السلام علیکم
ایک وہابی ویب سائٹ ہے، اسلام کیو اے، یہ ویب سائٹ سلفی عالم شیخ محمد صالح المنجد کی زیر نگرانی ہے۔ یہ موصوف ابن باز، البانی، عثیمین وغیرہ کے شاگرد ہیں
یہ اس بیعت کے حالات لکھتے ہیں۔
ہم نے جن جگہوں کو نقل کیا ہے، ان کا عکس ہمارے ترجمہ کے آخر میں ملاحظہ کریں
موصوف فرماتے ہیں
يذكر المؤرخون والمحدِّثون حادثةً في صدر التاريخ ، فيها ذكر قدوم عمر بن الخطاب وطائفة من أصحابه بيتَ فاطمةَ بنتِ رسول الله صلى الله عليه وسلم ، يطلبُ تقديم البيعة لأبي بكر الصديق ، رضي الله عنهم جميعا .
مورخین اور محدثین نے اسلامی تاریخ کے آغاز میں ایک حادثے کا ذکر کیا ہے کہ عمر اور صحابہ کا ایک گروہ بی بی فاطمہ علیہ السلام کے گھر آیا، اور ان سے ابو بکر کی بیعت کا مطالبہ کیا
وثمة قدر متفق عليه بين الروايات ، جاء من طرق صحيحة ، واشتهر ذكره بين أهل العلم ، كما أن هناك قدرا كبيرا من الكذب والاختلاق الذي أُلصق بهذه الحادثة .
ونحن نرجو من القارئ الكريم التنبه واليقظة ؛ كي يصل معنا إلى أقرب تصوير لتلك الحادثة ، فلا يخلط عليه الكذَّابون والمفترون ما يدسُّونه في التاريخ كذبا وزورا .
اور اس میں کچھ باتیں روایات میں متفق ہیں، اور جو صحیح سندوں سے آئی ہیں، اور جو اہل علم میں مشہور ہیں؛ اور اسی طرح اس میں جھوٹ وغیرہ بھی ملایا گیا ہے۔ ہم محترم قاری کو متنبہ و ہوشیار کرتے ہیں، تاکہ وہ اس حادثے کی اصل تصویر تک پہنچ سکے اور جھوٹ اور افترا باندھنے والوں کی باتوں میں نہ آ پائے جو انہوں نے تاریخ میں ملا دی ہیں
الثابت المعلوم أن عليا والعباس والفضل بن العباس والزبير بن العوام تأخروا عن حضور بيعة أبي بكر الصديق في سقيفة بني ساعدة ، وذلك لانشغالهم بتجهيز رسول الله صلى الله عليه وسلم للدفن ، فوجدوا في أنفسهم : كيف ينشغل الناس بأمر الخلافة ورسول الله صلى الله عليه وسلم لم يدفن بعد ، أما باقي الصحابة رضوان الله عليهم فعملوا على تعيين الخليفة كي لا يبيت المسلمون من غير أمير ولا قائد ، وأرادوا بذلك أن يحفظوا على المسلمين أمر دينهم ودنياهم .
جو بات معلوم اور ثابت ہے، وہ یہ کہ علی، عباس، فضل ابن عباس، زبیر بن عوام نے ابوبکر کی سقفیہ میں بیعت میں تاخیر کی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نبی پاک کے دفن کی تیاریوں میں مشغول تھے۔ اور انہوں نے اپنے سے یہ سوال کیا/یا یہ پایا: کہ لوگ کس طرح خلافت کے امر میں مشغول ہیں جب کہ نبی پاک ابھی دفن بھی نہیں ہوئے۔ جب کہ دیگر صحابہ خلیفہ منتخب کر رہے تھے تاکہ مسلمان بغیر قائد و امیر کے نہ رہیں۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے دین و دنیا کی حفاظت ہو سکے
میں اہلبیت کا ادنی سا خادم و غلام یہ گذارش کرتا ہوں کہ جب یہ بات اتنی ہی اہم تھی کہ ان صحابہ کو سمجھ میں آ رہی تھی، تو پھر نبی اکرم نے اس بات کا اہتمام کیوں نہ کیا؟ جس دین کو کمال کا درجہ مل چکا تھا، اس میں یہ مسئلہ کیوں باقی رہا کہ ابھی نبی اکرم دفن بھی نہ ہوئے تھے، کہ اختلاف آ چکا تھا؟
فلما دُفن رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتزل علي بن أبي طالب ومن معه من بعض قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم في الأيام الأولى ولم يبايعوا ، ليس رغبة عن البيعة ، ولا حسدا لأبي بكر ، ولا منازعةً له ، إنما لِما رآه عليٌّ من الخطأ في استعجال أمر الخلافة قبل الدفن ، حتى جاء عمر بن الخطاب وبعض الصحابة بيت فاطمة رضي الله عنها ، وطلب منها إبلاغ علي والزبير ومن معهم بلزوم المبادرة إلى بيعة أبي بكر الصديق ، درءا للفتنة ، وحفظا لجماعة المسلمين ، فلما سمعوا تشديد عمر بن الخطاب في هذا الأمر ، سارعوا بإعلان البيعة ، وذكروا فضل أبي بكر رضي الله عنه وأحقيته بالخلافة ، واعتذروا عن تأخرهم بما اعتذروا به .
جب نبی اکرم کو دفن کر دیا گیا، تو علی اور ان کے ساتھ جو کچھ رشتہ دار تھے، وہ ایک طرف ہو گئے اور شروع میں بیعت نہیں کی۔ وہ بیعت سے رغبت نہیں رکھ رہے تھے۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ ابو بکر سے حسد کرتے تھے یہ تنازع تھا، بلکہ وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ خلافت کے امر میں عجلت دفن سے پہلے خطا و غلطی تھی۔ یہاں تک کہ عمر بن خطاب اور کچھ اصحاب فاطمہ کے گھر آئے، اور ان سے علی و زبیر اور جو ان کے ساتھ تھے، ان سے ابو بکر کی بیعت لینے کے لیے ان کو بھیجنے کا کہا تاکہ فنتہ دور ہو، اور مسلمانوں کی حفاظت ہو۔ جب انہوں نے عمر کی اس ضمن میں سختی کو دیکھا، انہوں نے فورا بیعت کا اعلان کیا اور ابو بکر کی فضیلت کا ذکر کیا، اور ان کے خلافت کے حق کا ذکر کیا۔ اور تاخیر پر عذر پیش کی جو قبول ہوئی
میں اہلبیت کا غلام یہ عرض کرتا ہوں کہ وہابی عالم یہ تسلیم کر گئے کہ صحابہ گئے تھے، اور انہوں نے یہ بھی تسلیم کر لیا کہ عمر نے اس معاملے میں شدت سے کام لیا جس کے بعد ان لوگوں نے بیعت کو تسلیم کیا
روى أسلم القرشي - مولى عمر بن الخطاب - رضي الله عنه ، قال : ( حين بُويع لأبي بكر بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، كان علي والزبير يدخلان على فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيشاورونها ويرتجعون في أمرهم ، فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب خرج حتى دخل على فاطمة فقال : يا بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ! والله ما من أحد أحب إلينا من أبيك ، وما من أحد أحب إلينا بعد أبيك منك ، وايم الله ما ذاك بمانعي إن اجتمع هؤلاء النفر عندك إن أمرتهم أن يحرق عليهم البيت .
قال : فلما خرج عمر جاؤوها فقالت : تعلمون أن عمر قد جاءني ، وقد حلف بالله لئن عدتم ليحرقن عليكم البيت ، وايم الله ليمضين لما حلف عليه ، فانصرِفوا راشدين ، فَرُوا رأيَكم ولا ترجعوا إلّيَّ ، فانصرفوا عنها ، فلم يرجعوا إليها حتى بايعوا لأبي بكر )
أخرجه أحمد في "فضائل الصحابة" (1/364) وابن أبي شيبة في "المصنف" (7/432) وعنه ابن أبي عاصم في "المذكر والتذكير" (1/91) ورواه ابن عبد البر في "الاستيعاب" (3/975) من طريق البزار – ولم أجده في كتب البزار المطبوعة – وأخرجه الخطيب في "تاريخ بغداد" (6/75) مختصرا : كلهم من طريق محمد بن بشر ثنا عبيد الله بن عمر عن زيد بن أسلم عن أبيه به .
قلت : وهذا إسناد صحيح
اسلم قرشی روایت کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم کے بعد ابو بکر کی بیعت ہوئی، علی اور زبیر بی بی فاطمہ کے گھر داخل ہوئے، اور مشورہ کر رہے تھے جب عمر کو اس بارے میں پتہ چلا؛ پس وہ نکلے اور بی بی کے گھر آئے اور کہا: اے نبی کی بیٹی! واللہ مجھے اپ کے والد سے زیادہ کوئی عزیز نہیں، اور ان کے بعد آپ سے زیادہ کوئی عزیز نہیں۔ مگر یہ مجھے اس بات سے نہیں روکے گی کہ یہ لوگ آپ کے گھر میں جمع ہوں اور میں اس گھر کو آگ لگا دوں۔ جب عمر گئے، تو بی بی نے ان سے کہا کہ کیا تم علم رکھتے ہو کہ عمر آیا تھا اور اللہ کی قسم کھا کر گیا ہے کہ اگر تم ادھر ہوئے، تو گھر کو آگ لگا دے گا۔ اور اس نے جو قسم کھائی ہے، وہ کر دکھائے گا، پس تم جاؤ اور اپنی رائے دے کر واپس آنا۔ وہ گئے اور واپس نہ آئے حتی کہ انہوں نے بیعت کر لی
یہ واقعہ امام احمد نے فضائل الصحابہ میں، ابن ابی شیبہ نے المصنف میں، ابن ابی عاصم نے المذکر و التذکیر میں، ابن عبدالبر نے الاستعیاب میں بزار کی سند سے، مگر بزار کے طبع شدہ نسخے میں یہ مجھے نہیں ملا، اور خطیب نے تاریخ بغداد میں اس سند سے پیش کیا ہے۔
میں یہ کہتا ہوں کہ یہ سند صحیح ہے ۔۔۔۔
میں اہلبیت کا ادنی سا خادم یہ کہتا ہوں: کہ جو بات عمر نے کہی، اسے آسان ترین الفاظ میں "قتل کی دھمکی" کہا جا سکتا ہے۔ بی بی فاطمہ کے الفاظ سے یہ واضح ہے کہ وہ کس انداز سے بات کر رہا ہو گا کیونکہ بی بی نے کہا کہ وہ جو قسم کھا چکا ہے، وہ اسے پورا کرے گا۔۔۔۔ اس بات سے آپ شدت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو اس وھابی عالم نے پہلے عمر کے حوالے سے تسلیم کی تھی
وقد جاء في بعض الروايات القوية أيضا أنه حصلت بعض المنازعات بين عمر بن الخطاب ومن معه ، وبين الزبير بن العوام الذي كان مع علي بن أبي طالب رضي الله عنه ، وذلك في بيت فاطمة رضي الله عنها ، إلا أن الله سبحانه وتعالى وقاهم فتنة الشيطان ، ودرأ عنهم الشقاق والنزاع .
اسی طرح بعض قوی روایات میں ہمیں ایک تنازع کا پتہ چلتا ہے کہ جو عمر اور ان کے ساتھیوں، اور زیبر کے درمیان ہوئیں، جو کہ علی کے ساتھ تھے۔ اور وہ بی بی کے گھر میں تھے۔ سوائے اس کے کہ اللہ نے شیطان کا فتنہ اٹھا لیا، اور تنازع کا دبا دیا
میں خاکپائے عزاداران امام مظلوم یہ گذارش کرتا ہوں کہ ان الفاظ پر توجہ دیں: کہ زبیر جو کہ بی بی کے گھر میں تھے، اور ان کا تنازعہ ہو رہا ہے عمر کے ساتھیوں کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔
موصوف نے پچھلی روایت میں بھی یہ کہتا تھا کہ زبیر اندر تھے، گھر میں۔۔۔اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک تنازعہ ہوا۔۔۔۔۔چلیں آگے پڑھیں
وروى الإمام الزهري (124هـ) قال : ( وغضب رجال من المهاجرين في بيعة أبي بكر رضي الله عنه ، منهم علي بن أبي طالب والزبير بن العوام رضي الله عنهما ، فدخلا بيت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعهما السلاح ، فجاءهما عمر رضي الله عنه في عصابة من المسلمين فيهم : أسيد ، وسلمة بن سلامة بن وقش - وهما من بني عبد الاشهل - ، ويقال : فيهم ثابت بن قيس بن الشماس أخو بني الحارث بن الخزرج ، فأخذ أحدهم سيف الزبير فضرب به الحجر حتى كسره )
رواه موسى بن عقبة (140هـ) عن شيخه الزهري ، ومن طريقه أخرجه عبد الله بن أحمد في "السنة" (2/553-554)
قلت : ورواية السير والمغازي من طريق موسى بن عقبة عن الزهري من أصح الروايات ، حتى قال ابن معين : " كتاب موسى بن عقبة عن الزهري من أصح هذه الكتب " . وكان الإمام مالك يقول : " عليك بمغازي الرجل الصالح موسى بن عقبة " . وقال الإمام الشافعي : " ليس في المغازي أصح من كتاب موسى بن عقبة " . وقال الذهبي : " وأما مغازي موسى بن عقبة فهي في مجلد ليس بالكبير ، سمعناها ، وغالبها صحيح ومرسل جيد " انتهى . انظر "سير أعلام النبلاء" (6/114-118) ، والزهري لم يدرك تلك الحادثة ، إلا أن روايته هذه جاءت موافقة لما سبق من روايات صحيحة، والله أعلم .
امام زہری نقل کرتے ہیں کہ مہاجرین میں کچھ ابو بکر کی بیعت سے غضب ناک تھے، ان میں علی، زبیر، شامل تھے اور یہ بی بی فاطمہ کے گھر داخل ہوئے۔ ان کے پاس تلوار تھے۔ پھر عمر آیا اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا ایک گروہ تھا جن میں اسید، سلمہ، ثابت وغیرہ تھے۔ ان میں ایک نے زبیر کی تلوار چھین لی، اور پتھر مار کر اسے توڑ دیا
یہ واقعہ موسی بن عقبہ نے اپنے شیخ زہری سے لیا ہے۔ اور اس سند سے عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اپنی کتاب السنہ، 2/553-554 پر درج کیا ہے
میں کہتا ہوں کہ مغازی کے ضمن میں موسی بن عقبہ کی زہری سے روایات صحیح ترین ہیں، حتی کہ ابن معین نے کہا کہ موسی بن عقبہ کی زہری سے کتاب، صحیح ترین کتاب ہے
اور امام مالک نےا کہا کہ مغازی میں سب سے نیک مرد موسی بن عقبہ ہے۔ اور امام شافعی نے کہا مغازی کے ضمن میں موسی بن عقبہ کی کتاب سے زیادہ صحیح کچھ نہیں۔ اور علامہ ذہبی نے کہا کہ موسی بن عقبہ کی کتاب مجلد ہے، اگرچہ بڑی نہیں، اس کی غالب اکثریت صحیح ہے، اور مرسل بھی جید/عمدہ ہیں۔ دیکھیے سیر اعلام نبلاء۔ اگرچہ زہری نے یہ واقعہ نہیں پایا مگر یہ صحیح روایات سے موافقت رکھتے ہے جو کہ گذر گئی ہیں۔
میں خادم اہلبیت یہ کہتا ہوں: کہ زبیر تو گھر کے اندر تھے پھر یہ گروہ جو عمر کے ساتھ ایا، ان کو زبیر کیسے مل گیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ لوگ اندر گئے تھے؟؟؟؟
جیسا کہ الاحادیث المختارہ میں ضیا المقدسی نے جلد 1، صفحہ 89 پر ایک روایت درج کی، جس کا ایک حصہ یہ کہتا ہے
فوددت أني لم أكن كشفت بيت فاطمة أو تركته وأن أعلق على الحرب
ابو بکر نے کہا کہ کاش میں بی بی فاطمہ کا گھر نہ کھلواتا یا اسے چھوڑ دیتا چاہے وہ جنگ چھیڑ دیتی
اس روایت کو ضیا المقدسی نے اگلی صفحہ پر حسن حدیث مانا ہے
اس مقام پر ہم اس روایت پر مزید بحث کرنا نہیں چاہتے، اس لیے بس اتنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں، پھر کبھی اللہ نے موقع دیا، تو اس روایت پر تفصیلی بحث کریں گے
اسی طرح شیخ ابن تیمیہ منہاج السنۃ، 8/291 پر لکھ بیٹھے کہ
وغاية ما يقال إنه كبس البيت لينظر هل فيه شيء من مال الله الذي يقسمه وأن يعطيه لمستحق
اور یہ جو کہا گیا کہ ان کے گھر میں گھس گئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس میں اللہ کو کوئی مال تو نہیں پڑا جس کو تقسیم کیا جا سکے، اور مستحق کو دیا جا سکے
آفرین ہے
No comments:
Post a Comment