Friday, October 2, 2015

مروان بن حکم کا مولا علی کی بیعت کرنا

السلام علیکم 

مروان ابن حکم سے متعلق ایک روایت ہمیں سنن سعید بن منصور، ج 2،ص 389 پر ملتی ہے 

2947 - حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ، قَالَ لَهُ وَهُوَ أَمِيرٌ بِالْمَدِينَةِ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ غَلَبَةً مِنْ أَبِيكَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَلَا أُحَدِّثُكَ، عَنْ غَلَبَتِهِ إِيَّانَا يَوْمَ الْجَمَلِ؟ قُلْتُ: الْأَمِيرُ أَعْلَمُ، قَالَ: لَمَّا الْتَقَيْنَا يَوْمَ الْجَمَلِ تَوَافَقْنَا، ثُمَّ حَمَلَ بَعْضُنَا عَلَى بَعْضٍ، فَلَمْ يَنْشَبْ أَهْلُ الْبَصْرَةِ أَنِ انْهَزَمُوا، فَصَرَخَ صَارِخٌ لِعَلِيٍّ: لَا يُقْتَلُ مُدْبِرٌ، وَلَا يُذَفَّفُ عَلَى جَرِيحٍ، وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَيْهِ بَابَ دَارِهِ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ طَرَحَ السِّلَاحَ آمِنٌ، قَالَ مَرْوَانُ: وَقَدْ كُنْتُ دَخَلْتُ دَارَ فُلَانٍ، ثُمَّ أَرْسَلْتُ إِلَى حَسَنٍ وَحُسَيْنٍ ابْنِي عَلِيٍّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ فَكَلَّمُوهُ، قَالَ: هُوَ آمِنٌ فَلْيَتَوَجَّهْ حَيْثُ شَاءَ، فَقُلْتُ: لَا وَاللَّهِ مَا تَطِيبُ نَفْسِي حَتَّى أُبَايِعَهُ فَبَايَعْتُهُ، ثُمَّ قَالَ: اذْهَبْ حَيْثُ شِئْتَ
 
 امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ مروان جب مدینہ کا امیر تھا، اس نے کہا کہ میں نے آپ کے والد مولا علی سے بہتر غلبہ کسی کا نہیں دیکھا۔ کیا آپ کو بتاؤں، کہ کس طرح انہوں نے ہم پر جمل والے دن غلبہ کیا؟ میں نے کہا کہ امیر بہتر جانتے ہیں۔ اس نے کہا کہ جب ہم جمل والے دن ملے، اور ایک دوسرے پر حملہ کیا اور اہل بصرہ کو شکست ہوئی، تو مولا علی کی جانب سے ایک شخص نے اعلان کیا کہ کسی ذی شعور کو قتل نہیں کیا جائے گا، کسی زخمی کو نہیں مارا جائے گا، جس نے گھر کا دروازہ بند کر دیا، وہ امن میں ہے۔ جس نے تلوار نیام میں رکھ دی، وہ بھی امن میں ہے۔ مراون کہتا ہے کہ میں فلاں کے گھر گیا، اور انہیں امام حسن و حسین اور عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر کے پاس بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ وہ امن میں ہے۔ جہاں جانا چاہے چلا جائے۔ مگر میں نے کہا کہ خدا کی قسم، میں اپنے نفس کے لیے اور کچھ نہیں مانگتا مگر یہ کہ ان کی بیعت کروں، پس بیعت کی۔ پھر انہوں نے کہا کہ جہاں جانا ہے، چلے جاؤ

اس روایت کے سارے راوی اہلسنت کی نظر میں ثقہ ہیں۔ ایک اعتراض عبدالعزیز بن محمد بن عبید الدراوردی پر آ سکتا ہے مگر تحریر تقریب التہذیب، ج 2، ص 371 پر بشار عواد معروف اور شیخ شعیب الارناؤط نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے 

 

No comments:

Post a Comment