السلام علیکم
محرم کی آمد آمد ہے۔ اور نواصب کی نیندیں پھر سے حرام ہیں
ایک دفعہ پھر پروپیگنڈہ شروع ہو گا
بلکہ شروع ہو چکا ہے
ایک مقالہ ہم نے دیکھا جو کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبروں سے متعلق تھا۔ اس میں لکھنے والے نے کوشش یہ کی کہ کسی طرح ان روایات کو ضعیف قرار دیا جائے جو کہ امام حسین کی شہادت کے متعلق آئی ہیں
اب اصول یہ ہے کہ ہم ان روایات کو دیکھیں۔ ان کے بارے میں علمائے اہلسنت کیا کہتے ہیں، ان کو پیش کریں۔ اور اگر کہیں سند پر بحث کرنی پڑے تو اہلسنت کے علم الرجال کے اصولوں میں اس پر بحث کریں
روایت نمبر 1
ایک روایت وہ یوں لکھتے ہیں
مسند احمد کی روایت ہے
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر کو نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی ۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، یہ کیا ہے ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کررہا ہوں
اسکی سند کا راوی عمار بن أبي عمار مولى بني هاشم مختلف فیہ ہے
اس روایت کے سند پر شیخ شعیب الارناؤط مسند احمد، ج 4، ص 59 پر کچھ یوں حکم لگاتے ہیں
إسناده قوي على شرط مسلم
یہ سند امام مسلم کی شرائط کے مطابق مضبوط ہے
شیخ احمد شاکر اسے مسند احمد پر اپنی تحقیق کے ج 4، ص 26 پر صحیح سند قرار دیتے ہیں
مستدرک امام حاکم، ج 4، ص 439 پر امام حاکم اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیتے ہیں۔ اور علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ یہ امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے
حافظ ہیثمی اس روایت کو اپنی مجمع الزوائد، ج 9، ص 194 پر درج کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام احمد کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں
ابن کثیر اسے اپنی البدایہ و النہایہ ج 8، ص 200 پر درج کرتے ہیں، اور فرماتے ہیں
تَفَرَّدَ بِهِ أَحْمَدُ وَإِسْنَادُهُ قَوِيٌّ
اس کی سند قوی ہے
شیخ البانی اسے مشکاۃ المصابیح، ج 3، ص 1741 پر صحیح قرار دیتے ہیں
جس عمار بن ابی عمار کو یہ متنازع بنا رہے ہیں، اس کو امام احمد ثقہ ثقہ قرار دے چکے ہیں۔ جی جناب، دو دفعہ ثقہ کہا۔ ملاحظہ ہو موسوعۃ اقوال امام احمد، فی رجال الحدیث و عللہ، ج 3، ص 56
نیز، مزی اپنی تہذیب الکمال، ج 21، ص 198 پر درج کرتے ہیں کہ یہ امام مسلم کے راوی ہیں۔ نیز ابو زرعہ، ابو حاتم، ابن حبان نے انہیں ثقہ کہا
دیگر علماء ان کی روایات کے متعلق کیا کہتے ہیں، وہ آپ ملاحظہ کر ہی چکے ہیں
روایت نمبر 2
موصوف مزید لکھتے ہیں
طبرانی روایت کرتے ہیں کہ عَمَّارِ بنِ أَبِي عَمَّارٍ کہتا ہے کہ
حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ: عَنْ عَمَّارِ بنِ أَبِي عَمَّارٍ؛ سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ تَقُوْلُ
سَمِعْتُ الجِنَّ يَبكِيْنَ عَلَى حُسَيْنٍ، وَتَنُوحُ عَلَيْهِ
ام سلمہ کو سنا میں نے ایک جن کو سنا جو حسین پر نوحہ کر رہا تھا
جبکہ ام سلمہ تو حسین کی شہادت سے پہلے وفات پا چکی ہیں
اب ذرا اس روایت کے متعلق دیکھیں کہ علمائے اہلسنت کیا کہتے ہیں
ہیثمی اسے اپنی مجمع الزوائد، ج 9، ص 199 پر اسے درج کرتے ہیں اور کہتے ہیں
رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح
طبرانی نے اس کی روایت کی، اور اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں
ابن کثیر اپنی البدایہ و النہایۃ، ج 6، ص 231 پر درج کرتے ہیں
وَقَدْ رَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عمارة عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّهَا سَمِعَتِ الْجِنَّ تَنُوحُ عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ وَهَذَا صَحِيحٌ
ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے جنوں کو امام حسین پر نوحہ کرتے سنا، اور یہ صحیح ہے
یہ روایت المطالب العالیہ، ج 16، ص 190 پر بھی ہے، اور کتاب کے محقق، عبداللہ بن ظافر نے اس صحیح قرار دیا ہے
اب یہ مستند روایت بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ بی بی ام سلمہ امام حسین کی شہادت کے وقت موجود تھیں۔ کسی کو اگر اس پر اعتراض ہے، تو اسے کوئی مستند روایت پیش کرنی ہو گی جو یہ ثابت کر سکے کہ ان کا اس وقت انتقال ہو چکا تھا۔ صرف مولویوں کی رائے پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں
علامہ ذہبی اپنی سیر اعلام نبلاء، ج 2، ص 210 پر لکھتے ہیں
وفي " صحيح مسلم " : أن عبد الله بن صفوان دخل على أم سلمة في خلافة يزيد .
وبعضهم أرخ موتها في سنة تسع وخمسين فوهم أيضا ، والظاهر وفاتها في سنة إحدى وستين رضي الله عنها .
وبعضهم أرخ موتها في سنة تسع وخمسين فوهم أيضا ، والظاهر وفاتها في سنة إحدى وستين رضي الله عنها .
صحیح مسلم میں ہے کہ عبداللہ بن صفوان بی بی ام سلمہ سے یزید کی خلافت میں ملا، اور کچھ مورخین نے کہا کہ ان کی موت 59 ھ میں ہوئی، مگر یہ وہم ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ وہ 61 ھ میں فوت ہوئیں
یاد رہے کہ جس روایت کا تذکرہ علامہ ذہبی کر رہے ہیں، وہ مستدرک امام حاکم، ج 4، ص 475 پر بھی موجود ہے۔ امام حاکم نے اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا، اور علامہ ذہبی نے اسے تسلیم کیا
نیز یہ روایت صحیح ابن حبان، ج 15، ص 157 پر بھی موجود ہے۔ اور محقق شیخ شعیب الارناؤط نے اسے امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا
اب مستند روایات تو یہ کہہ رہی ہے کہ بی بی ام سلمہ اس وقت موجود تھیں، اور یہ ناصبی یہ ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ جناب وہ تو پہلے انتقال کر چکی تھیں
قارئین فیصلہ کر لیں کہ کس کی بات ماننی ہے
روایت نمبر 3
مزید لکھتے ہیں
تاریخ دمشق ابن عساکر کی روایت ہے
أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا أبو محمد الحسن بن علي إملاء ح
وأخبرنا أبو نصر بن رضوان وأبو غالب أحمد بن الحسن وأبو محمد عبد الله بن محمد قالوا أنا أبو محمد الحسن بن علي أنا أبو بكر بن مالك أنا إبراهيم بن عبد الله نا حجاج نا حماد عن أبان عن شهر بن حوشب عن أم سلمة قالت كان جبريل عند النبي (صلى الله عليه وسلم) والحسين معي فبكى فتركته فدنا من النبي (صلى الله عليه وسلم) فقال جبريل أتحبه يا محمد فقال نعم قال جبرائيل إن أمتك ستقتله وإن شئت أريتك من تربة الأرض التي يقتل بها فأراه إياه فإذا الأرض يقال لها كربلا
شہر بن حوشب کہتا ہے کہ ام سلمة رضی الله عنہا نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور حسین ان کے ساتھ تھے پس وہ روئے…جبریل نے بتایا کہ اپ کی امت اس بچے کو قتل کرے گی اور اپ چاہیں تو میں وہ مٹی بھی دکھا دوں جس پر قتل ہونگے پس اپ صلی الله علیہ وسلم کو زمین دکھائی اور اپ نے اس کو كربلا کہا
ان دونوں روایات میں کی سند میں شہر بن حوشب ہے
النَّسَائِيُّ کہتے ہیں : لَيْسَ بِالقَوِيِّ، قوی نہیں .
ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں: لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، وَلاَ يُتَدَيَّنُ بِحَدِيْثِهِ اس کی حدیث ناقابل دلیل ہے.
أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ کہتے ہیں: وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ، اس کی حدیث نا قابل دلیل ہے .
يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ: ثِقَةٌ کہتے ہیں.
عَبْدِ اللهِ بنِ عَوْنٍ، قَالَ: إِنَّ شَهْراً تَرَكُوْهُ اس کو متروک کہتے ہیں
الذھبی کہتے ہیں اس کی حدیث حسن ہے اگر متن صحیح ہو اور اگر متن صحیح نہ ہو تو اس سے دور رہا جائے کیونکہ یہ ایک احمق مغرور تھا
اچھا پہلے ہم روایت پر بات کر لیں۔ روایت یوں ہے کہ حضرت جبرئیل نے نبی پاک کو بتایا کہ آپ کی امت امام حسین کو قتل کرے گی، اور پھر وہ کربلا سے مٹی لے کر آئے
مزے کی بات یہ کہ شیخ ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب،سلسلہ احادیث صحیحیہ کے جلد 2، صفحہ 464 پر یہ حدیث باب کے طور پر لکھی
821 - " أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام، فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا (يعني
الحسين) ، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربة من تربته حمراء ".
الحسين) ، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربة من تربته حمراء ".
جبریل میرے پاس آئے اور خبر دی کہ میری امت میرے اس بیٹے یعنی حسین کو قتل کرے گے۔ اور پھر میرے لیے سرخ مٹی لے کر آئے
اگلا باب انہوں نے اس حدیث کے ساتھ باندھا
822 - " لقد دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا: حسين
مقتول وإن شئت أريتك من تربتة الأرض التي يقتل بها ".
مقتول وإن شئت أريتك من تربتة الأرض التي يقتل بها ".
ایک فرشتہ گھر میں داخل ہوا، جب پہلے کبھی داخل نہیں ہوا تھا۔ اور اس نے کہا کہ آپ کا یہ بیٹا حسین قتل ہو گا۔ اگر آپ چاہیں، تو میں آپ کو وہاں کی مٹی لا کر دکھا سکتا ہوں
اسی طرح کی ایک روایت مسند احمد، ج 44، ص 144 پر ہے۔ شیخ شعیب نے اسے حسن حدیث قرار دیا
نیز فضائل الصحابہ، از امام احمد بن حنبل، ج 2، ص 965، روایت 1357 پر بھی ہے
اور کتاب کے محقق وصی اللہ بن محمد عباس نے سند کو صحیح قرار دیا
جلد 3، صفحہ 159 پر شیخ البانی اس حدیث سے باب قائم کرتے ہیں
1171 - " قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات ".
جبریل میرے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کہ امام حسین کو فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا
یاد رہے کہ ان ساری احادیث پر شیخ البانی نے بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ مستند ہے
میں تو صرف آپ کو اس کا لب لباب دے رہا ہوں تاکہ نواصب کی حقیقت آشکارہ ہو
ایک روایت علامہ ہیثمی کی جانب سے بھی ھدیے کے طور پر قبول کر لیں
مجمع الزوائد، ج 9، ص 120 پر تحریر کرتے ہیں
15116- عن أم سلمة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال: “لا يدخل علي أحد”. فانتظرت فدخل الحسين، فسمعت نشيج رسول الله صلى الله عليه وسلم يبكي، فاطلعت فإذا حسين في حجره والنبي صلى الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي، فقلت: والله ما علمت حين دخل، فقال: “إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت فقال: أفتحبه؟ قلت: أما في الدنيا فنعم، قال: إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها: كربلاء، فتناول جبريل من تربتها”. فأراها النبي صلى الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل
ص.303
قال: ما اسم هذه الأرض؟ قالوا: كربلاء، فقال: صدق الله ورسوله، كرب وبلاء.
15117- وفي رواية: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء.
رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.
ص.303
قال: ما اسم هذه الأرض؟ قالوا: كربلاء، فقال: صدق الله ورسوله، كرب وبلاء.
15117- وفي رواية: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء.
رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.
بی بی ام سلمہ کہتی ہیں کہ ایک دن نبی اکرم میرے گھر میں بیٹھے تھے۔ مجھ سے کہا کہ کسی کو میرے پاس نہ آنے دو۔ پھر امام حسین اندر چلے گئے۔ میں نے نبی اکرم کے رونے کی آواز سنی۔ میں داخل ہوئی، اور کہا کہ مجھے علم نہیں کہ یہ کب داخل ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ جبریل میرے پاس اس گھر میں تھے۔ اور مجھ سے پوچھا کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ اس دنیا میں ہاں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی امت ان کق کربلا نامی زمین میں قتل کر دے گی۔ پھر جبریل وہاں سے مٹی لائے۔ پھر جب امام حسین قتل ہونے لگے تو انہوں نے پوچھا کہ اس زمین کا کیا نام ہے؟ بتایا گیا: کربلا۔ انہوں نے کہا اللہ و رسول نے سچ کہا، کرب و بلا
اور دوسری روایت میں ہے کہ رسول نے سچ کہا کرب و بلا
طبرانی نے اسے مختلف سندوں کے ساتھ لکھا، اور ایک کے راوی ثقہ ہیں
تو جناب! یہ ہے ان کے علماء کے اقوال۔ اور دوسری طرف یہ نواصب ہیں کہ کسی بھی صورت دھوکہ دینے کو موڈ میں ہیں
جہاں تک سوال ہے شہر ابن حوشب کا،
تو بڑے بڑے علماء نے انہیں ثقہ کہا
ابن حجر اپنی تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں کہ یہ امام مسلم، اور 4 کتب یعنی ابن ماجہ، ابی داود، نسائی، اور ترمذی کے راوی ہیں۔ نیز امام بخاری کا قول نقل کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ شہر ابن حوشب حسن الحدیث ہیں، اور اپنے امر میں قائم ہیں۔ یحیی ابن معین نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں۔ عجلی نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں۔ یعقوب ابن شیبہ نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں۔ یعقوب بن سفیان نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں۔ ابو زرعہ نے کہا ان میں کوئی برائی نہیں۔ امام احمد نے کہا کہ کوئی برائی نہیں
اسی طرح انہوں نے خود نسائی کا قول لکھا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ
لیس بالقوی
تھے
یاد رہے کہ لیس بالقوی اور لیس بقوی میں فرق ہے
لیس بالقوی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ راوی ضعیف ہے
مشہور عالم، معلمی اپنی کتاب التنكيل لما في تأنيب الكوثري من أباطيل، ج 1، ص 442 پر لکھتے ہیں
أقول: عبارة النسائي: «ليس بالقوي» وبين العبارتين فرق لا أراه يخفي على
الأستاذ ولا على عارف بالعربية، فكلمة «ليس بقوي» تنفي القوة مطلقاً وأن لم
تثبت الضعف مطلقاً، وكلمة «ليس بالقوي» إنما تنفي الدرجة الكاملة من
القوة، والنسائي يراعي هذا الفرق فقد قال هذه الكلمة في جماعة أقوياء منهم
عبد ربه بن نافع وعبد الرحمن بن سليمان بن الغسيل فبين ابن حجر في ترجمتيها
من (مقدمة الفتح) أن المقصود بذلك أنهما ليسا في درجة الأكابر من أقراهما،
وقال في ترجمة الحسن بن الصباح:
«وثقه أحمد وأبو حاتم، وقال النسائي: صالح، وقال في الكنى: ليس بالقوي. قلت: هذا تليين هين، وقد روى عنه البخاري وأصحاب (السنن) إلا ابن ماجة ولم يكثر عنه البخاري» .
«وثقه أحمد وأبو حاتم، وقال النسائي: صالح، وقال في الكنى: ليس بالقوي. قلت: هذا تليين هين، وقد روى عنه البخاري وأصحاب (السنن) إلا ابن ماجة ولم يكثر عنه البخاري» .
میں کہتا ہوں کہ نسائی کے لیس بالقوی کہنے، اور لیس بقوی کہنے میں فرق ہے---لیس بقوی راوی کی قوت کی مکمل نفی کرتا ہے، مگر اس میں قطعی ضعف ثابت نہیں کرتا، جبکہ لیس بالقوی کامل قوت کے درجے سے راوی کی نفی کرتا ہے۔ نسائی ان دونوں لفظوں میں فرق کرتے تھے، اور اس وجہ سے اس جماعت کے لیے بھی استعمال کیا جو کہ کافی قوی تھے جیسے کہ عبد ربہ، عبدالرحمن----۔
آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ جب آپ کسی کے بارے میں کہیں لیس بالقوی، اس سے یہ سامنے آتا ہے کہ وہ اس قدر بھی قوی نہیں،
اگرچہ ثقہ ہے، مگر اس درجے تک قوت کے نہیں پہنچاتا
لیس بقوی قوت کی مکمل نفی کر دیتا ہے
علامہ زہبی نے ایک کتاب لکھی، ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق
، یعنی وہ لوگ کہ جن کے بارے میں کلام کیا گیا، مگر وہ ثقہ ہیں
، یعنی وہ لوگ کہ جن کے بارے میں کلام کیا گیا، مگر وہ ثقہ ہیں
اس کے صفحہ 100، راوی نمبر 161 پر انہوں نے شہر بن حوشب کا نام درج کیا
نیز، ابن حجر نے انہیں اپنی تقریب التہذیب، ج 1، ص 269 پر صدوق مگر وہمی کہا
خیر، جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے، آپ البانی کی کتاب پڑھ لیں، اس میں کئی سندیں درج ہیں کہ جن میں شہر ابن حوشب نہیں ہے
روایت نمبر 4
یہ روایت درج کرتے ہیں
مسند احمد ج ١ ص ٨٥ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُدْرِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَارَ مَعَ عَلِيٍّ، وَكَانَ صَاحِبَ مِطْهَرَتِهِ، فَلَمَّا حَاذَى نِينَوَى وَهُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَى صِفِّينَ، فَنَادَى عَلِيٌّ: اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، بِشَطِّ الْفُرَاتِ قُلْتُ: وَمَاذَا قَالَ؟، دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعَيْنَاهُ تَفِيضَانِ، قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَغْضَبَكَ أَحَدٌ، مَا شَأْنُ عَيْنَيْكَ تَفِيضَانِ؟ قَالَ: «بَلْ قَامَ مِنْ عِنْدِي جِبْرِيلُ قَبْلُ، فَحَدَّثَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ» قَالَ: فَقَالَ: «هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ أُشِمَّكَ مِنْ تُرْبَتِهِ؟» قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ. فَمَدَّ يَدَهُ، فَقَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ فَأَعْطَانِيهَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ أَنْ فَاضَتَا
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس گیا تو (دیکھا) آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! کیا کسی نے آپ کو ناراض کردیا ہے ؟ آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہہ رہے ہیں؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : بلکہ میرے پاس ابھی جبریل (علیہ السلام) اُٹھ کر گئے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا۔
سند میں عَبْدِ الله بْنِ نُجَيٍّ ہے جس کے امام بخاری فیہ نظر کہتے ہیں
اسی الفاظ سے ابن عدی کہتے ہیں من الحديث وأخباره فيها نظر اپنی حدیث اور خبر میں
فیہ نظر ہے
دیکھتے ہیں کہ علمائے اہلسنت اس روایت کے متعلق کیا کہتے ہیں
شیخ احمد شاکر مسند احمد ، ج 1، ص 446 پر درج کرتے ہیں
یہ سند صحیح ہے۔ ہیثمی نے اسے مجمع الزوائد، ج 9، ص 187 پر لکھا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ احمد، ابو یعلی، بزار اور طبرانی نے اس کی روایت کی۔ اس کے راوی ثقہ ہیں، اور نجی اس کی روایت میں منفرد نہیں
یعنی 2 علماء نے تو اسے مستند مان لیا
مسند ابو یعلی کے محقق، شیخ حسین سلیم اسد نے بھی مسند ابو یعلی، ج 1، ص 297 پر سند کو حسن قرار دیا
اب ہو گئے 3
علامہ شوکانی نے اپنی کتاب در السحابہ، ص 297 پر لکھا کہ اس کے راوی ثقہ ہیں
گویا 4 علمائے اہلسنت کے مطابق یہ روایت مستند ہے
جہاں تک عبداللہ بن نجی پر ان کا اعتراض ہے، تو یاد رہے کہ ان کو عجلی انے اپنی الثقات، صفحہ 282 پر درج کیا۔ گویا ان کی نظر میں ثقہ تھے۔ نیز ابن حبان نے بھی انہیں اپنی الثقات، ج 5، ص 30 پر درج کیا۔
ابن حجر نے کچھ یوں لکھا
3664- عبد الله ابن نجي بنون وجيم مصغر ابن سلمة الحضرمي الكوفي أبو لقمان صدوق من الثالثة د س ق
یعنی یہ سچے تھے
جہاں تک یہ کہنا کہ فیہ نظر جرح کے لیے استعمال ہوتی ہے
یہ بھی یاد رکھیں کہ جرح اگر مفسر نہ ہو، تو تعدیل کو اہمیت دی جاتی ہے
یعنی
آپ صرف کسی کو ضعیف بھی کہہ دیں،تو فائدہ تب ہی دے گا جب آپ وجہ بھی بیان کریں کہ کیوں ضعیف ہے۔ آیا حافظہ ٹھیک نہیں، جھوٹ بولتا ہے
آخر وجہ کیا ہے
اسے جرح مفسر کہتے ہیں
اسی وجہ سے شاید ابن حجر نے ان کی جرح کو کوئی اہمیت نہیں دی
اگرچہ اس بحث میں پڑنے کی ہمیں زیادہ ضرورت اس وجہ سے بھی نہیں کہ ہم پہلے ہی 4 علماء کا قول درج کر چکے ہیں
روایت نمبر 5
انہوں نے یہ روایت بھی درج کی
باقی انہوں نے وہی حرکت کی، کہ چند علماء کی جرح پیش کی۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ مجوعی طور پر علماء کا کیا بیان ہے۔
محمد بن خالد الضبی کو صرف ابن حجر نے ہی نہیں، بلکہ علامہ ذہبی نے بھی صدوق مانا ہے۔ ملاحظہ ہو، الکاشف، ج 2، ص 168
اگر الازدی کی جرح اتنی ہی اہم تھی، پھر 2 اہم علمائے رجال نے اسے توجہ کیوں نہ دی؟
سعید بن خثیم کو لے بھی انہوں نے وہی ڈرامہ رچایا
اگر آپ ابن حجر کے تہذیب التہذیب اٹھا کر دیکھیں، وہ لکھتے ہیں
قال بن الجنيد عن بن معين كوفي ليس به بأس ثقة
ابن معین نے کہا کہ ان میں کوئی برائی نہیں، یہ ثقہ ہیں
وقال أبو زرعة لا بأس به وقال النسائي ليس به بأس وذكره بن حبان في الثقات وصحح الترمذي حديثه في وداع السفر قلت وقال العجلي هلالي كوفي ثقة
ابو زرعہ نے کہا کہ ان میں کوئی برائی نہیں، نسائی نے کہا کہ کوئی برائی نہیں، ابن حبان نے ان کو ثقہ راویوں میں شمار کیا۔ عجلی نے انہیں ثقہ کہا۔ ترمذی نے ان کی حدیث کو صحیح کہا
ملاحظہ کیا آپ لوگوں نے کہ کس طرح سے یہ ناصبی جھوٹ بولنے کے در پے ہیں
بس کسی طرح کوئی ذرا ضعف نکالے، اور یہ صرف اسی کو پیش کر کے اپنا ڈرامہ رچا دیں
پھر انہوں نے محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کا نام لکھ ڈالا
جب کہ سند میں عثمان بن ابی شیبہ ہے
اور ان کے متعلق علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال، ج 3، ص 35 پر یوں لکھا
5518 -[صح] عثمان بن أبي شيبة [خ، م، د، ق] ، أبو الحسن، أحد أئمة الحديث الاعلام كأخيه أبي بكر.
یعنی
خ اور م جو بریکٹ میں لکھی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔ د اور ق کا مطلب ہے سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ کے راوی ہیں
اور علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ یہ اپنے بھائی ابو بکر کی طرح حدیثوں کے امام ہیں
کمال ہے
انہوں نے اپنے مقصد کے لیے اپنے امام کو بھی نہیں چھوڑا
خلاصہ کلام
ان نواصب نے جو روایات لکھی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں کئی کے متن تو شیخ البانی نے اپنی سلسلہ احادیث الصحیحیہ میں درج کر ڈالیں
انہوں نے یہ روایت بھی درج کی
طبرانی الکبیر میں قول ہےاب دلچسپ بات یہ ہے، کہ معجم الکبیر، ج 3، ص 112 کی جس روایت کو یہ ضعیف ثابت کرنے کے در پے ہیں، اسی روایت کو مشہور وہابی عالم، عثمان الخمیس نے اپنی کتاب، آئینہ ایام تاریخ کے صفحہ 181 پر صحیح سند قرار دیا ہے۔ کمال ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: لَوْ كُنْتُ فِيمَنْ قَتَلَ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ، ثُمَّ غُفِرَ لِي، ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ، اسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَمُرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْظُرَ فِي وَجْهِي
ابراہیم بن یزید النخعی نے فرمایا:اگر میں ان لوگوں میں ہوتا جنہوں نے حسین بن علی کو قتل (شہید) کیا، پھر میری مغفرت کردی جاتی ، پھر میں جنت میں داخل ہوتا تو میں نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس گزرنے سے شرم کرتا کہ کہیں آپ میری طرف دیکھ نہ لیں۔
اس کی سند میں مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الضَّبِّيِّ ہے – الأزدي اس کو منكر الحديث کہتے ہیں ابن حجر صدوق کہتے ہیں
اسکی سند میں سعيد بن خثيم بن رشد الهلالى ہے جس ابن حجر ، صدوق رمى بالتشيع له أغاليط شیعیت میں مبتلا اور غلطیوں سے پر ہے ، کہتے ہیں
سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ، أَبُو مَعْمَرٍ الْهِلالِيُّ الْكُوفِيّ اور اس کے استاد خالد دونوں کوالازدی نے منکر الحدیث کہا ہے
دیکھئے ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين از الذھبی
راویوں کا ہر قول نہیں لیا جاتا یہی وجہ ہے ابن عدی کہتے ہیں
سعيد بن خثيم الهلالي: قال الأزدي: منكر الحديث، وقال ابن عدي: مقدار ما يرويه غير محفوظ.
بہت کچھ جو سعید روایت کرتا ہے غیر محفوظ ہے
سند میں محمد بن عثمان بن أبي شيبة بھی ہے جس کو کذاب تک کہا گیا ہے دیکھئے میزان الاعتدال
از الذھبی
عبد الله بن أحمد بن حنبل فقال: كذاب.
وقال ابن خراش: كان يضع الحديث.
وقال مطين: هو عصا موسى تلقف ما يأفكون.
باقی انہوں نے وہی حرکت کی، کہ چند علماء کی جرح پیش کی۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ مجوعی طور پر علماء کا کیا بیان ہے۔
محمد بن خالد الضبی کو صرف ابن حجر نے ہی نہیں، بلکہ علامہ ذہبی نے بھی صدوق مانا ہے۔ ملاحظہ ہو، الکاشف، ج 2، ص 168
اگر الازدی کی جرح اتنی ہی اہم تھی، پھر 2 اہم علمائے رجال نے اسے توجہ کیوں نہ دی؟
سعید بن خثیم کو لے بھی انہوں نے وہی ڈرامہ رچایا
اگر آپ ابن حجر کے تہذیب التہذیب اٹھا کر دیکھیں، وہ لکھتے ہیں
قال بن الجنيد عن بن معين كوفي ليس به بأس ثقة
ابن معین نے کہا کہ ان میں کوئی برائی نہیں، یہ ثقہ ہیں
وقال أبو زرعة لا بأس به وقال النسائي ليس به بأس وذكره بن حبان في الثقات وصحح الترمذي حديثه في وداع السفر قلت وقال العجلي هلالي كوفي ثقة
ابو زرعہ نے کہا کہ ان میں کوئی برائی نہیں، نسائی نے کہا کہ کوئی برائی نہیں، ابن حبان نے ان کو ثقہ راویوں میں شمار کیا۔ عجلی نے انہیں ثقہ کہا۔ ترمذی نے ان کی حدیث کو صحیح کہا
ملاحظہ کیا آپ لوگوں نے کہ کس طرح سے یہ ناصبی جھوٹ بولنے کے در پے ہیں
بس کسی طرح کوئی ذرا ضعف نکالے، اور یہ صرف اسی کو پیش کر کے اپنا ڈرامہ رچا دیں
پھر انہوں نے محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کا نام لکھ ڈالا
جب کہ سند میں عثمان بن ابی شیبہ ہے
اور ان کے متعلق علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال، ج 3، ص 35 پر یوں لکھا
5518 -[صح] عثمان بن أبي شيبة [خ، م، د، ق] ، أبو الحسن، أحد أئمة الحديث الاعلام كأخيه أبي بكر.
یعنی
خ اور م جو بریکٹ میں لکھی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔ د اور ق کا مطلب ہے سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ کے راوی ہیں
اور علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ یہ اپنے بھائی ابو بکر کی طرح حدیثوں کے امام ہیں
کمال ہے
انہوں نے اپنے مقصد کے لیے اپنے امام کو بھی نہیں چھوڑا
خلاصہ کلام
ان نواصب نے جو روایات لکھی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں کئی کے متن تو شیخ البانی نے اپنی سلسلہ احادیث الصحیحیہ میں درج کر ڈالیں
اور میرے خیال میں کسی بھی غیر جانبدار شخص کے لیے یہی کافی ہے
ایک ادھی سند میں ضعف ہونے سے روایت کو فرق نہیں پڑتا اگر وہ روایت دوسری معتبر سند کے ساتھ موجود ہو
ان نواصب نے یہی کیا کہ ایک سند لی، اس میں ایک ادھا راوی دیکھا، اور نعرہ لگا دیا
خیر ہمارا مقصد وہ لوگ ہیں جو حق جاننا چاہتے ہیں، اور اسی مقصد سے یہ مقالہ لکھا گیا
دعاؤں میں یاد رکھیے گا
Slave of AhluBait
No comments:
Post a Comment