Wednesday, October 14, 2015

کیا یزید بن معاویہ امام حسین کی شہادت پر رویا، اور پسماندگان کی ہر خواہش پوری کی؟

السلام علیکم 

آج ایک ناصبی بنام کفایت اللہ کا مقالہ نظر سے گذرا۔ اس پر میں نے سوچا کہ کچھ لکھا جائے

موصوف نے اپنے مقالے کا نام رکھا 

شہادت حسین رضی اللہ عنہ پریزیدبن معاویہ کا رونا اور پسماندگان کی ہرخواہش پوری کرنا بسندصحیح

 موصوف نے ایک روایت درج کی، جس کی سند کچھ یوں ہے

امام ذہبی رحمه الله (المتوفى774)نے امام مدائنى کی روایت مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:
وقال المدائني عن إبراهيم بن محمد ، عن عمرو بن دينار : حدثني محمد بن علي بن الحسين ، عن أبيه

اور اس پر اپنا ذاتی حکم کچھ یوں لگا ڈالا

تاريخ الإسلام ت بشار 2/ 583 واسنادہ صحیح

جب سند کی وضاحت کرنے لگے، تو ابراہیم بن محمد کے بارے میں یوں رقمطراز ہوئے 

إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب
آپ ابن ماجہ کے رجال میں سے ہیں آپ پربھی کسی محدث نے کوئی جرح نہیں کی اور ابن حبان رحمہ اللہ نے آپ کو ثقہ کہا ہے چنانچہ:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 6/ 4]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق
آپ سچے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم239]۔

 یعنی ایک بات تو انہوں نے واضح کر دی کہ متقدمین میں صرف ایک ابن حبان ہی نے انہیں ثقات میں شمار کیا۔ وگرنہ موصوف ذکر کر دیتے 

کیونکہ وہ  یزید کے دفاع میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں

خود موصوف کہتے ہیں

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أخبرنا علي بن محمد. عن إبراهيم بن محمد. عن زيد بن أسلم. قال: دخل رجل على الحسن بالمدينة وفي يده صحيفة فقال: ما هذه؟ قال: من معاوية يعد فيها ويتوعد. قال: قد كنت على النصف منه.[الطبقات الكبرى ، متمم الصحابة ، الطبقة الخامسة 1/ 332]۔

یہ روایت بھی امام علي بن محمد المدائنی عن ابراہیم بن محمد کے طریق سے ہے اور اس روایت کی سند کو طبقات ابن سعد کے محقق نے إسناده حسن کہا ہے اور اس کے رجال کا تعارف کراتے ہوئے لکھا:
علي بن محمد هو المدائنی ۔ إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب. صدوق [الطبقات الكبرى،متمم الصحابة، الطبقة الخامسة 1/ 332]

 یعنی ایک بات تو ثابت ہو گئی، کہ جس سند کو یہ موصوف صحیح کہہ رہے ہیں، وہ کم از کم صحیح تو نہیں۔ کیونکہ طبقات ابن سعد کی روایت کے ایک روایت علی بن محمد مدائنی ثقہ ہیں، اور زید  بن اسلم بھی صحیح بخاری و مسلم کے راوی اور ثقہ ہیں

ایک رہ گئے ابراہیم بن محمد، تو اگر سند  حسن ہے، تو انہی کی وجہ سے ہوئی، نہ کہ باقی 2 کی وجہ سے، جو کہ ثقہ ہیں

دوسری بات یہ کہ یہاں پر طبقات الکبری کے محقق نے بھی ابن حجر کی تحقیق پر بھروسہ کیا ہے۔ جو کہ اس وجہ سے صحیح نہیں کہ صرف ابن حبان کی توثیق کبھی بھی راوی کو صدوق کی منزل پر لے کر نہیں جاتی- آپ کبھی بھی فضائل اہلبیت میں کوئی روایت صرف ابن حبان کی توثیق کے ساتھ کبھی ناصبیوں کے دکھایں، اور آگے سے یہی جواب آئے گا کہ جناب! یہ تو متساہل ہیں، اس وجہ سے ان کی توثیق کافی نہیں۔ متقدمین میں کسی اور کی توثیق دکھا دیں

کئی لوگوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ابن حبان ان لوگوں کو بھی ثقہ کہتے تھے جو کہ ہوتے مجہول تھے، مگر چونکہ وجہ جس سے روایت کرتے، اور جو ان سے روایت کرتے، وہ ثقہ ہوتے، اور روایت بھی  منکر نہ ہوتی، تو ابن حبان کے ہاں وہ ثقہ قرار پاتے۔ اور اس طرح کے کئی راوی ہیں کہ جو ان کی کتاب الثقات میں ہیںٓ- یہ بات ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے مشہور ویب سائٹ، اسلام ویب نے یہ لکھا 

وإذا لم يكن في الراوي المجهول الحال جرح ولا تعديل، وكان كل من شيخه والراوي عنه ثقة، ولم يأت بحديث منكر، فهو ثقة عنده، وفي كتاب الثقات له كثير ممن هذا حاله

 اس سی ملتی جلتی بات آپ کو فتح المغيث شرح ألفية الحديث لسخاوی، ج 1 ص 36؛ توجيه النظر إلى أصول الأثر - طاهر الجزائري الدمشقي ج 1، ص 345؛ قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث ج 1، ص 219؛ پر بھی ملے گی

ہاں!ابن حبان کے دفاع میں معلمی نے ایک قاعدہ بنایا، اور وہ کچھ یوں ہے کہ 

هذا وقد أكثر الأستاذ من رد توثيق ابن حبان، والتحقيق أن توثيقه على درجات،
الأولى: أن يصرح به كأن يقول «كان متقنا» أو «مستقيم الحديث» أو نحو ذلك.
الثانية: أن يكون الرجل من شيوخه الذين جالسهم وخبرهم.
الثالثة: أن يكون من المعروفين بكثرة الحديث بحيث يعلم أن ابن حبان وقف له على أحاديث كثيرة.
الرابعة: أن يظهر من سياق كلامه أنه قد عرف ذاك الرجل معرفة جيدة.
الخامسة: ما دون ذلك.

ملاحظہ ہو التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل، ج 2، ص 669

یاد رہے کہ یہ درجہ بندی ہمیں معلمی کی جانب سے مل رہی ہے۔ ان سے پہلے کسی کے ہاں نہیں۔ 

مگر چلیں مان لیتے ہیں، تو پھر بھی اس کا لب لباب یہ ہے کہ ابن حبان کی توثیق کے 5 درجے ہیں، اس میں پہلے درجے میں یہ ہے کہ وہ کسی کو متقنا یا مستقیم الحدیث کہہ دیں یا اس طرح کا کچھ اور۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ وہ ابن حبان کے اساتذہ میں ہو، اور ابن حبان ان کی مجالس میں بیٹھا ہو۔ تیسرا یہ کہ وہ معروف راوی ہو، کثرت کے ساتھ ان کی حدیثیں ہوں۔ چوتھا یہ کہ ابن حبان کے کلام سے یہ ثابت ہو کہ وہ ان کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ اور آخری یہ کہ جو اس سب میں نہ آئے

شیخ البانی نے اس آخری گروہ کے بارے میں کہا 

أنه قد ثبت لدي بالممارسة أن من كان منهم من الدرجة الخامسة فهو على الغالب مجهول لا يعرف

یعنی البانی کہہ رہے ہیں کہ جو شخص پانچویں طبقے کا ہو، وہ زیادہ تر مجہول ہوتا ہے کہ جس کو لوگ جانتے نہیں

اس سے بھی زیادہ آسان الفاظ خود اسی کفایت اللہ کے کچھ یوں ہیں 

ابن حبان صراحۃ کسی کو ثقہ کہیں یعنی اس طرح :
فلان ثقہ
یا
فلان مستقیم الحدیث
تو ایسی صورت میں ان کی منفرد توثیق معتبرہوگی۔
البتہ اگرکتاب الثقات میں محض کسی کا تذکرہ کریں‌ اور ساتھ میں توثیق کا صریح صیغہ استعمال نہ کریں تو ایسی توثیق غیرمعتبر ہوگی ۔

یعنی اب ہم نے صرف اتنا دیکھنا ہے کہ ابن حبان نے اپنی الثقات میں ان کا صرف تذکرہ کیا ہے، یہ ان کو ثقہ یا مستقیم الحدیث وغیرہ کہا ہے 

الثقات ابن حبان، ج 6، صفحہ 4 پر یوں لکھا ہے 

6470 - إِبْرَاهِيم بن مُحَمَّد بْن عَليّ بْن عَبْد اللَّه بْن جَعْفَر بْن أبي طَالب يروي عَن أَبِيه عَن عَائِشَة روى عَنهُ عبد الْعَزِيز بن مُحَمَّد الدَّرَاورْدِي
  کوئی توثیق کے الفاظ نہیں
نہ یہ ان کے شیوخ میں تھے، 
نہ کوئی ایسی بات کہ جس سے آپ کہہ سکیں کہ بہت اچھی طرح جانتے تھے
صرف ان کا تذکرہ کیا ہے

تو سوال یہ ہے 

کہ پھر یہاں پر یہ معتبر کیسے ؟؟؟؟؟

اور جب ایسا ہی نہیں، تو پھر سند صحیح کیونکر؟؟؟؟






No comments:

Post a Comment