Friday, February 19, 2016

حضرت ابو طالب: اہل تشیع کی روایات میں

السلام علیکم 

اس موضوع پر کچھ روایات اہلبیت ہدیہ کرنا چاہوں گا۔ مگر پہلے یہ بتاتا چلوں کہ تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ جو کام حضرت ابو طالب نے کیا، وہ کئی صحابہ مل کر بھی نہ کر سکے۔ وہ ختمی مرتبت کے ناصر تھے، اور جب تک وہ زندہ رہے، کبھی کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ آپ پر تلوار اٹھائے 

اس مقالے میں ہم نے کوشش یہ کی ہے کہ مستند روایات ہی پیش کی جا سکیں۔ روایات پر حکم کے لیے ہم نے علامہ مجلسی و دیگر کی تحقیق پیش کی ہے۔ جہاں پر ہم نے سند پر اپنا حکم لگایا ہے، اس کے راویان کی وضاحت ہم نے حاشیہ میں کی ہے تا کہ وہ لوگ جو وجہ جاننا چاہیں، وہ پڑھ سکیں۔ 

الکافی، ا/449 پر ایک روایت ملتی ہے 

1 3 - علي، عن أبيه، عن ابن أبي نصر، عن إبراهيم بن محمد الأشعري، عن عبيد بن زرارة، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: لما توفى أبو طالب نزل جبرئيل على رسول الله صلى الله عليه وآله فقال: يا محمد اخرج من مكة، فليس لك فيها ناصر، وثارت قريش بالنبي صلى الله عليه وآله، فخرج هاربا حتى جاء إلى جبل بمكة يقال له الحجون فصار إليه.

امام جعفر الصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو طالب کا انتقال ہوا، جبرائیل نازل ہوئے اور نبی اکرم سے فرمایا کہ اے محمد! آپ مکہ سے نکل جائیں، آپ کا کوئی ناصر نہیں یہاں۔ قریش آپ کے خلاف نکل آئے اور آپ وہاں سے نکل آئے حتی کہ مکہ کے پہاڑوں میں چلے گئے جسے الحجون کہتے ہیں، آپ وہاں چلے گئے

علامہ مجلسی نے اسے مراۃ العقول، 5/257، پر حسن مگر صحیح کی مانند قرار دیا

  الکافی کے اسی صفحے پر ایک واقعہ موجود ہے
نقل کرتے ہیں

30 - علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن الحكم، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: بينا النبي صلى الله عليه وآله في المسجد الحرام وعليه ثياب له جدد فألقى المشركون عليه سلا ناقة فملؤوا ثيابه بها، فدخله من ذلك ما شاء الله فذهب إلى أبي طالب فقال له: يا عم كيف ترى حسبي فيكم؟ فقال له: وما ذا يا ابن أخي؟ فأخبره الخبر، فدعا أبو طالب حمزة وأخذ السيف وقال لحمزة: خذ السلا ثم توجه إلى القوم والنبي معه فأتى قريشا وهم حول الكعبة، فلما رأوه عرفوا الشر في وجهه، ثم قال لحمزة: أمر السلا على سبالهم  ففعل ذلك حتى أتى على آخرهم، ثم التفت أبو طالب إلى النبي صلى الله عليه وآله فقال: يا ابن أخي هذا حسبك فينا.

امام جعفر الصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی اکرم علیہ السلام مسجد حرام میں تھے، اور انہوں نے نئے کپڑے پہنے تھے۔ مشرکوں نے آ کر اونٹنی کا آلائش (جو بچے کے پیدائش کے بعد نکلتی ہے) آپ کے کپڑوں پر پھینکا اور کپڑے خراب ہو گئے۔ آپ حضرت ابو طالب کے پاس آئے، اور پوچھا کہ آپ مجھے کس طرح کا درجہ دیتے ہیں؟ حضرت ابو طالب نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ آپ نے خبر دی۔ حضرت ابو طالب نے حضرت حمزہ کو بلایا اور گند بھی اٹھوایا۔ آپ نبی اکرم کو ساتھ لے کر آئے۔ قریش اس وقت کعبہ کے پاس تھے۔ جب انہوں نے ان کو دیکھا تو چہرے سے ہی سمجھ گئے- آپ نے حضرت حمزہ سے کہا کہ اس گند کو ان کے چہروں پر  مل دو۔ یہاں تک کہ انہوں نے سب کے منہ پر مل دیا۔ پھر آپ نے نبی اکرم سے کہا کہ اے بھتیجے! آپ میرے ہاں اس قدر درجہ رکھتے ہیں

علامہ مجلسی نے مراۃ، 5/256 پر اسے بھی صحیح کی مانند حسن قرار دیا

اس روایت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کس قدر آنحضرت کا خیال رکھتے تھے۔ 

چونکہ ان کے ایمان پر اکثر سوال اٹھایا جاتا ہے، اس وجہ سے چند روایات اس بارے میں بھی پیش خدمت ہیں

الکافی، 1/448-449 پر ایک روایت یوں ملتی ہے 

29 - الحسين بن محمد ومحمد بن يحيى، عن أحمد بن إسحاق، عن بكر بن محمد الأزدي، عن إسحاق بن جعفر، عن أبيه عليه السلام قال: قيل له: إنهم يزعمون أن أبا طالب كان كافرا؟ فقال: كذبوا كيف يكون كافرا وهو يقول:
ألم تعلموا أنا وجدنا محمدا -- نبيا كموسى خط في أول الكتب وفي حديث آخر كيف يكون أبو طالب كافرا وهو يقول:
لقد علموا أن ابننا لا مكذب -- لدينا ولا يعبأ بقيل الا باطل  وأبيض يستسقى الغمام بوجهه -- ثمال اليتامى عصمة للأرامل 

امام جعفر علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ ابو طالب کافر تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ جھوٹ بولتے ہیں، وہ کیسے کافر ہو سکتے ہیں جبکہ وہ یہ کہتے تھے (اشعار کا ترجمہ پیش ہے) کہ کیا تم جانتے ہو کہ ہم نے محمد کو پایا، اس طرح موسی کی مانند نبی جسکا ذکر پچھلی کتب میں ہے
اور ایک اور روایت میں ہے کہ 
ہمارا بیٹا جھوٹا نہیں، اس کو جان لو ، وہ باطل کی جانب توجہ نہیں دیتا، وہ سفید /نورانی چہرے والا کہ جسے کہ چہرے سے بادل برکت لیں، جو یتمیموں کی پناہ اور بیواؤں کی عصمتوں کا رکھوالا ہے 

علامہ مجلسی نے مراۃ، 5/253، پر پہلی روایت کو صحیح، اور دوسری روایت، جس کو کلینی رحمۃ اللہ نے حدیث آخر کہا، اس کو مرسل کہا

تاہم یہ  روایت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے  بسند معتبر٭ امالی شیخ صدوق، صفحہ 712، میں نقل کی گئی ہے۔ ہدیہ کرتے ہیں

980 / 12 - حدثنا محمد بن الحسن بن أحمد بن الوليد (رضي الله عنه)، قال:
حدثني الحسن بن متيل الدقاق، قال: حدثني الحسن بن علي بن فضال، عن مروان ابن مسلم، عن ثابت بن دينار الثمالي، عن سعيد بن جبير، عن عبد الله بن عباس، أنه سأله، رجل فقال له: يا بن عم رسول الله، أخبرني عن أبي طالب، هل كان مسلما؟
فقال: وكيف لم يكن مسلما، وهو القائل:
وقد علموا أن ابننا لا مكذب -- لدينا ولا يعبأ بقيل الا باطل 

اس روایت میں عبداللہ بن عباس سے یہی سوال ہوا کہ کیا ابو طالب مسلمان تھے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ کیسے مسلمان نہیں تھے جبکہ وہ یہ کہتے تھے

اور اس کے بعد یہی اشعار ہیں

اس کے علاوہ الکافی، 1/448 پر ایک روایت ہے 

28 - علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن سالم، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن مثل أبي طالب مثل أصحاب الكهف أسروا الايمان وأظهروا الشرك فآتاهم الله أجرهم مرتين.

امام جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابو طالب کی مثال اصحاب کہف کی مانند ہے کہ جو ایمان کو چھپا کر رکھتے تھے، اور شرک کا اظہار کرتے تھے، پس اللہ نے ان کے لیے دو اجر رکھے 

اس روایت کو علامہ مجلسی نے مراۃ 5/253 پر حسن قرار دیا 
شیخ ہادی نجفی نے اس روایت کی سند کو موسوعۃ احادیث اہلبیت، 5/321 میں صحیح قرار دیا

یہ روایت امالی شیخ صدوق، ص 712 پر ایک اور سند سے بھی موجود ہے 

981 / 13 - حدثنا محمد بن إبراهيم بن إسحاق الطالقاني (رحمه الله)، قال: حدثنا أحمد بن محمد الهمداني، قال: أخبرنا المنذر بن محمد، عن جعفر بن سليمان، عن عبد الله بن الفضل الهاشمي، عن الصادق جعفر بن محمد (عليه السلام)، أنه قال: إن مثل أبي طالب مثل أصحاب الكهف حين أسروا الايمان وأظهروا الشرك، فآتاهم الله أجرهم مرتين 

اس کے علاوہ، الکافی، 1/449 پر ایک روایت ملتی ہے 

33 - محمد بن يحيى، عن أحمد وعبد الله ابني محمد بن عيسى، عن أبيهما، عن عبد الله بن المغيرة، عن إسماعيل بن أبي زياد، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: أسلم أبو طالب بحساب الجمل وعقد بيده ثلاثا وستين.

امام جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابو طالب اسلام لائے حساب جمل کے لحاظ سے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے 63 کا عدد بنایا

میں اہلبیت کا ادنی سا غلام یہ گذارش کرتا ہوں کہ یہ سند بھی اس حقیر کی نظر میں  معتبر٭٭ ہے۔ 

نیز اس کی تائید الکافی میں ہی موجود اس روایت سے پچھلی روایت سے بھی ہوتی ہے، جو کہ اس سند سے ہے 

32 - علي بن محمد بن عبد الله، ومحمد بن يحيى، عن محمد بن عبد الله رفعه، عن أبي عبد الله عليه السلام، قال: إن أبا طالب أسلم بحساب الجمل؟ قال: بكل لسان.

اگرچہ یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، مگر ہمارے پیش کردہ روایت کو تقویت دیتی ہے

اس کے علاوہ، معانی الاخبار میں شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نے ایک باب باندھا ہے 

( معنى اسلام أبى طالب بحساب الجمل و عقده بيده على )

اور اس کے اندر انہوں نے پہلی روایت یہ درج کی ہے 

1 - حدثنا الحسين بن إبراهيم بن أحمد بن هشام المؤدب ، و علي بن عبد الله الوراق ، و أحمد بن زياد الهمداني ، قالوا : حدثنا علي بن إبراهيم بن هشام ، عن أبيه ، عن محمد بن أبي عمير ، عن المفضل بن عمر قال : قال أبو عبد الله عليه السلام : أسلم أبو طالب - رضي الله عنه - بحساب الجمل - و عقد بيده ثلاثة و ستين  - ثم قال عليه السلام : إن مثل أبي طالب مثل أصحاب الكف ، أسروا الايمان و أظهروا الشرك فآتاهم الله أجرهم مرتين .

مفضل ابن عمر کہتے ہیں کہ امام جعفر علیہ السلام نے کہا کہ حضرت ابو طالب اسلام لائے جمل کے حساب کے مطابق، اور ہاتھوں سے 63 بنایا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ابو طالب کی مثال اصحاب کہف کی مانند ہے جو کہ ایمان کو چھپاتے تھے اور شرک کو واضح کرتے، پس اللہ انہیں دو اجر دے گا

مجھ حقیر کی نظر میں یہ سند بھی صحیح ہے٭٭٭

جمل کا حساب ایک خاص علم ہے کہ جس میں ہر عدد کو ایک نمبر دیا جاتا ہے۔ اور اس روایت میں 63 کا ذکر ہے
اس 63 کی وضاحت شیخ صدوق نے ابو القاسم حسین بن روح کے حوالے سے اگلی روایت میں دی ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ 63 کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ اس سے مراد ہے کہ الہ احد جواد- وضاحت کے لیے حاشیہ دیکھیں ٭٭٭٭

خلاصہ کلام یہ کہ حضرت ابو طالب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ناصر تھے، اور مومن تھے 

نا چیز کا دعاؤں میں یاد رکھیے گا

خاکپاۓ عزادارن سید الشہدا
سلیو آف اہلبیت












------------------------------------------------------------------
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
حاشیہ 
سند میں موجود روایان کا تعارف یہ ہے ٭

محمد بن حسن بن احمد بن ولید ثقۃ ثقہ ہیں (المفید من معجم رجال الحدیث، ص 513) ۔ 
حسن بن متیل کے بارے میں شیخ نجاشی نے اپنے رجال، ص 49 پر کہا کہ یہ وجہ من وجوہ اصحابنا ہیں۔ یہ الفاظ توثیق و مدح میں شمار ہوتے ہیں۔ ملاحظہ ہو معجم مصطلحات الرجال و الدرایۃ، محمد رضا جدیدی نژاد، ص 189۔ ان کو علامہ حلی نے اپنے خلاصہ میں ثقہ راویان میں جگہ دی۔ ملاحظہ ہو خلاصہ، ص 105

حسن بن علی بن فضال ثقہ ہیں (المفید، ص 148)۔

مروان بن مسلم ثقہ ہیں (المفید، ص 599)۔

ثابت بن دینار، ابو حمزہ ثمالی ثقہ ہیں (المفید، ص 96)۔ 

سعید بن جبیر ثقہ ہیں (المفید، ص 250)۔ 

عبداللہ ابن عباس جلیل القدر صحابی رسول و امیر المومنین ہیں۔ آپ کی شان میں کئی روایات ملتی ہیں ۔ (المفید، ص 338)۔ علامہ حلی نے آپ کو خلاصہ الاقوال میں ثقہ راویان کی فہرست میں جگہ دی (خلاصہ ص 190)۔ 

--------

٭٭ اس سند کے روایان مندرجہ ذیل ہیں

محمد بن یحیی العطار، یہ کلینی رحمۃ اللہ کے مشایخ میں ہیں، اور ثقہ ہیں (المفید، ص 588)۔ 

احمد بن محمد بن عیسی اشعری قمی بھی ثقہ ہیں (المفید، ص 44)۔ 

اس روایت میں ان کے بھائی نے بھی ان کے ساتھ روایت لی ہے۔ اگرچہ ان کو کچھ علماء نے مجہول کہا، مگر احمد بن محمد بن عیسی کی وجہ سے سند پر کوئی فرق نہیں پڑتا 

انہوں نے یہ روایت محمد بن عیسی بن عبداللہ الاشعری سے لی۔ ان کو کئی علماء نے ثقہ کہا۔۔ مثال کے طور پر شیخ علی نمازی نے اپنی کتاب، مستدرکات علم رجال الحدیث، 7/275 پر؛؛ اسی طرح علامہ مجلسی نے الوجیزہ فی علم الرجال، ص ، ص311، راوی نمبر 1751؛؛ اسی طرح علامہ حلی نے انہیں اپنی کتاب خلاصۃ الاقوال، ص 257؛ کے پہلے گروہ میں شامل کیا، جو ان راویان پر مشتمل ہے جن پر اعتماد کیا جا سکتا ہے 

شہید ثانی نے جب خلاصۃ الاقوال پر اپنا حاشیہ لکھا، تو ان کے بارے میں لکھا

قلت: ھذا العبارۃ لا تدل صریحا علی توثیقہ۔ نعم قد یظہر منہا ذلک مع ان المصنف یصف روایات التی ہو فیھا بالصحۃ

یعنی میں کہتا ہوں کہ یہ ان کی وثاقت پر صریح دلیل تو نہیں، مگر اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مصنف یعنی علامہ حلی نے ان کی روایت پر صحیح کا حکم لگایا ہے 

ملاحظہ ہو حاشیہ شہید الثانی علی خلاصۃ الاقوال، ص 203، 

عبداللہ بن مغیرہ ثقۃ ثقہ ہیں (المفید، ص 350)۔ 

اسماعیل بن ابی زیاد بھی ثقہ ہیں، (المفید، ص 63)۔

-----

٭٭٭ راویان کا تعارف یہ رہا

احمد بن زیاد بن جعفر ہمدانی شیخ صدوق کے مشایخ میں ہیں، اور ثقہ ہیں۔ (المفید، ص 29)۔ باقی دو راویان نے ان کی کی اس روایت کو مزید تقویت دی ہے۔ اس وجہ سے ہم مزید تفصیل نہیں دے رہے ان کا 

علی بن ابراہیم بن ہاشم، مشہور ترین شیعہ راویان میں ہیں، تفسیر قمی ان کی کتاب ہے۔ 

ابراہیم بن ہاشم ان کے والد ہیں۔ ان کی وثاقت میں بھی کوئی شک نہیں (المفید، ص 16)۔ 

محمد ابن ابی عمیر کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں۔ شیعہ رجال میں بہت ہی اونچا درجہ رکھتے ہیں۔ 

مفضل ابن عمر بھی ثقہ ہیں (المفید، ص 617)۔ 

--------

٭٭٭٭ روایت یوں ہے کہ 

2 - حدثنا أبو الفرج محمد بن المظفر بن نفيس المصري الفقية ، قال : حدثنا أبو الحسن محمد بن أحمد الداودي ، عن أبيه ، قال : كنت عند أبي القاسم الحسين بن روح - قدس الله روحه - فسأله رجل ما معنى قول العباس للنبي صلى الله عليه و اله : " إن عمك أبا طالب قد أسلم بحساب الجمل - و عقد بيده ثلاثة و ستين - " ؟ فقال : عني بذلك " إله أحد جواد " و تفسير ذلك أن الالف واحد ، و اللام و ثلاثون ، و الهاء خمسة ، و الالف واحد و الحاء ثمانيه ، و الدال أربعة ، و الجيم ثلاثة ، و الواو ستة ، و الالف واحد ، و الدال أربعة فذلك ثلاثة و ستون 

ابو قاسم سے سوال ہوا کہ حضرت عباس کے نبی اکرم سے یہ کہنا کہ آپ کے چچا نے نے جمل کے حساب سے اسلام قبول کیا، اور ہاتھ سے 63 بنایا، اس کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ الہ احد جواد، اور اس کی تفسیر یہ ہے کہ الف 1، لام 30، ھاء 5، الف 1، حا 8، دال 4، جیم 3، واؤ 6، الف 1 اور دال 4ہے، اور یہ 63 بنتا ہے 


یہ اس طرح سے کہ 

الف 1 ہے 
لام 30
ھا 5
یہ ہو گئے 36

الف 1
ح 8
دال 4
یہ ہو گئے 13

جیم 3
واؤ 6
الف 1
دال 4
یہ ہو گئے 14

ان سب کو جمع کریں تو 63 بنتا ہے 





No comments:

Post a Comment