Monday, February 1, 2016

حضرت ابو ذر کا ربذہ جانا، اور ان کے آخری لمحات

السلام علیکم 

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا شمار جید ترین صحابہ میں ہوتا ہے 

ان کے بارے میں اکثر لوگ یوں بیان کرتے ہیں جیسا کہ وہ اپنی مرضی سے ربذہ گئے 

اس بارے میں ایک روایت ملاحظہ ہو 

طبقات ابن سعد، ج 4، ص 171-172 پر ایک روایت یوں ملتی ہے 

قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ عَنْ ثَابِتِ بْنِ الْحَجَّاجِ عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ سِيدَانَ السُّلَمِيِّ قَالَ: تَنَاجَى أَبُو ذَرٍّ وَعُثْمَانُ حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا.
ثُمَّ انْصَرَفَ أَبُو ذَرٍّ مُتَبَسِّمًا فَقَالَ لَهُ النَّاسُ: مَا لَكَ وَلأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: سَامِعٌ مُطِيعٌ وَلَوْ أَمَرَنِي أَنْ آتِيَ صَنْعَاءَ أَوْ عَدْنَ ثُمَّ اسْتَطَعْتُ أَنْ أَفْعَلَ لَفَعَلْتُ. وَأَمَرَهُ عثمان أن يخرج إلى الربذة.


عبداللہ بن سیدان روایت کرتے ہیں کہ ابو ذر اور عثمان آپس میں گفتگو کر رہتے تھے اور ان کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں
تو ابو ذر مسکراتے ہوئے واپس آئے۔ لوگوں نے پوچھا کہ تمہارے اور امیر المومنین کے درمیان کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ میں نے سنا اور اطاعت کی۔ اور اگر وہ مجھے صنعاء یا عدن جانے کا بھی کہتے اور مجھ میں استطاعت ہوتی تو میں جاتا۔ اور عثمان نے انہیں ربذہ جانے کا حکم دیا تھا

اس روایت کی سند کے بارے میں، میں نے حاشیے میں اپنی تحقیق درج کی ہے 

نیز، اس کی تائید المطالب العالیہ، ج 16، ص 498 پر موجود ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں یہ قول آتا ہے 

 فَأَمَرَهُ عُثْمَانُ رَضِيَ الله عَنْه أَنْ يَخْرُجَ إِلَى الرَّبَذَةِ
عثمان نے انہیں حکم دیا کہ وہ ربذہ چلے جائیں

اگرچہ اس روایت کے ایک راوی، ابو عمرو بن حماس کی توثیق ہمیں نہیں ملی، تاہم اس روایت سے ہم صرف اوپر دی گئی روایت کو تقویت دے رہے ہیں 


اب آتے ہیں ان کے آخری لمحات کی طرف
امام احمد اپنی مسند، ج 35، ص 300 پر ایک روایت درج کرتے ہیں

21373 - حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْأَشْتَرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ ذَرٍّ، قَالَتْ: لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا ذَرٍّ، الْوَفَاةُ قَالَتْ: بَكَيْتُ، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: وَمَا لِي لَا أَبْكِي وَأَنْتَ تَمُوتُ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، وَلَا يَدَ لِي بِدَفْنِكَ، وَلَيْسَ عِنْدِي ثَوْبٌ يَسَعُكَ فَأُكَفِّنَكَ فِيهِ.

حضرت ام ذر کہتی ہیں کہ جب حضرت ابو ذر کا آخری وقت آیا تو میں رونے لگی۔ انہوں نے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو۔ جواب دیا کہ کیوں نہ رؤں کہ آپ اس جنگل میں مرنے والے ہیں، اور میرے پاس کچھ نہیں، کپڑا بھی نہیں کہ جس سے آپ کو کفن دے سکوں

محقق، شیخ شعیب الارناؤط نے سند کو حسن کہا ہے 

خلافت راشدہ کے مثالی دور میں ایک صحابی کا آخری وقت اس طرح ہے کہ کفن دفن کے وسائل بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔

کیا کہوں اس پر۔۔۔۔




----------------------------------------------------------

حاشیہ

ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓراویان کا تعارف کراتا چلوں

فضل بن دکین صحاح ستہ بشمول صحیح بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔ ابن حجر نے انہیں ثقہ و ثبت کہا ہے 

5401- الفضل ابن دكين الكوفي واسم دكين عمرو ابن حماد ابن زهير التيمي مولاهم الأحول أبو نعيم الملائي بضم الميم مشهور بكنيته ثقة ثبت من التاسعة مات سنة ثماني عشرة وقيل تسع عشرة وكان مولده سنة ثلاثين وهو من كبار شيوخ البخاري ع

جعفر بن برقان صحیح بخاری کو چھوڑ کر باقی صحاح ستہ بشمول صحیح مسلم کےراوی ہیں۔ بخاری نے ان سے ادب المفرد میں روایات لی ہیں۔ ابن حجرنے انہیں صدوق مانا ہے۔ اگرچہ یہ بھی لکھا کہ یہ زہری کی روایات میں غلطی کرتے ہیں، مگر یہاں پر یہ زہری سے روایت نہیں لے رہے 

932- جعفر ابن برقان بضم الموحدة وسكون الراء بعدها قاف الكلابي أبو عبد الله الرقي صدوق يهم في حديث الزهري من السابعة مات سنة خمسين وقيل بعدها بخ م 4

ثابت بن حجاج سے ابو داؤد نے روایات لی ہیں۔ اور ابن حجر نے انہیں ثقہ کہا ہے 

812- ثابت ابن الحجاج الكلابي الرقي ثقة من الثالثة د

جنہوں نے بھی اس روایت کی تضعیف کی کوشش کی، انہوں نے عبداللہ بن سیدان پر حملہ کیا۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ مجہول ہیں۔ یعنی کسی نے ان کی توثیق نہیں کی۔ حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے
حافظ زبیر علی زئی کا شمار مکتب اہلحدیث کے جید ترین علماء میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھی۔ سنن ابی داؤد کے اردو ترجمہ پر انہوں نے تخریج کی

اس کتاب کے جلد ا کے شروع میں ایک باب وہ قائم کرتے ہیں کہ 

سنن ابو داؤد تحقیق و تخریج کا اسلوب

 اور اس میں ص 62 پر  وہ یہ لکھتے ہیں کہ اگر دو متساہل علمائے جرح و تعدیل جیسا کہ ابن حبان یا ترمذی یا امام حاکم کسی کو ثقہ کہہ دیں، تو وہ صدوق حسن الحدیث ہے ۔ نیز اس بات کی بھی وہ وضاحت کرتے ہیں کہ امام عجلی متساہل نہیں، بلکہ معتدل عالم جرح و تعدیل ہیں

چلیں مان لیں کہ کچھ لوگ ان کو بھی متساہل مانتے ہیں، مگر جب ہم عبداللہ بن سیدان کے بارے میں پڑھتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ ابن حبان اور امام عجلی نے انہیں ثقہ مانا ہے 
ملاحظہ ہو الثقات ابن حبان، ج3، ص 247 اور الثقات للعجلی، ج 2، ص 32

ہو سکتا ہے کوئی یہ کہہ دے کہ ایک جگہ میں عبداللہ بن سیدان سلمی کا ذکر ہے، اور ایک جگہ پر عبداللہ بن سیدان مطرودی کا، تو گذارش یہ ہے کہ یہ ایک ہی شخص ہیں جیسا کہ علامہ ذہبی کی کتاب، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 3، ص 411 پر کتاب کے محقق، عمر عبدالسلام تدمری نے لکھا 

 أخرجه ابن سعد في الطبقات 4/ 227 وعبد الله بن سيدان هو المطرودي السلمي الرَّبَذيّ

 اب اگر عجلی کو متساہل نہ مانا جائے، تو سارے راوی ثقہ قرار پائیں گے، وگرنہ عبداللہ بن سیدان کم سے کم صدوق حسن الحدیث کے درجے پر ہیں۔ اور اس صورت میں روایت حسن درجے کی ہو گی، وگرنہ صحیح 



1 comment:

  1. امام احمد اپنی مسند، ج 35، ص 300 پر ایک روایت درج کرتے ہیں

    21373 – حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْأَشْتَرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ ذَرٍّ، قَالَتْ: لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا ذَرٍّ، الْوَفَاةُ قَالَتْ: بَكَيْتُ، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: وَمَا لِي لَا أَبْكِي وَأَنْتَ تَمُوتُ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، وَلَا يَدَ لِي بِدَفْنِكَ، وَلَيْسَ عِنْدِي ثَوْبٌ يَسَعُكَ فَأُكَفِّنَكَ فِيهِ.

    حضرت ام ذر کہتی ہیں کہ جب حضرت ابو ذر کا آخری وقت آیا تو میں رونے لگی۔ انہوں نے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو۔ جواب دیا کہ کیوں نہ رؤں کہ آپ اس جنگل میں مرنے والے ہیں، اور میرے پاس کچھ نہیں، کپڑا بھی نہیں کہ جس سے آپ کو کفن دے سکوں

    محقق، شیخ شعیب الارناؤط نے سند کو حسن کہا ہے

    ———-
    یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں إِبْرَاهِيم بن الأشتر ہے جس کی توثیق نہیں ملی کہ علم حدیث میں کیا مقام ہے نہ حافظہ کا پتا ہے نہ عدل کا لہذا اس راوی کو قبول نہیں کیا جائے گا
    یہاں تک کہ الذہبی نے کہا ہے
    وما علمت له رواية
    میں اس کی روایت کو نہیں جانتا

    اسی طرح اس میں مُجَاهِد بْن سعيد بْن أبي زَيْنَب ہے جو مجھول ہے صرف ابن حبان کی توثیق ہے جو مجہولین کو ثقہ کہنے کے لئے مشھور ہیں

    یہ روایت منقطع بھی ہے تاریخ الکبیر امام بخاری کے مطابق مجاہد نے عبد الله سے سنا ہے
    عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ نا مُجَاهِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي زَيْنَبَ الأَصْبَحِيُّ لَقِيتُهُ بِالْجَزِيرَةِ مِنْ أَهْلِهَا قَالَ حَدَّثَنِي عَبْد اللَّه بْن مَالِكِ بْن إِبْرَاهِيم بْن الأَشْتَرِ النَّخَعِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ
    یعنی مجاہد نے عبد الله سے سنا نہ کہ اس کے باپ سے

    ReplyDelete