Wednesday, January 14, 2015

تاثیر الکوںی اور کراماتِ اولیا



السلام علیکم 

اکثر اوقات ناصبیوں کی جانب سے ولایتِ تکوینیہ کو لے کر اہل تشیع پر طعن کیا جاتا ہے۔ چلیے ناصبیوں کے پسندیدہ عالم، ابن تیمیہ کی رائے جانتے ہیں۔ موصوف اپنے مجموع الفتاوی، ج ۱۱، ص ۳۲۴-۳۲۵، پر رقمطراز ہیں

و اما الثالث فمن يجتمع له الأمران بأن يؤتى من الكشف
والتأثيرالكونى ما يؤيد به الكشف والتأثير الشرعى وهو علم الدين والعمل به والأمر به ويؤتى من علم الدين والعمل به ما يستعمل به الكشف والتأثير الكونى بحيث تقع الخوارق الكونية تابعة للاوامر الدينية أو ان تخرق له العادة فى الأمور الدينية بحيث ينال من العلوم الدينية ومن العمل بها ومن الأمر بها ومن طاعة الخلق فيها وما لم ينله غيره فى مطرد العادة فهذه أعظم الكرامات والمعجزات وهو حال نبينا محمد وأبى
بكر الصديق وعمر و كل المسلمين 


 تیسری قسم : جس شخص میں  ھر دو قسم ( قوت کون و قوت شرع ) جمع ہو کہ اسے ایسی کشف اور  قوت تاثیرِ کونی  دی  گئ ہو جس کی تائید ،کشف اور  تاثیر  شرعی کرتی ہو۔ 
یہ وہ شخص ہے  جس نے دین کو اور اس پر عمل اور  حکم کرنے کو جانا ۔ اس کے علم اور عمل کی وجہ سے اسے ایسی چیز دی گئ جو کشف اور  تاثیر کونی میں استعمال ہوتی ہے اس جہت سے کہ  اشیا تکوینیہ حکم دینی کے تابع ہوتی ہیں  یا اس کے لئے  خارق العادہ صفت امور دینی میں حاصل ہوجائے اس اعتبار سے کہ وہ اپنے دین کے علم، اس پر عمل کرکے ، دوسروں کو حکم دے مطیع (خدا) بنانے سے ایسا مقام حاصل کر لے  جو دوسرے  حاصل نہیں کرسکتے ہیں پس یہی  کرامات اور معجزات، عظیم ہیں- یہی حال نبی اکرم ، ابوبکر ، عمر  اور ھر مسلمان کا ہے


لفظ التاثیر الکونی کی وضاحت کرتا چلوں

تاثیر کا مطلب ہے اثر انداز ہونا
کون کا مطلب ہے دنیا

ابن تیمیہ کے اس قول کی وضاحت کے لیے ہم انہی کے ایک اور قول سے بھی استفادہ کرتے ہیں

موصوف اپنی کتاب، النبوات، ج ۲، ص ۸۰۷-۸۰۸؛ پر فرماتے ہیں

وقد يكون إحياء الموتى على يد اتباع الأنبياء؛ كما قد وقع لطائفة من
هذه الأمة1، ومن اتباع عيسى2؛ فإن هؤلاء يقولون: نحن إنّما أحيى الله الموتى على أيدينا؛ [لاتّباع محمد، أو المسيح، فبإيماننا بهم، وتصديقنا لهم أحيى الله الموتى على أيدينا] 3

اور یقنی طور جو لوگ انبیاء کا اتباع کرتے ہیں، ان کے ہاتھ  پر مردے زندہ ہو سکتے ہیں۔ جیسے کہ اس امت کے ایک گروہ کے لیے یہ ہوا ہے، اور اسی طرح عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں کے ہاتھ پر بھی ہوا تھا- اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جو یہ کہتے ہیں: ہم وہ ہیں کہ جن کے ہاتھ پر اللہ مرے ہوئے لوگوں کو زندہ کرتا ہے کیوںکہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یا مسیح کا اتباع کرتے ہیں اور ان پر ایمان رکھتے ہیں، ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ پس اللہ ان کے ہاتھ پر مرے ہوئے لوگوں کو زندہ کرتا ہے

اس قول کے حاشیے پر کتاب کے محقق، عبدالعزیز بن صالح فرماتے ہیں

1 ذكر العلامة ابن كثير رحمه الله تعالى كثيراً من القصص عن إحياء الموتى في أمة محمد صلى الله عليه وسلم.
انظر: البداية والنهاية 6161-166. وانظر ما تقدم في هذا الكتاب ص 162، 593، 594.

ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ و النھایہ میں ایسے کثیر واقعات کا ذکر کیا ہے کہ جس میں مردے زندہ ہوئے نبی اکرم کی امت میں۔ 

ایک مثال ہم دیتے چلیں اسی البدایہ سے۔ البدایہ، ج ٦، ص ۱٦۹-۱۷۰؛ پر یہ واقعہ لکھا ہے

قال الحسن بن عروة: ثنا عبد الله بن إدريس، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن أبي سبرةالنخعي، قال: أقبل رجل من اليمن فلما كان ببعض الطريق، نفق حماره فقام فتوضأ ثم صلى ركعتين ثم قال: اللهم إني جئت من الدفينة مجاهدا في سبيلك وابتغاء مرضاتك، وأنا أشهد أنك تحيي الموتى وتبعث من في القبور، لا تجعل لاحد علي اليوم منة، أطلب إليك اليوم أن تبعث حماري، فقام الحمار ينفض أذنيه، قال البيهقي: هذا إسناد صحيح.

ابو سبرہ کہتے ہیں کہ یمن سے ایک شخص آیا، اور اس کا گدھا راستے میں مر گیا۔ پس وہ کھڑا ہوا، وضو کی، ۲ رکعت نماز ادا کی، اور پھر کہا: اے اللہ! میں تیری راہ میں مجاہد بن کر آیا تاکہ تیری رضا حاصل کر سکوں۔ بے شک تو ہی مردوں کو زندہ کرتا ہے، اور قبروں سے اٹھاتا ہے- مجھے دوسروں کا محتاج نہ کر، اور اس کو زندہ کر دے۔ پس وہ گدھا کان ہلاتا کھڑا ہو گیا۔ بیہقی کہتے ہیں کہ یہ سند صحیح ہے

اسی کتاب، النبوات، ج ۲، ص ۸۲۱، پر ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں

بخلاف إحياء الموتى: فإنّه اشترك فيه [كثيرٌ] 4 من الأنبياء، بل ومن الصالحين5.

جہاں تک مردوں کا زندہ کرنے کی بات ہے، اس میں کئی انبیاء شریک ہیں، بلکہ کئی سارے نیک لوگ بھی شریک ہیں

کتاب کے محقق، اس کے حاشیے پر درج کرتے ہیں

5 انظر بعض القصص في إحياء الله الموتى على يد بعض الصالحين، في البداية والنهاية 6161-166، 295-297. وقال شيخ الإسلام رحمه الله في الجواب الصحيح 417: “فإنّ أعظم آيات المسيح عليه السلام: إحياء الموتى، وهذه الآية قد شاركه فيها غيره من الأنبياء؛ كإلياس، وغيره”…..

کچھ نیک لوگوں کے ہاتھ پر اللہ کا مردوں کو زندہ کرنے کے واقعات کے لیے البدایہ دیکھئے۔ اور ابن تیمیہ نے اپنے ایک صحیح جواب میں کہا: مسیح کے بڑے معجزات میں ایک مردوں کو زندہ کرنا ہے۔ اور اس میں کئی غیر انبیاء بھی شریک ہیں جیسے کہ الیاس وغیرہ

ابن تیمیہ اپنی مجموع الفتاوی، ج ۳، ص ۱۵٦، پر مزید تحریر کرتے ہیں

وَمِنْ أُصُولِ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ: التَّصْدِيقُ بِكَرَامَاتِ الْأَوْلِيَاءِ وَمَا يُجْرِي اللَّهُ عَلَى أَيْدِيهِمْ مِنْ خَوَارِقِ الْعَادَاتِ فِي أَنْوَاعِ الْعُلُومِ وَالْمُكَاشَفَاتِ وَأَنْوَاعِ الْقُدْرَةِ وَالتَّأْثِيرَاتِ كَالْمَأْثُورِ عَنْ سَالِفِ الْأُمَمِ فِي سُورَةِ الْكَهْفِ وَغَيْرِهَا وَعَنْ صَدْرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ مِنْ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ وَسَائِرِ قُرُونِ الْأُمَّةِ وَهِيَ مَوْجُودَةٌ فِيهَا إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.

اہلسنت کے بنیادی اصول میں یہ کہ وہ تصدیق کرتے ہیں اولیاء کے کرامات کا جو اللہ ان کے ہاتھ پر جاری کرتا ہے جو کہ عام مشاہدے کے برخلاف ہوتے ہیں، اور یہ مختلف علوم، مکاشفہ اور مختلف طاقتوں اور تاثیرات (یعنی اثرانداز ہونا) میں ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پچھلی امتوں میں ہوا، اور سورہ کہف وغیرہ میں اس کا ذکر ہے۔ یا پھر اس امت کے ابتدائی ایام میں صحابہ، تابعین اور بعد میں آنے والوں  کے لیے ہوا- اور یہ قیامت تک ادھر رہے گا

ایک مثال دیتے چلیں۔ ابن کثیر البدایہ، ج ٦، ص ۲۹۲؛ پر درج کرتے ہیں

 وروى البيهقي من طريق أبي النضر، عن سليمان بن المغيرة: أن أبا مسلم الخولاني جاء إلى دجلة وهي ترمي الخشب من مدها فمشى على الماء والتفت إلى أصحابه، وقال: هل تفقدون من متاعكم شيئا فندعو الله تعالى؟ ثم قال: هذا إسناد صحيح 

بیہقی نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا کہ ابو مسلم خولانی دریائے دجلہ کے کنارے پہنچا، تو وہ لکڑیاں باہر پھنیک رہا تھا (یعنی طغیانی میں تھا)۔ وہ اس پر چلنے لگے اور اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے کہ اگر کوئی چیز نہ مل رہی ہو تو بتاو تا کہ اللہہ سے دعا کروں ۔ بیقہی نے کہا کہ یہ سند صحیح ہے

ابن کثیر اس کے بعد ایک اور سند سے اس واقعے کی تفصیل لکھتے ہیں کہ جب ان کے اصحاب گذر رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ اگر کوئی چیز گم گئی ہو تو بتاو، میں ضمانت لیتا ہوں، اور ایک شخص نے جان بوجھ کر کچھ پھینک دیا، اور پھر ابو مسلم سے کہا تو انہوں نے وہ چیز واپس دلا دی

اس طرح کی کئی واقعات ابن  تیمیہ نے اپنی کتاب، الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیا الشیطان، میں درج کی ہیں۔ 

موصوف ص ۱۵۸ پر باب باندھتے ہیں 

كرامات الصحابة والتابعين

اور اس میں کئی واقعات درج کرتے ہیں

ص ۱٦۲ پر علاء بن الحضرمی کا ایک واقعہ درج کرتے ہیں 

ودعا الله لما اعترضهم البحر ولم يقدروا على المرور بخيولهم، فمروا كلهم على الماء ما ابتلت سروج خيولهم، ودعا الله أن لا يروا جسده إذا مات، فلم يجدوه في اللحد

جب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک سمندر پر پہنچے، اور ان  میں یہ قدرت نہ تھی کہ اسے عبور کرتے، تو انہوں نے اللہ سے دعا کی، اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت پانی پر چلنے لگے 

اور انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ مرنے کے بعد ان کا جسم کوئی نہ دیکھے، پس کسی نے ان کا جسم قبر میں نہ دیکھا

ص ۱٦۳ پر لکھتے ہیں

وتغيب الحسن البصري عن الحجاج، فدخلوا عليه ست مرات فدعا الله عز وجل فلم يروه

حسن بصری حجاج سے چھپ گیا، وہ ٦ بار ان کو پکڑنے آیا، مگر انہوں نے اللہ سے دعا کی، اور وہ دیکھ ہی نہ سکا

اسی صفحے پر انہوں نے وصلہ ابن اشیم کا واقعہ بھی لکھا کہ ان کا گھوڑا جنگ میں مر گیا، اور انہوں نے دعا کی تو وہ زندہ ہو گیا

اسی طرح صفحہ ۱٦۵ پر درج کرتے ہیں

وكان مطرف بن الشخير إذا دخل بيته سبحت معه آنيته، وكان هو وصاحب له يسيران في ظلمة، فأضاء لهما طرف السوط.

مطرف جب اپنے گھر میں آتے، تو ان کے برتن ان کے ساتھ تسبیح کرتے - اور وہ جب وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اندھیرے میں چلتے ، تو ان کے کوڑے یا چابک کا کنارہ روشنی دیتا

ص ۱۵۸ اور ۱۵۹ پر درج کرتے ہیں

وكانت الملائكة تسلم على عمران بن حصين، وكان سلمان وأبو الدرداء يأكلان في صحفة، فسبحت الصحفة أو سبح ما فيها.

عمران بن حصین کو فرشتے سلام کرتے۔ اور سلمان اور ابو دردا جب پیالے میں کھاتے، پیالہ تسبیح پڑھتا یا پھر جو کچھ اس پیالے میں ہوتا، وہ تسبیح پڑھتا

ابن یتمیہ نے صفحہ ۱۵۸ سے لے کر ۱٦٦ تک کئی ایسے واقعات درج کیے۔ اب سب کا ترجمہ کرنا تو ممکن نہیں، کچھ آپ لوگوں نے دیکھ لیے ہیں 

ان کے شاگردِ خاص، ابن قیم اپنی کتاب مدارج السالکین، ج ۲، ص ۴۵۹؛ میں ابن تیمیہ کے بارے میں درج کرتے ہیں

وَأَخْبَرَنِي غَيْرَ مَرَّةٍ بِأُمُورٍ بَاطِنَةٍ تَخْتَصُّ بِي مِمَّا عَزَمْتُ عَلَيْهِ، وَلَمْ يَنْطِقْ بِهِ لِسَانِي.
وَأَخْبَرَنِي بِبَعْضِ حَوَادِثَ كِبَارٍ تَجْرِي فِي الْمُسْتَقْبَلِ. وَلَمْ يُعَيِّنْ أَوْقَاتَهَا. وَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَهَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ بَقِيَّتَهَا.
وَمَا شَاهَدَهُ كِبَارُ أَصْحَابِهِ مِنْ ذَلِكَ أَضْعَافُ أَضْعَافِ مَا شَاهَدَتْهُ. وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

مجهے کئ مرتبہ ابن تیمیہ نے ایسے با طنی امور کی خبر دی جو میرے سا تھ خاص تهیں میں نے صرف اراده کیا تها زبان سے نهیں بولا تها ، اور مجهے بعض ایسے بڑے واقعات کی بهی خبر دی جو مستقبل میں هونے والے تهے ، ان میں سے بعض تو میں نے دیکھ لیئے هیں باقی کا انتظار کر رها هوں ، اور جو کچهہ شیخ الا سلام کے بڑے اصحاب نے مشاهده کیا هے وه اُس سے دوگناهے جو میں نے مشاهده کیا 

اس سے پچھلے صفحے پر تو انہوں نے درج کیا کہ ابن تیمیہ نے پہلے سے یہ بتا دیا تھا کہ تاتاری شام پر حملہ کریں گے، اور قتلِ عام ہو گا۔ اور اس کے بعد انہوں نے یہ بھی  بتایا کہ اب تاتاریوں کو شکست ہو گی
اور اس پر انہوں ںے ۷۰ بار سے زیادہ قسمیں اٹھائیں

جب لوگوں نے بہت پوچھا، تو کیا جواب دیا؟ ملاحظہ ہو

 قَالَ: فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَيَّ. قُلْتُ: لَا تُكْثِرُوا. كَتَبَ اللَّهُ تَعَالَى فِي اللَّوْحِ الْمَحْفُوظِ. أَنَّهُمْ مَهْزُومُونَ فِي هَذِهِ الْكَرَّةِ. وَأَنَّ النَّصْرَ لِجُيُوشِ الْإِسْلَامِ. 

جب انهوں نے بہت زیاده سوال کیے تو کہا کہ بہت سوال  نہ کر، الله تعالی نے  لوح محفوظ  پر لکھ دیا هے کہ تاتاریوں کو اِس مرتبہ شکست هو گی اور فتح مسلمان لشکروں کی هو گی

اسی طرح اپنی کتاب، الروح، ص ۳۴؛ پر ابن قیم کہتے ہیں

وَقد حَدَّثَنى غير وَاحِد مِمَّن كَانَ غير مائل إِلَيّ شيخ الْإِسْلَام ابْن تَيْمِية أَنه رَآهُ بعد مَوته وَسَأَلَهُ عَن شَيْء كَانَ يشكل عَلَيْهِم من مسَائِل الْفَرَائِض وَغَيرهَا فَأَجَابَهُ بِالصَّوَابِ

اور مجھ سے کئی لوگوں نے جو ابن تیمیہ کی طرف مائل بھی نہ تھے، یہ بیان کیا کہ انہوں نے ابن تیمیہ کو مرنے کے بعد دیکھا، اور ان سے فرائض وغیرہ میں ایسے مسائل جو ان کے لیے مشکل تھے ،ان کے بارے میں پوچھا- اور انہوں نے صحیح جواب دیا



مرنے کے بعد سوال جواب ہو رہے ہیں،
جو باتیں خاص ہیں، اور بتائی بھی نہیں گئیں، وہ بتلائی جا رہی ہیں 
مستقبل کی خبریں دی جا رہی ہیں
لوح محفوظ پر کیا لکھا جا رہا ہے، وہ بتایا جا رہا ہے
سمندر اور بھپرے دریاوں پر چلا جا رہا ہے
سمندر اور طغیانی والے دریاوں پر چلا جا رہا ہے
مردوں کو زندہ کیا جا رہا ہے
تاثیر الکوںی اور کراماتِ اولیا کے نام پر یہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ یہ قیات تک ہو گا


مگر جب ایسی کوئی بات شیعہ کتب میں آ جائے، تو پھر شرک و غلو کے نعرے بلند ہونا شروع ہو جاتے ہیں

No comments:

Post a Comment