافظ ابن حجر نے ان کی اتباع کی، اور کہا کہ اس کی سند قوی ہے۔ اور طبرانی نے (معجم) اوسظ میں اس کو نقل کیا، اور اس کے راوی بھی ثقہ ہیں۔
میں البانی یہ کہتا ہوں کہ یہ ابن حجر کا تناقض ہے کہ وہ اس کو قوی کہہ رہے ہیں، جبکہ اس کے کچھ راویوں کو مجہول کہہ رہے ہیں- اور جو سند ابو یعلی کی ہے کی ہے، اس میں کچھ راویوں کو میں نہیں جانتا۔ میرا گمان ہے کہ کچھ راویوں کے نام میں طبع/اشاعت کے وقت تحریف ہوئی - اللہ علم رکھتا ہے
اور ان میں زید بن ارقم کی حدیث بھی شامل ہے۔ کہ کچھ اصحاب کے گھروں کے
دروازے مسجد میں کھلتے تھے۔ ایک دن آپ نے کہا کہ سب دروزاے بند کر دو، سوائے علی کے دروازے کے۔ لوگوں نے اس میں بات چیت (نکتہ چینی) شروع کی۔ پس آپ کھڑے ہوئے
آپ نے اللہ کا حمد و ثنا کیا،پھر کہا: میں نے دروازے بند کرے کا کہا سوائے علی کے دروازے کے۔ اور لوگوں نے اس میں بات چیت کی۔ خدا کی قسم! میں نے نہ تو کچھ بند کیا، نہ کھولا۔ بس وہ کیا جس کا مجھے حکم تھا
احمد نے اسے محمد بن جعفر - عوف - میمون کے سند سے بیان کیا
اس کے راوی ثقہ ہیں، اور بخاری و مسلم کے ہیں سوائے میمون کے۔ جو کہ ضعیف ہے جیسا کہ تقریب میں ہے، اور المجمع میں ہے
ابن حبان نے اسے ثقہ کہا۔ اور باقی جماعت نے ضعیف۔ سند کے باقی راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں
ذہبی نے اس حدیث پر کہا کہ عقیلی نے اس حدیث کا تعقب کیا ہے۔ اس کی اس سے بہتر سند سے روایت ہے، اور اس میں کمزوری ہے۔
حافظ نے فتح البانی میں کہا کہ احمد، نسائی، حاکم نے اسے درج کیا ہے، اور راوی سارے ثقہ ہیں
یہ ابن حجر کی طرف سے تناقض ہے
مستدرک امام حاکم میں یہ احمد کی سند کے ساتھ ہے- اور حاکم نے کہا کہ سند صحیح ہے۔ اور ذہبی نے اسے تسلیم کیا
اسی طرح ابن عمر کے سند کے ساتھ بھی ہے کہ علی کو ۳ ایسی خصلیتیں ملیں کہ اگر ایک بھی مجھے ملتی تو مجھے سرخ پتھر سے زیادہ محبوب ہوتیں۔ ایک تو نبی اکرم نے ان کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کی۔اور سب دروازے بند کر تیے سوائے ان کے، اور خیبر کے دن ان کو علم عطا کیا۔
احمد نے ہشام بن سعد - عمر بن اسید کے سند سے نقل کیا اور یہ سند حسن ہے جیسا کہ ابن حجر نے کہا
میں البانی یہ کہتا ہوں کہ ساری راوی ثقہ ہیں، اور بخاری و مسلم کے ہیں سوائے ہشام بن سعد کے، جو کہ صرف مسلم کا راوی ہے، یہ صدوق/سچا تھا مگر وہمی تھا جیسا کہ تقریب میں آتا ہے (میں اہلبیت کا ادنی غلام یہ گذارش کرتا چلوں کہ پھر تو سند امام مسلم کی شرط پر صحیح ہوئی)
اور عمر بن اسید، عمرو بن ابی سفیان ہے جیسا کہ علم الرجال کی کتب میں ہے۔
اس ضمن میں علی، جابر بن سمرہ، ابن عباس سے بھی روایتیں آتی ہیں۔ تاہم وہ سندیں ذکر کے لائق نہیں۔ پس میں ان کو چھوڑ رہا ہوں-
ابن عمر کی حدیث کی ایک اور سند بھی ہے جو کہ طبرانی نے اپنی معجم الاوسط میں درج کی ہے، اور نسائی نے بھی جیسا کہ الفتح میں علا بن عرار کے ساتھ ہے۔
اور اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں سوائے علاء کے۔ یحیی ابن معین وغیرہ نے اس کو ثقہ کہا ہے۔
اور یہ روایات ایک دوسرے کو قوت دیتی ہیں۔ اور سب سندیں مل کر قابلِ احتجاج بن جاتی ہیں
آگے چل کر وہ ابن جوزی کو رد کرتے ہیں کہ انہوں نے اسے الموضوعات میں درج کیا
تاہم ہمارے مقصد کے لیے اتنا کافی ہے
عربی متن ملاحظہ ہو
(سدوا أبواب المسجد غير باب علي)
أخرجه أحمد من طريق أبي عوانة: ثنا ابو بلج: ثنا عمرو بن ميمون عن ابن عباس به مرفوعا
وأخرجه الترمذي من طريق شعبة عن أبي بلج به نحوه. وقال:
(حديث غريب لا نعرفه عن شعبة بهذا الإسناد إلا من هذا الوجه). ثم قال:
(وأبو بلج اسمه يحيى بن سليم)
قلت: وهو مختلف فيه ففي الميزان:
(وثقه ابن معين وغيره ومحمد بن سعد والنسائي والدارقطني وقال أبو حاتم: صالح الحديث لا بأس به وقال البخاري: فيه نظر وقال أحمد: روى حديثا منكرا وقال ابن حبان: كان يخطئ وقال الجوزجاني: غير ثقة ومن مناكيره هذا الحديث). وقال الحافظ في (التقريب):
(صدوق ربما أخطأ)
قلت: وبقية رجال أحمد ثقات رجال الشيخين فالإسناد حسن عندي وقد قال الحافظ في (الفتح):
(رواه أحمد والنسائي ورجالهما ثقات)
وهو عند النسائي من طريق أبو عوانة كما في (البداية) وزادا:
(فكان يدخل المسجد وهو جنب ليس له طريق غيره)
وحكم الذهبي على الحديث بأنه منكر لأن أبا بلج لم يتفرد به بل له شواهد كثيرة:
منها: عن سعد بن أبي وقاص قال:
أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بسد الأبواب الشارعة في المسجد وترك باب علي رضي الله عنه.
أخرجه أحمد من طريق عبد الله بن شريك عن عبد الله بن الرقي الكناني عنه
ورجاله ثقات غير ابن الرقيم هذا لم يرو عنه سوى ابن شريك هذا ولذلك قال الحافظ في (التقريب) والخزرجي في (الخلاصة) إنه مجهول
وأما الهيثمي فزعم أنه حسن حيث قال:
(رواه أحمد وأبو يعلى والبزار والطبراني في (الأوسط) وزادا:
قالوا: يا رسول الله سددت أبوابنا كلها إلا باب علي؟ قال: ما أنا سددت أبوابكم ولكن الله سدها. وإسناد أحمد حسن)
وتبعه الحافظ في (الفتح) فقال:
(وإسناده قوي ورواية الطبراني في (الأوسط) رجالها ثقات)
قلت: فتناقض الحافظ فإن قوله: (إسناده قوي) يناقض قوله في بعض رواته: إنه مجهول كما سبق. وأما طريق الطبراني ومن ذكر معه فيظهر أنها طريق أخرى عن سعد فقد ساقه الحافظ ابن كثير من طريق أبي يعلى بسند آخر فيه من لم أعرفه وغالب الظن أنه وقع في أسماء رجاله تحريف مطبعي. والله أعلم
ومنها: عن زيد بن أرقم قال:
كان لنفر من أصحاب رسول الله أبواب شارعة في المسجد فقال يوما: (سدوا هذه الأبواب إلا باب علي) قال: فتكلم في ذلك الناس قال: فقام
رسول الله صلى الله عليه وسلم فحمد الله تعالى وأثنى عليه. ثم قال:
(أما بعد فإني أمرت بسد هذه الأبواب إلا باب علي وقال فيه قائلكم وإني - والله - ما سددت شيئا ولا فتحته ولكني أمرت بشيء فاتبعته)
أخرجه أحمد: ثنا محمد بن جعفر: ثنا عوف عن ميمون أبي عبد الله عنه
ورجاله ثقات رجال الشيخين غير ميمون هذا وهو البصري مولى ابن سمرة وهو ضعيف كما في (التقريب) وفي (المجمع):
(وثقه ابن حبان وضعفه جماعة وبقية رجاله رجال الصحيح)
وساق له الذهبي هذا الحديث وقال:
(قال العقيلي عقبه: وقد روي من طريق أصلح من هذا وفيها لين أيضا)
وأما الحافظ في (الفتح) فقال:
(أخرجه أحمد والنسائي والحاكم ورجاله ثقات)
كذا قال وقد تناقض أيضا وهو في (مستدرك الحاكم) من طريق أحمد وقال:
(صحيح الإسناد) ووافقه الذهبي
ومنها: عن ابن عمر قال:
ولقد أوتي ابن أبي طالب ثلاث خصال لأن تكون لي واحدة منهن أحب إلي من حمر النعم: زوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم ابنته وولدت له وسد الأبواب إلا بابه في المسجد وأعطاه الراية يوم خيبر)
أخرجه أحمد عن هشام بن سعد عن عمر بن أسيد عنه
وهذا إسناد حسن كما قال الحافظ
قلت: ورجاله ثقات رجال الشيخين غير هشام بن سعد فمن رجال مسلم وحده وهو صدوق له أوهام كما قال في (التقريب)
وعمر بن أسيد هو عمرو بن أبي سفيان بن أسيد كما في كتب الرجال
وفي الباب عن علي نفسه وجابر بن سمرة وابن عباس أيضا لكن أسانيدها لا تستحق الذكر فاقتصرنا على ما سبق
ولحديث ابن عمر طريق أخرى رواه الطبراني في (الأوسط) وكذا النسائي كما في (التفح) من طريق العلاء بن عرار بمهملات قال: فقلت لا بن عمر: أخبرني عن علي وعثمان. . . فذكر الحديث وفيه:
(ورجاله رجال الصحيح إلا العلاء وقد وثقه يحيى بن معين وغيره. وهذه الأحاديث يقوي بعضها بعضا وكل طريق منها صالح للاحتجاج فضلا عن مجموعها
No comments:
Post a Comment