السلام علیکم
سب سے پہلے تو ہم مسند احمد سے یہ روایت دیکھتے ہیں
کتاب کے اردو ترجمہ، ج ۱، ص ۵۳٦، ح ۱۳۰۴-۱۳۰۵ میں ۲ اسناد کے ساتھ یہ روایت درج ہے
حدثنا عبد الله ، حدثني نصر بن علي ، وعبيد الله بن عمر ، قالا : حدثنا عبد الله بن داود ، عن نعيم بن حكيم ، عن أبي مريم ، عن علي رضي الله عنه ، أن امرأة الوليد بن عقبة أتت النبي صلى الله عليه وسلم ، فقالت : يا رسول الله ، إن الوليد يضربها ، وقال نصر بن علي في حديثه : تشكوه ، قال : " قولي له : قد أجارني " ، قال علي : فلم تلبث إلا يسيرا حتى رجعت ، فقالت : ما زادني إلا ضربا ، فأخذ هدبة من ثوبه ، فدفعها إليها ، وقال : " قولي له : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أجارني " ، فلم تلبث إلا يسيرا حتى رجعت ، فقالت : ما زادني إلا ضربا ، فرفع يديه ، وقال : " اللهم عليك الوليد ، أثم بي مرتين " ، وهذا لفظ حديث القواريري ، ومعناهما واحد ، حدثنا عبد الله ، حدثني أبو بكر بن أبي شيبة ، وأبو خيثمة ، قالا : حدثنا عبيد الله بن موسى ، أخبرنا نعيم بن حكيم ، عن أبي مريم ، عن علي ، أن امرأة الوليد بن عقبة جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تشتكي الوليد أنه يضربها . . . ، فذكر الحديث .
ایک مرتبہ ولید بن عقبہ کے بیوی نبی پاک کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ یا رسول اللہ! ولید مجھے مارتا ہے۔ نبی پاک نے فرمایا کہ جا کر اسے کہو کہ نبی پاک نے مجھے پناہ دی ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ دوبارہ آ گئی، اور کہنے لگی کہ اب تو اس نے مجھے اور زیادہ مارنا پیٹا شروع کر دیا ہے- نبی پاک نے کپڑے کا ایک کونہ اسے دیا اور فرمایا کہ جا کر اسے کہو کہ نبی پاک نے مجھے پناہ دی ہے ۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد وہ پھر واپس آ گئی، اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ ! اب تو اس نے مجھے اور زیادہ مارنا شروع کر دیا ہے - اس پر نبی پاک نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا الہی! ولید سے سمجھ، اس نے ۲ بار میری نافرمانی کی ہے
اب یہاں پہلے تو ہم اس سند کی توثیق علمائے اہلسنت کی زبانی دیکھاتے ہیں
شیخ احمد شاکر نے اسے مسند احمد کی اپنی تحقیق، ج ۲، ص ۱۳۸-۱۳۹، ح ۱۳۰۳-۱۳۰۴ پر درج کیا، اور دوںوں ہی اسناد کو صحیح قرار دیا
علامہ ضیا مقدسی نے اسے اپنی الاحادیث المختارہ، ج ۲، ص ۳۳۲، ح ۷۱۰، پر درج کیا، اس طرح ثابت ہوا کہ وہ بھی اسے مستند مانتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کتاب میں صرف انہی روایت کو درج کیا جو ان کے نظر میں مستند تھیں
اور اس کتاب کے محقق، عبدالملک دہیش نے اس سند کو حسن قرار دیا
عبدالملک دہیش نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ علامہ ہیثمی نے اس روایت کے بارے میں اپنی کتاب، مجمع الزوائد، ۴/۳۳۲، میں یہ کہا ہے کہ سب راوی ثقہ ہیں- ییہی بات شیخ احمد شاکر نے بھی درج کی ہے
یہی روایت مسند ابو یعلی، ج ا، ص ۲۵۳، ح ۲۹۴، میں بھی موجود ہے، اور کتاب کے محقق، حسین سلیم اسد، نے سند کو حسن قرار دیا
ہم نے آپ کی خدمت میں ۵ علمائے اہلسنت کی تصریحات پیش کر دی ہیں
اب ہم آتے ہیں اس علمی خیانت کی جانب جو موجودہ زمانے میں موجود ایک اور مشہور عالم، شیخ شعیب الارناوط، نے کی ہے
موصوف نے مسند احمد میں اپنی تحقیق کے جلد ۲، صفحہ ۴۳۱-۴۳۲، روایت نمبر ۱۳۰۴-۱۳۰۴، میں دونوں ہی سندوں پر یہ حکم لگایا
(2) إسناده ضعيف كسابقه
یعنی پچھلی سندوں کی مانند ضعیف ہے
اور اردو مترجم نے یہی قول نقل کر ڈالا
اب ذرا ملاحظہ ہو کہ پچھلے سندوں میں کیا ضعف نکالا تھا جناب نے
روایت ۱۳۰۲ پر حضرت نے یہ حکم دیا تھا
(2) إسناده ضعيف لجهالة أبي مريم الثقفي، وضعف نعيم بن حكيم.
یہ سند ابو مریم ثقفی کے مجہول/نامعلوم ہونے، نیز نعیم بن حکیم کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے
اب کمال یہ ہے کہ خود اسی عالم نے ایک علم الرجال کی کتاب کی تالیف میں حصہ لیا، جس کا نام ہے، تحریر تقریب التہذیب۔ یہ کتاب بنیادی طور پر ابن حجر عسقلانی کی کتاب، تقریب التہذیب پر ان کی جانب سے تصحیح ہے
اب اس کتاب میں، جلد ۴، صفحہ ۲۱، پر نعیم بن حکیم کے بارے میں ابن حجر کا قول ملتا ہے کہ ابن حجر نے کہا یہ صدوق یعنی سچے ہیں، مگر ان کو وہم بہت ہوتے ہیں
گویا، ابن حجر نے نعیم بن حکیم کے اندر ایک ہلکی خرابی واضح کی
اب یہ کہتے ہیں
نہیں! یہ تو صدوق/سچے اور حسن الحدیث ہیں
گویا وہاں ان کو وہمی بھی نہ مانے
ادھر صحابی کا نام کیا آیا
نعیم بن حکیم ضعیف لگنے لگے
آگے، اسی جلد کے صفحہ ۲۷۰ پر ابو مریم الثقفی کے بارے میں ابن حجر کے قول کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں
ابو مریم ثقفی ثقہ ہیں، اور نسائی اور ابن حبان نے انہیں ثقہ کہا ہے
گویا، یہ سند خود انہی کے شرائط کے مطابق کم سے کم حسن درجے کی ہے
No comments:
Post a Comment