السلام علیکم
برادر ناصر الحسین کا شمار عرب شیعہ دنیا کے جید محققین میں ہوتا ہے ۔ اپنے ایک مقالے میں برادر نے ایک مستند شیعہ روایت کی طرف نشاندہی کی
روایت بنیادی طور پر سید ابن طاووس کی کتاب الیقین، صفحہ ۲۹۴ پر ہے
سید ابن طاووس اپنی سند بیان کرتے ہیں محمد بن عباس بن مروان کی کتاب، فيما نزل من القرآن في النبي وآله عليهم السلام، تک، اور پھر محمد بن عباس بن مروان اپنی سند سے امام جعفر الصادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ امام عالی مقام
نے فرمایا کہ
ایک شخص امیر المومنین کے پاس آیا، اور اس وقت آپ مسجد الکوفہ میں اپنی تلوار کمر میں باندھے بیٹھے تھے۔ اس نے آ کر کہا کہ اے امیر المومنین! ایک قرآنی آیت نے میرے دین میں فساد ڈال دیا ہے، اور مجھے شک میں مبتلا کر دیا ہے- آپ نے پوچھا کہ کونسی آیت ہے؟
اس نے کہا کہ یہ آیت
(اور آپ ان سب پیغمبروں سے جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے پوچھ لیجیئے کیا ہم نے رحمان کے سوا دوسرے معبود ٹھیرا لئے تھے کہ انکی عبادت کی جائے)
کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں کوئی اور نبی تھے کہ جن سے پوچھا؟
آپ نے فرمایا کہ بیٹھ جا، میں تجھے خبر دیتا ہوں انشاءاللہ۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا
(وہ پاک ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجدحرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں بے)
ان نشانیوں میں جو آپ کو دکھائی گئیں، ایک یہ تھا کہ جبرائیل آپ کو لے کر بیت المعمور لے کر گئے جو کہ مسجد اقصی ہے۔ وہاں جبرائیل آپ کے لیے چشمے کا پانی لائے اور آپ نے وضو کیا- پھر جبرائل نے اذان دی اور آپ سے کہا کہ آپ آگے بڑھ کر نماز پڑھائے اور اونچی قراۃ کیجئے۔ آپ کے پیچھے جید فرشتوں کی صفیں تھیں جن کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور پہلی صف میں آدم، نوح، ابراہم، موسی، عیسی اور وہ سب رسول کہ جن کو آپ سے پہلے مبعوث کیا گیا تھا، وہ کھڑے تھے۔ جب آ نے نماز پڑھا لی، تو آپ سے کہا گیا کہ آپ ان سب پیغمبروں سے جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے پوچھ لیجیئے کیا ہم نے رحمان کے سوا دوسرے معبود ٹھیرا لئے تھے کہ انکی عبادت کی جائے- آپ نے ان کو دیکھا اور پوچھا کہ تم کس بات پر شہادت/گواہی دیتے ہو؟ ان سب نے کہا کہ ہم اس پر شہادت دیتے ہیں کہ الللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ وحدہ لا شریک ہے۔ آپ اللہ کے رسول ہیں اور علی امیرالمومین آپ کے وصی ہیں۔ آپ سید النبیین ہیں، اور علی سید الوصیین ہیں۔ پھر ان سے ہماری میثاق لی گئی شہادت کے ساتھ
اس شخص نے کہ کہ اے امیر المومنین! آپ نے میرے دل کو زندگی و فرحت بخشی اور میرے مسئلے کو حل کیا
عربی متن یوں ہے
عن أبي عبد الله عليه السلام قال :
أتى رجل إلى أمير المؤمنين وهو في مسجد الكوفة وقد احتبى بحمائل سيفه . فقال : يا أمير المؤمنين ، إن في القرآن آية قد أفسدت علي ديني وشككتني في ديني ! قال : وما ذاك ؟ قال : قول الله عز وجل: "واسئل من أرسلنا من قبلك من رسلنا ، أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون" ، فهل في ذلك الزمان نبي غير محمد صلى الله عليه وآله فيسأله عنه ؟ . فقال له أمير المؤمنين عليه السلام : إجلس أخبرك إنشاء الله ، إن الله عز وجل يقول في كتابه : "سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي باركنا حوله لنريه من آياتنا" ، فكان من آيات الله التي أريها محمد صلى الله عليه وآله أنه انتهى جبرئيل إلى البيت المعمور وهو المسجد الأقصى ، فلما دنا منه أتى جبرئيل عينا فتوضأ منها ، ثم قال يا محمد ، توضأ . ثم قام جبرئيل فأذن ثم قال للنبي صلى الله عليه وآله : تقدم فصل واجهر بالقراءة ، فإن خلفك أفقا من الملائكة لا يعلم عدتهم إلا الله جل وعز وفي الصف الأول : آدم ونوح وإبراهيم وهو وموسى وعيسى ، وكل نبي بعث الله تبارك وتعالى منذ خلق الله السماوات والأرض إلى أن بعث محمدا صلى الله عليه وآله . فتقدم رسول الله صلى الله عليه وآله فصلى بهم غير هائب ولا محتشم . فلما انصرف أوحى الله إليه كلمح البصر : سل يا محمد "من أرسلنا من قبلك من رسلنا أجعلنا من دون الرحمان آلهة يعبدون" فالتفت إليهم رسول الله صلى الله عليه وآله بجميعه فقال : بم تشهدون ؟ قالوا : نشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأنت رسول الله وأن عليا أمير المؤمنين وصيك ، وأنت رسول الله سيد النبيين وإن عليا سيد الوصيين ، أخذت على ذلك مواثيقنا لكما بالشهادة فقال الرجل : أحييت قلبي وفرجت عني يا أمير المؤمنين
اس روایت کے سند کو ۲ حصے ہیں
ایک تو ابن طاووس کی سند اس کتاب تک، جو کہ انہوں نے یوں بیان کی
وهذا الكتاب أرويه بعدة طرق ، منها عن الشيخ الفاضل أسعد بن عبد القاهر المعروف جده بسفرويه الأصفهاني ، حدثني بذلك لما ورد إلى بغداد في صفر سنة خمس وثلاثين وستمائة بداري بالجانب الشرقي من بغداد التي أنعم بها علينا الخليفة المستنصر - جزاه الله خير الجزاء - عند المأمونية في الدرب المعروف بدرب الحوبة ، عن الشيخ العالم أبي الفرج علي بن العبد أبي الحسين الراوندي عن أبيه عن الشيخ أبي جعفر محمد بن علي بن المحسن الحلبي عن السعيد أبي جعفر الطوسي رضي الله عنهم .
وأخبرني بذلك الشيخ الصالح حسين بن أحمد السوراوي إجازة في جمادي الآخرة سنة سبع وستمائة عن الشيخ السعيد محمد بن القاسم الطبري عن الشيخ المفيد أبي علي الحسن بن محمد الطوسي عن والده السعيد محمد بن الحسن الطوسي .
وأخبرني بذلك أيضا الشيخ علي بن يحيى الحافظ إجازة ، تاريخها شهر ربيع الأول سنة تسع وستمائة عن الشيخ السعيد عربي بن مسافر العبادي عن الشيخ محمد بن القاسم الطبري عن الشيخ المفيد أبي علي الحسن بن محمد الطوسي . وغير هؤلاء - يطول ذكرهم - عن السعيد الفاضل في علوم كثيرة من علوم الإسلام والده أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي قال :
"أخبرنا بكتب هذا الشيخ العالم أبي عبد الله بن محمد بن العباس بن مروان ورواياته ، جماعة من أصحابنا عن أبي محمد هارون بن موسى التلعكبري عن أبي عبد الله محمد بن العباس بن مروان المذكور"
اور پھر محمد بن عباس کی سند امام علیہ السلام تک، جو یوں ہے
حدثنا أحمد بن إدريس قال : حدثنا أحمد بن محمد بن عيسى قال : حدثنا الحسين بن سعيد عن فضالة بن أيوب عن أبي بكر الحضرمي عن أبي عبد الله عليه السلام قال
علامہ ناصر الحسین نے ان سندوں کو معتبر جانا ہے
ان کی تحقیق کا عربی لنک ملاحظہ ہو
اس کتاب کا آن لائن لنک ملاحظہ ہو
یہ روایت بحار الانوار، ج ۱۸، ص ۳۹۴ پر بھی موجود ہے
No comments:
Post a Comment