Tuesday, January 27, 2015

حدیثِ غدیر میں لفظ مولا سے امیر المومنین کی ولایت پر استدلال


السلام علیکم 


حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا أبو عامر حدثنا فليح عن هلال بن علي عن عبد الرحمن بن أبي عمرة عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ما من مؤمن إلا وأنا أولى به في الدنيا والآخرة اقرءوا إن شئتم النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم فأيما مؤمن مات وترك مالا فليرثه عصبته من كانوا ومن ترك دينا أو ضياعا فليأتني فأنا مولاه


 نبیﷺ نے فرمایا کوئی مومن نہیں مگر یہ کہ میں دنیا اور آخرت دونوں کے کاموں میں سب لوگوں سے زیادہ اس کا حقدار ہوں تم اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو النَّبِیُّ اَولٰی بِالمُؤمِنِینَ مِن اَنفُسِھِم پھر جو مومن مرتے وقت مال اور دولت چھوڑ جائے وہ اس کے عزیزوں کو ملے گا جو اس کے وارث ہوں۔ اگر قرضداری اور بال بچے چھوڑ جائے (جو نادار ہوں) تو اس کے قرض خواہ اور بال بچے میرے پاس آئیں میں اس کا مولا ہوں

اس حدیث میں کچھ باتیں اہم ہیں

ایک تو نبی اکرم کا کہنا کہ میں سب سے اولی ہوں
پھر کہنا کہ میں مولا ہوں۔

اس حدیث پر کوئی بھِی ذی شعور غور کرے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں مولا کے معنی دوست ہیں

اور یہی بات اہلسنت کے جید علما نے اس حدیث کی شرح میں کی

قسطلانی نے بخاری کی شرح، ارشاد الساری، ج ۴، ص ۲۲۲ پر یوں درج کیا 

ما من مؤمن إلا وأنا) بالواو ولأبى الوقت إلا أنا (أولى) أحق الناس (به في) كل شيء من أمور (الدنيا والآخرة

نہیں ہے مومن مگر یہ کہ میں اولی ہوں، لوگوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں دنیا اور آخرت کے تمام امور میں

مزید درج کرتے ہیں 

فأنا مولاه) أي وليّه أتولى أموره

میں مولا ہوں، یعنی اس کا ولی ہوں، اس کے امور کا متولی 

بخاری کے دوسرے شارح، بدر الدین عینی، عمدۃ القاری، ج ۱۹، ص ۱۱۲ پر لکھتے ہیں 

 معناه قوله ما من مؤمن إلا وأنا أولى به في الدنيا والآخرة يعني أحق وأولى بالمؤمنين في كل شيء من أمور الدنيا والآخرة من أنفسهم

اور اس قول کے معنی کہ نہیں ہے کوئی مومن مگر یہ کہ میں اولی ہوں دنیا اور آخرت میں، یعنی زیادہ حق رکھتا ہوں اور اولی ہوں مومنین سے ہر شے مِں جو امورِ دنیا اور آخرت میں ہو، ان کے نفس سے زیادہ (خود ان سے زیادہ)

مزید لکھتے ہیں 

فأنا مولاه أي وليه

میں مولا ہوں، یعنی اس کا ولی ہوں

اسی لیے آنحضرت نے ایک اور مقام پر اس بات کو کچھ یوں نقل کیا ہے جیسا کہ احمد بن حنبل اپنی مسند، ج ۲، ص ۳۱۸ پر درج کرتے ہیں 

8219 - وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أنا أولى الناس بالمؤمنين في كتاب الله فأيكم ما ترك دينا أو ضيعة فادعوني فأنا وليه وأيكم ما ترك مالا فليرث ماله عصبته من كان 
تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط الشيخين

میں اللہ کی کتاب میں اولی ہوں تمام لوگوں سے مومنین کے بارے میں، پس جو تم میں کوئی مال یا بچے چھوڑ جائے، میں اس کا ولی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔

شیخ شعیب الارناوط نے سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے 

دیگر علماء نے بھِی اسی انداز میں مولا کو یہاں پر ولی کے معنی میں لیا ہے

مثال کے طور پر بغوی، نووی، صالح شامی، حمیدی وغیرہ

اس کی طرف برادر التلمیذ نے اپنے اس مقالے میں اشارہ کیا ہے 

اب اگر یہ نقطہ آپ کے سمجھ میں آ گیا ہے، تو میں ایک روایت ہدیہ کرتا ہوں

نتیجہ اخذ کرنا اپ کی اپنی ایمانداری پر ہے 

احمد بن حنبل اپنی مسند میں درج کرتے ہیں کہ  

ابو طفیل نے کہا کہ مولا علی نے لوگوں کو رحبہ میں جمع کیا۔ اور ان سے کہاکہ تمہیں اللہ کو واسطہ! تم میں جس نے نبی اکرم کو غدیرِ خم میں نبی کو سنا ہے، وہ اسے بیان کریں۔ پس ۳۰ بندے کھڑے ہوئے اور گواہی دی کہ نبی اکرم نے آپ کا ہاتھ پکڑا، اور کہا کہ کیا تم جانتے ہو کہ  میں اولی ہوں مومنین سے ان کی نفس سے بھی زیادہ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں یا رسول اللہ! پھر آپ نے کہا: جس کا میں مولا ہوں، علی اس کا مولا ہے۔ اے اللہ! اس سے محبت کر جو اس سے محبت کرے اور اس سے عداوت کر جو اس سے عداوت کرے- ابو طفیل کہتے ہیں کہ میں وہان سے نکلا اور میرے دل میں اس کے لیے شک تھا۔ میں زید بن ارقم سے ملا اور انہیں بتایا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس کا انکار نہ کر، میں نے یہ نبی اکرم سے سنا ہے 

عربی متن یوں ہوں

19321 - حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسين بن محمد وأبو نعيم المعنى قالا ثنا فطر عن أبي الطفيل قال : جمع علي رضي الله تعالى عنه الناس في الرحبة ثم قال لهم أنشد الله كل امرئ مسلم سمع رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول يوم غدير خم ما سمع لما قام فقام ثلاثون من الناس وقال أبو نعيم فقام ناس كثير فشهدوا حين أخذه بيده فقال للناس أتعلمون انى أولى بالمؤمنين من أنفسهم قالوا نعم يا رسول الله قال من كنت مولاه فهذا مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه قال فخرجت وكأن في نفسي شيئا فلقيت زيد بن أرقم فقلت له انى سمعت عليا رضي الله تعالى عنه يقول كذا وكذا قال فما تنكر قد سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول ذلك له 
تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح رجاله ثقات رجال الشيخين غير فطر بن خليفة فمن رجال أصحاب السنن وروى له البخاري مقرونا

شیخ شعیب ا نے سند کو صحیح کہا ہے۔ راوی سارے ثقہ ہیں اور بخاری و مسلم کے ہیں، سوائے فطر بن خلیفہ کے۔ باقی سنن والوں نے اس سے روایت لی ہے اور بخاری نے بھی مقرونا لی ہے 

یہی روایت احمد بن حنبل کی فضائل الصحابہ، ج ۲، ص ۸۴۹، حدیث ۱۱٦۷ پر بھی ہے۔ کتاب کے محقق شیخ وصی اللہ بن محمد عباد نے سند کو صحیح کہا ہے 

ہیثمی نے اس کو اپنی مجع الزوائد، ج ۹، ص ۱۰۴ پر درج کیا ہے، اور فرماتے ہیں 

رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح غير فطر بن خليفة وهو ثقة.

احمد نے اس کی روایت کی، اور اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں سوائے فطر بن خلیفہ کے، اور وہ بھی ثقہ ہیں


نبی اکرم نے سب کو یاد دلایا کہ میں مومنین سے اولی ہوں 

اور جب سب نے کہا کہ بالکل

تو آپ نے کہا کہ جیسے میں مولا ہوں، ویسے علی مولا ہیں

نتیجہ خود اخذ کریں 



No comments:

Post a Comment