Wednesday, October 28, 2015

امام حسن علیہ السلام کو نبی اکرم کے پاس دفن نہیں ہونے دیا گیا

السلام علیکم 

ایک روایت ہمیں ملتی ہے، کتاب کا مکمل حوالہ یہ ہے

الكتاب: الجزء المتمم لطبقات ابن سعد [الطبقة الخامسة في من قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم. وهم أحداث الأسنان]
المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ)
تحقيق: محمد بن صامل السلمي
الناشر: مكتبة الصديق - الطائف
الطبعة: الأولى، 1414 هـ - 1993 م
عدد الأجزاء: 2
 
 روایت کچھ یوں ہے کہ  جب امام حسن علیہ السلام کا آخری وقت آیا تو انہوں نے امام حسین علیہ السلام سے کہا کہ مجھے میرے والد یعنی نبی اکرم کے ساتھ دفن کرنا سوائے اس کے کہ خونریزی کا خطرہ ہو، اس صورت میں آگے نہ بڑھنا بلکہ مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دیا۔ (آگر روایت کچھ بیان نہیں کرتی کہ ایسا کیا ہوا کہ ) پھر امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے اسلحہ اٹھا لیا۔ اس وقت ابو ہریرہ نے کہا کہ میں تمہیں اللہ اور تمارے بھائی کی وصیت کا واسطہ دیتا ہوں، اس قوم نے تہمیں نہیں پکارا یہاں تک کہ تمہارے مابین خون ہے۔ اس پر امام حسین علیہ السلام واپس چلے گئے۔ 
اس موقع پر ابو ہریرہ نے ایک سوال کیا کہ اگر موسی علیہ السلام کا بیٹا آ جاتا کہ مجھے بابا کے ساتھ دفن کرو، اور انہیں منع کیا جاتا، تو کیا یہ ظلم تھا؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس پر ابو ہریرہ نے کہا: یہ اللہ کے نبی کے فرزند تھے، اور یہ آتے تھے کہ اپنے والد کے ساتھ دفن ہوتے

کتاب کے محقق، محمد بن سامل نے سند کو صحیح کہا ہے  
 
299- قال: أخبرنا يحيى بن حماد. قال: حدثنا أبو عوانة. عن حصين. عن أبي حازم. [قال: لما حضر الحسن. قال للحسين: ادفنوني عند أبي- يعني النبي ص- إلا أن تخافوا الدماء. فإن خفتم الدماء فلا تهريقوا في دما. ادفنوني عند مقابر المسلمين. قال:] فلما قبض تسلح الحسين وجميع «1» مواليه. فقال له أبو هريرة: أنشدك الله ووصية أخيك فإن القوم لن يدعوك حتى يكون بينكم دما. قال: فلم يزل به حتى رجع. قال:ثم دفنوه في بقيع الغرقد «2» . فقال أبو هريرة: أرأيتم لو جيء بابن موسى ليدفن مع أبيه فمنع أكانوا قد ظلموه؟ قال: فقالوا: نعم. قال: فهذا ابن نبي الله قد جيء به ليدفن مع أبيه.

و قال المحقق:299- إسناده صحيح.- حصين هو ابن عبد الرحمن السلمي أبو الهذيل. ثقة. تقدم في (63) .
- أبو حازم هو سلمان الأشجعي مولى عزة الأشجعية الكوفي. ثقة. تقدم في (198) .
تخريجه:
أخرجه ابن عساكر في تاريخ دمشق (4/ ل 540) من طريق ابن سعد.
وانظر سير أعلام النبلاء (3/ 275) .: 

 

No comments:

Post a Comment