السلام علیکم
سنن دارمی، تحقیق حسین سلیم اسد، ج 2، ص 962 پر ایک روایت یوں ملتی ہے
1580 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ: بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ، [ص:963] فَعَرَّضَ بِهِ عُمَرُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا زِدْتُ أَنْ تَوَضَّأْتُ حِينَ سَمِعْتُ النِّدَاءَ، فَقَالَ: وَالْوُضُوءَ أَيْضًا؟ أَلَمْ تَسْمَعْ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَلْيَغْتَسِلْ»
[تعليق المحقق] إسناده صحيح
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب ہمیں خطبہ دے رہے تھے جب ایک شخص داخل ہوا۔ عمر نے ان سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: اے امیر المومنین! جب میں نے اذان کی آواز سنی تو میں نے صرف وضو کیا ہوتھا۔ عمر نے پوچھا: صرف وضو؟ کیا تم نے نبی اکرم کو نہیں سنا کہ انہوں نے کہا کہ جب بھی تم میں کوئی جمعہ والا دن نماز کے لیے آئے تو غسل کرے
محقق نے سند کو صحیح قرار دیا ہے
اب یہاں پر یہ نہیں بتایا جا رہا کہ کون شخص تھا جس کو یہ علم نہیں تھا
اور وہ جمعہ والے دن نماز کے لیے تب آیا جب خطبہ شروع تھا
دارمی نے یہ روایت محمد بن یوسف الفریابی سے لیے، جنہوں نے یہ روایت امام اوزاعی سے لی
الفریابی کا تعارف علامہ شمس الدین ذہبی نے سیر اعلام نبلاء، 10/114 میں یوں کرایا ہے
الإِمَامُ، الحَافِظُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ،
یہ صحاح ستہ کے راوی ہیں
یہ نکتہ ذہن میں رکھتے ہوئے، ہم جب صحیح مسلم، 2/580، پر موجود روایت دیکھتے ہیں تو یوں ملتا ہے
4 - (845) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِذْ دَخَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَعَرَّضَ بِهِ عُمَرُ، فَقَالَ: مَا بَالُ رِجَالٍ يَتَأَخَّرُونَ بَعْدَ النِّدَاءِ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا زِدْتُ حِينَ سَمِعْتُ النِّدَاءَ أَنْ تَوَضَّأْتُ، ثُمَّ أَقْبَلْتُ، فَقَالَ عُمَرُ: وَالْوُضُوءَ أَيْضًا، أَلَمْ تَسْمَعُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ»
اب اس روایت کو بھی امام اوزاعی نے ہی بیان کیا ہے، اور اس میں یہ لکھا ہے کہ
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ عمر جمعہ والے دن ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ عثمان آئے، عمر نے ان کو اشارہ کیا، اور کہا کہ ان لوگوں کا کیا بنے گا جو آذان کے بعد تاخیر کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی یہاں پر عثمان کا نام بھی لکھا ہے، اور اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ وہ تاخیر سے آئے تھے۔ یہ دوںوں باتیں سنن دارمی میں نہیں تھیں
اب کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ امام اوزاعی نے ہی روایت کو مختلف طریقے سے بیان کیا ہو۔ ہم ان کے وکیل تو نہیں، مگر یہ بات یقینی ہے کہ انہوں نے ولید بن مسلم کے علاوہ بھی جب یہ روایت بیان کی، تو مکمل ہی کی تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مسند ابو یعلی، ج 1، ص 220 پر ہمیں یہ روایت مکمل حال میں یوں ملتی ہے
258 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ دَخَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ الْمَسْجِدَ فَعَرَّضَ بِهِ عُمَرُ فَقَالَ: مَا بَالُ رِجَالٍ يَتَأَخَّرُونَ بَعْدَ النِّدَاءِ؟ قَالَ عُثْمَانُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا زِدْتُ حِينَ سَمِعْتُ النِّدَاءَ، عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ ثُمَّ أَقْبَلْتُ. قَالَ عُمَرُ: وَالْوُضُوءَ أَيْضًا أَلَمْ تَسْمَعْ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ؟»
[حكم حسين سليم أسد] : إسناده صحيح
اب یا تو امام شیخ الاسلام فریابی نے روایت میں عثمان کو بچانے کی کوشش کی، یا پر خود دارمی نے
مگر یہ بات یقینی ہے کہ روایت میں تحریف ہے
This comment has been removed by the author.
ReplyDelete