کوئی بھی علم میں مولا علی سے بڑھ کہ نہیں تھا، جنگوں میں جبرئیل میکائیل ان کے دائیں بائیں جانب ہوتے تھے: امام حسن
السلام علیکم
امام حسن سے منقول یہ روایات اہلسنت کی معتبر کتب سے مستند اسناد کے ساتھ پیش خدمت ہیں
احمد بن حنبل اپنی مسند میں درج کرتے ہیں
1719 – حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هُبَيْرَةَ، خَطَبَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: ” لَقَدْ فَارَقَكُمْ رَجُلٌ بِالْأَمْسِ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأَوَّلُونَ بِعِلْمٍ، وَلا يُدْرِكُهُ الْآخِرُونَ، كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَبْعَثُهُ بِالرَّايَةِ جِبْرِيلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَمِيكَائِيلُ عَنْ شِمَالِهِ لَا يَنْصَرِفُ حَتَّى يُفْتَحَ لَهُ ”
ہبیرہ کہتے ہیں کہ امام حسن نے خطبہ دیا، اور کہا کہ کل تم سے وہ شخص جدا ہو گیا کہ جن سے علم میں نہ کوئی ماضی میں آگے بڑھا اور نہ مستقبل میں کوئی آگے بڑھ پائے گا۔ نبی پاک ان کو علم دے کر روایت کرتے اور جبرائیل ان کے دائیں اور میکائیل ان کے بائیں جانب ہوتے- وہ تب تک واپس نہ آتے جب تک انہیں کامیابی نہ مل جاتی
مسند احمد کے محقق، شیخ احمد شاکر نے سند کو صحیح قرار دیا۔ ملاحظہ ان کی تحقیق، مسند احمد، جلد ۲، صفحہ ۳۴۴
دوسرے محقق، شیخ شعیب الارناوط نے حدیث کو حسن قرار دیا۔ اگرچہ اس سند میں انہوں نے راوی شریک کو ضعف کی وجہ قرار دیا
احمد بن حنبل نے ایک اور روایت بھی درج کی۔
1720 – حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُبْشِيٍّ، قَالَ: خَطَبَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ بَعْدَ قَتْلِ عَلِيٍّ، رَضْيِ اللهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ: ” لَقَدْ فَارَقَكُمْ رَجُلٌ بِالْأَمْسِ مَا سَبَقَهُ الْأَوَّلُونَ بِعِلْمٍ، وَلا أَدْرَكَهُ الْآخِرُونَ، إِنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيَبْعَثُهُ وَيُعْطِيهِ الرَّايَةَ، فَلا يَنْصَرِفُ حَتَّى يُفْتَحَ لَهُ، وَمَا تَرَكَ مِنْ صَفْرَاءَ وَلا بَيْضَاءَ، إِلا سَبْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ مِنْ عَطَائِهِ كَانَ يَرْصُدُهَا لِخَادِمٍ لِأَهْلِهِ ”
عمرو بن حبشی کہتے ہیں کہ امام حسن نے مولا علی کی شہادت کے بعد ایک کظبہ دیا اور کہا کہ کل تم سے وہ شخص جدا ہوا کہ علم میں جن سے نہ ماضی میں کوئی آگے بڑھا نہ مستقبل میں کوئی بڑھے گا۔ نبی پاک ان کو علم عطا کرتے تو وہ تب تک واپس نہ آتے جب تک فتح حاصل نہ کر لیتے۔ انہوں نے کوئی سونا چاندی نہ چھوڑا، صرف ۷۰۰ درہم چھوڑے جن سے وہ خادم حاصل کرنا چاہتے تھے
شیخ احمد شاکر نے اس سند کو بھی صحیح قرار دیا۔
یہ روایت احمد بن حنبل کی کتاب، فضائل الصحابہ، میں بھی درج ہے۔ حدیث کا نمبر ہے ۹۲۲- اور کتاب کے محقق، وصی اللہ بن محمد عباس نے اسے صحیح سند قرار دی ہے
اس روایت کے شروع والے حصے سے ملتی جلتی ایک روایت اور بھی ہے، جو کہ فضائل الصحابہ، حدیث ۱۰۲٦؛ پر ہے۔ اور وصی اللہ نے اسے دوسرے شواہد کی روشنی میں حسن قرار دیا
ابن حبان نے اس روایت کی ایک اور صورت اپنی صحیح ابن حبان، جلد ۱۵، صفحہ ۳۸۳، پر درج کی ہے
أخبرنا الحسن بن سفيان ، حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير ، عن إسماعيل بن أبي خالد ، عن أبي إسحاق ، عن هبيرة بن يريم ، قال : سمعت الحسن بن علي قام ، فخطب الناس ، فقال : يا أيها الناس ، ” لقد فارقكم أمس رجل ما سبقه الأولون ولا يدركه الآخرون ، لقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يبعثه المبعث ، فيعطيه الراية ، فما يرجع حتى يفتح الله عليه ، جبريل عن يمينه ، وميكائيل عن شماله ، ما ترك بيضاء ولا صفراء إلا سبع مائة درهم فضلت من عطائه ، أراد أن يشتري بها خادما ” .
ہبیرہ بن یریم نے کہا کہ میں نے امام حسن کو سنا کو وہ لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے ، اور کہہ رہے تھے کہ کہ کل تم سے وہ شخص جدا ہو گیا کہ جن سے نہ ماضی میں کوئی آگے بڑھا نہ کوئی آنے والے وقتوں میں پا سکے گا- بنی پاک ان کو علم دے کر بھیجتے تھے، اور وہ تب تک واپس نہ آتے تھے جب تک فتح نہ حاصل کر لیتے۔ انہوں نے سونا چاندی نہ چھوڑا بس ۷۰۰ درہم چھوڑے جن سے وہ خادم حاصل کرنا چاہتے تھے
محقق، شیخ شعیب الاناروط نے سند پر یوں حکم لگایا
راوی سارے ثقہ ہیں، اور بخاری و مسلم کے ہیں سوائے ہبیرہ کے۔۔۔۔ابن حبان نے ان کو ثقہ کہا اور احمد نے کہا کہ ان میں کوئی حرج نہیں
گویا، انہوں نے صرف راویان پر بات کی۔ سند پر کوئی حکم نہیں لگایا- اور بنیادی وجہ ہبیرہ ہیں۔ وگرنہ باقی حضرات پر تو کوئی مسئلہ نہیں۔
تاہم، اسی طرح کی ایک اور سند مسند احمد، روایت ۷٦۲، میں آتی ہے۔ جس میں سارے راوی شیخین کے ہیں، اور ہبیرہ بھی ہیں۔ اس پر انہوں نے یوں حکم لگایا
(1) إسناده حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير هبيرة- وهو ابن يَريم- فقد روى له أصحاب السنن، وهو حسن الحديث.
سند حسن ہے۔ راوی سارے ثقہ ہیں، اور شیخین کے ہیں سوائے ہبیرہ کے، اور ان سے صاحبان سنن نے روایتیں لی ہیں۔ اور وہ حسن الحديث ہیں
گویا یہ سند بھی ان کی نظر میں حسن ہوئی
عبدالقادر بن عبدالکریم نے ابن حجر کی کتاب، المطالب العالیہ، جلد ۱۸، صفحہ ۲۴۲؛ پر اس سند کو حسن قرار دیا
نیز، شیخ البانی نے اس حدیث کو اپنی سلسلہ احادیث الصحیحییہ، جلد ۵، صفحہ ٦٦۰؛ پر درج کیا۔
انہوں نے یوں باب باندھا
[ كان يبعثه البعث فيعطيه الراية فما يرجع حتى يفتح الله عليه جبريل عن يمينه وميكائيل عن يساره . يعني عليا رضي الله عنه ]
نبی پاک ان کو علم دے کر بھیجتے، وہ واپس نہ آتے جب تک فتح نہ حاصل کر لیتے۔ جبرئیل ان کے دائیں، اور میکائیل بائیں جانب ہوتے۔ یعنی علی علیہ السلام کے
امام حسن سے منقول یہ روایات اہلسنت کی معتبر کتب سے مستند اسناد کے ساتھ پیش خدمت ہیں
احمد بن حنبل اپنی مسند میں درج کرتے ہیں
1719 – حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هُبَيْرَةَ، خَطَبَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: ” لَقَدْ فَارَقَكُمْ رَجُلٌ بِالْأَمْسِ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأَوَّلُونَ بِعِلْمٍ، وَلا يُدْرِكُهُ الْآخِرُونَ، كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَبْعَثُهُ بِالرَّايَةِ جِبْرِيلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَمِيكَائِيلُ عَنْ شِمَالِهِ لَا يَنْصَرِفُ حَتَّى يُفْتَحَ لَهُ ”
ہبیرہ کہتے ہیں کہ امام حسن نے خطبہ دیا، اور کہا کہ کل تم سے وہ شخص جدا ہو گیا کہ جن سے علم میں نہ کوئی ماضی میں آگے بڑھا اور نہ مستقبل میں کوئی آگے بڑھ پائے گا۔ نبی پاک ان کو علم دے کر روایت کرتے اور جبرائیل ان کے دائیں اور میکائیل ان کے بائیں جانب ہوتے- وہ تب تک واپس نہ آتے جب تک انہیں کامیابی نہ مل جاتی
مسند احمد کے محقق، شیخ احمد شاکر نے سند کو صحیح قرار دیا۔ ملاحظہ ان کی تحقیق، مسند احمد، جلد ۲، صفحہ ۳۴۴
دوسرے محقق، شیخ شعیب الارناوط نے حدیث کو حسن قرار دیا۔ اگرچہ اس سند میں انہوں نے راوی شریک کو ضعف کی وجہ قرار دیا
احمد بن حنبل نے ایک اور روایت بھی درج کی۔
1720 – حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُبْشِيٍّ، قَالَ: خَطَبَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ بَعْدَ قَتْلِ عَلِيٍّ، رَضْيِ اللهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ: ” لَقَدْ فَارَقَكُمْ رَجُلٌ بِالْأَمْسِ مَا سَبَقَهُ الْأَوَّلُونَ بِعِلْمٍ، وَلا أَدْرَكَهُ الْآخِرُونَ، إِنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيَبْعَثُهُ وَيُعْطِيهِ الرَّايَةَ، فَلا يَنْصَرِفُ حَتَّى يُفْتَحَ لَهُ، وَمَا تَرَكَ مِنْ صَفْرَاءَ وَلا بَيْضَاءَ، إِلا سَبْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ مِنْ عَطَائِهِ كَانَ يَرْصُدُهَا لِخَادِمٍ لِأَهْلِهِ ”
عمرو بن حبشی کہتے ہیں کہ امام حسن نے مولا علی کی شہادت کے بعد ایک کظبہ دیا اور کہا کہ کل تم سے وہ شخص جدا ہوا کہ علم میں جن سے نہ ماضی میں کوئی آگے بڑھا نہ مستقبل میں کوئی بڑھے گا۔ نبی پاک ان کو علم عطا کرتے تو وہ تب تک واپس نہ آتے جب تک فتح حاصل نہ کر لیتے۔ انہوں نے کوئی سونا چاندی نہ چھوڑا، صرف ۷۰۰ درہم چھوڑے جن سے وہ خادم حاصل کرنا چاہتے تھے
شیخ احمد شاکر نے اس سند کو بھی صحیح قرار دیا۔
یہ روایت احمد بن حنبل کی کتاب، فضائل الصحابہ، میں بھی درج ہے۔ حدیث کا نمبر ہے ۹۲۲- اور کتاب کے محقق، وصی اللہ بن محمد عباس نے اسے صحیح سند قرار دی ہے
اس روایت کے شروع والے حصے سے ملتی جلتی ایک روایت اور بھی ہے، جو کہ فضائل الصحابہ، حدیث ۱۰۲٦؛ پر ہے۔ اور وصی اللہ نے اسے دوسرے شواہد کی روشنی میں حسن قرار دیا
ابن حبان نے اس روایت کی ایک اور صورت اپنی صحیح ابن حبان، جلد ۱۵، صفحہ ۳۸۳، پر درج کی ہے
أخبرنا الحسن بن سفيان ، حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير ، عن إسماعيل بن أبي خالد ، عن أبي إسحاق ، عن هبيرة بن يريم ، قال : سمعت الحسن بن علي قام ، فخطب الناس ، فقال : يا أيها الناس ، ” لقد فارقكم أمس رجل ما سبقه الأولون ولا يدركه الآخرون ، لقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يبعثه المبعث ، فيعطيه الراية ، فما يرجع حتى يفتح الله عليه ، جبريل عن يمينه ، وميكائيل عن شماله ، ما ترك بيضاء ولا صفراء إلا سبع مائة درهم فضلت من عطائه ، أراد أن يشتري بها خادما ” .
ہبیرہ بن یریم نے کہا کہ میں نے امام حسن کو سنا کو وہ لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے ، اور کہہ رہے تھے کہ کہ کل تم سے وہ شخص جدا ہو گیا کہ جن سے نہ ماضی میں کوئی آگے بڑھا نہ کوئی آنے والے وقتوں میں پا سکے گا- بنی پاک ان کو علم دے کر بھیجتے تھے، اور وہ تب تک واپس نہ آتے تھے جب تک فتح نہ حاصل کر لیتے۔ انہوں نے سونا چاندی نہ چھوڑا بس ۷۰۰ درہم چھوڑے جن سے وہ خادم حاصل کرنا چاہتے تھے
محقق، شیخ شعیب الاناروط نے سند پر یوں حکم لگایا
راوی سارے ثقہ ہیں، اور بخاری و مسلم کے ہیں سوائے ہبیرہ کے۔۔۔۔ابن حبان نے ان کو ثقہ کہا اور احمد نے کہا کہ ان میں کوئی حرج نہیں
گویا، انہوں نے صرف راویان پر بات کی۔ سند پر کوئی حکم نہیں لگایا- اور بنیادی وجہ ہبیرہ ہیں۔ وگرنہ باقی حضرات پر تو کوئی مسئلہ نہیں۔
تاہم، اسی طرح کی ایک اور سند مسند احمد، روایت ۷٦۲، میں آتی ہے۔ جس میں سارے راوی شیخین کے ہیں، اور ہبیرہ بھی ہیں۔ اس پر انہوں نے یوں حکم لگایا
(1) إسناده حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير هبيرة- وهو ابن يَريم- فقد روى له أصحاب السنن، وهو حسن الحديث.
سند حسن ہے۔ راوی سارے ثقہ ہیں، اور شیخین کے ہیں سوائے ہبیرہ کے، اور ان سے صاحبان سنن نے روایتیں لی ہیں۔ اور وہ حسن الحديث ہیں
گویا یہ سند بھی ان کی نظر میں حسن ہوئی
عبدالقادر بن عبدالکریم نے ابن حجر کی کتاب، المطالب العالیہ، جلد ۱۸، صفحہ ۲۴۲؛ پر اس سند کو حسن قرار دیا
نیز، شیخ البانی نے اس حدیث کو اپنی سلسلہ احادیث الصحیحییہ، جلد ۵، صفحہ ٦٦۰؛ پر درج کیا۔
انہوں نے یوں باب باندھا
[ كان يبعثه البعث فيعطيه الراية فما يرجع حتى يفتح الله عليه جبريل عن يمينه وميكائيل عن يساره . يعني عليا رضي الله عنه ]
نبی پاک ان کو علم دے کر بھیجتے، وہ واپس نہ آتے جب تک فتح نہ حاصل کر لیتے۔ جبرئیل ان کے دائیں، اور میکائیل بائیں جانب ہوتے۔ یعنی علی علیہ السلام کے
No comments:
Post a Comment