السلام علیکم
امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایک باب قائم کیا ہے
بَاب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ
یعنی ۲ نمازوں کو حضر (یعنی جب آپ سفر نہ کر رہے ہوں) میں جمع کرنا
اس میں ایک روایت درج کرتے ہیں
حدثنا أحمد بن يونس ، وعون بن سلام جميعا ، عن زهير ، قال ابن يونس : حدثنا زهير ، حدثنا أبو الزبير ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، قال : " صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، الظهر والعصر جميعا بالمدينة في غير خوف ، ولا سفر " ، قال أبو الزبير : فسألت سعيدا : لم فعل ذلك ؟ فقال : سألت ابن عباس ، كما سألتني ، فقال : أراد أن لا يحرج أحدا من أمته .
اس سے ملتی جلتی روایت کو ابن حبان نے اپنی صحیح، جلد ۴، ص ۴۷۱، پر درج کیا ہے۔ محقق شیخ شعیب الارناوط نے سند کو صحیح کہا ہے
نیز، اسی طرح کی روایت کو ابن خزیمہ نے اپنی صحیح، اردو ترجمہ، ج ۲، ص ۱۷۸، پر درج کیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی روایات ہیں، تاہم ہم اس پر اکتفا کرتے ہیں۔ جو لوگ چاہیں، وہ صحیح مسلم کی طرف رجوع کر لیں
خیر
ان روایات کو لے کر اہلسنت مختلف قسم کی توجیہات پیش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم نے سوچا کہ مشہور عالم، شیخ عبد الرحمن معلمی کی تحقیق پیش کی جائے
عبدالرحمن معلمی کا شمار اہلحدیث کی دنیا میں جید ترین علماء میں ہوتا ہے۔ مشہور اہلحدیث ویب سائٹ، ملتقی اہل الحدیث میں ان کا تعارف کچھ یوں کرایا گیا
هذه ترجمة مختصرة للحبر الرباني والناقد المحدث شيخ نقاد العصر الحديث الزاهد البحاثة الشيخ عبد الرحمن بن يحيى المعلمي اليماني
یہ مختصر ترجمہ ہے اللہ کی نشانی، نقاد، محدث، آج کے زمانے کے احادیث کے نقادوں کے شیخ، محققین کے زاہد، عبد الرحمن المعلمی الیمانی ۔۔۔۔۔۔
انہیں ذہبی العصر بھی کہا گیا ہے
موصوف اپنی کتاب، فوائد المجامیع، ص ۲۵۷، پر درج کرتے ہیں
في "الصحيح" (1) عن ابن عباس وأبي هريرة: "أن النبي - صلى الله عليه وسلم - جمع بأصحابه في المدينة بين الظهر والعصر، وبين المغرب والعشاء لغير عذر ولا سفر". وفي رواية: "ولا مطر".
صحیح میں ابن عباس اور ابو ہریرہ سے روایت آتی ہے کہ نبی پاک نے اصحاب کو جمع کرائی مدینہ میں ظہر اور عصر، اور مغرب اور عشاء بغیر کسی عذر اور سفر کے۔ نیز ایک اور روایت میں ہے بغیر بارش کے
پھر اس کے بعد لکھتے ہیں
فأخذ بهذا بعض التابعين وغيرهم. وتأوَّله الجمهور؛ فمنهم من تأوَّله بأنه كان لعذر. ورُدَّ بأن الصحابي قد قال: "بغير عُذرٍ"، وفعله ابن عبَّاس لغير عذر
کچھ تابعین نے اس پر عمل کیا۔ اور جمہور نے اس کی تاویل کی۔ اور ان میں کچھ نے یوں کہا کہ ان کے پاس عذر تھا۔ مگر اس کا جواب یہ ہے کہ صحابی نے کہ (بغیر عذر کے)۔ اور ابن عباس نے بھی اس پر بغیر عذر کے عمل کیا
پھر مختلف تاویلات درج کرتے ہیں، اور جواب دیتے ہیں
اور آخر میں یوں فیصلہ دیتے ہیں
فأقوى ما بيد الجمهور أن عمل النبي - صلى الله عليه وسلم - الغالبَ التوقيتُ، وعمل الأئمة مستمرٌّ عليه. ولكن غايته أن يكون الجمع مكروهًا فقط. وفَعَله - صلى الله عليه وسلم - لبيان الجواز، وتَرَكه الأئمةُ لكونه مكروهًا، فلا يلزم من هذا عدم الجواز. والله أعلم
سب سے قوی بات جو جمہور کے پاس ہے، وہ یہ کہ نبی پاک نے زیادہ تر وقت پر ہی نماز ادا کی۔ اور ائمہ نے بھی برابر اسی پر عمل کیا۔ مگر اس کی وجہ فقط یہ تھی کہ جمع کرنا مکروہ ہے - اور نبی پاک نے اسی وجہ سے اس پر عمل کیا تاکہ اس کا جائز ہونا واضح ہو۔ اور ائمہ نے اس وجہ سے اسے ترک کیا کہ یہ مکروہ ہے، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ جائز ہی نہیں
No comments:
Post a Comment