السلام علیکم
ایک روایت ملتی ملتی ہے ہمیں (الجزء الثاني من حديث يحيى بن معين الفوائد) صفحہ ۱۹٦؛ میں کہ
129 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ، قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَفِي يَدِهِ بُنْدُقَةٌ، فَقَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا هَذِهِ؟» قُلْنَا: لَا نَدْرِي، قَالَ: " لَكِنِّي أَدْرِي أَنَا صَنَعْتُهَا {أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ} [الملك: 14] "
راوی کہتا ہے کہ مولا علی باہر آئے، اور ان کے ہاتھ میں ایک فندق (خاص قسم کا پھل) تھا۔ پوچھا: تم لوگ جانتے ہو یہ کیا ہے؟ ہم نے کہ کہ نہیں- اس پر انہوں نے کہا: میں جانتا ہوں کہ اس کو میں نے بنایا ہے (کیا تم علم نہیں رکھتے ہے کس نے تخلیق کی، اور وہ لطیف و خبیر ہے)
کتاب کے محقق، خالد بن عبد الله السيت، اس سند کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
الاثر اسنادہ حسن
اس روایت کی سند حسن ہے
اس سند پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ ابن اسحاق مدلس راوی ہے، اور اس روایت میں ہمیں یہ معنعن حال میں مل رہا ہے
تاہم، یہ یاد رہے کہ ابن اسحاق کا ہبیرہ سے سماعت ثابت ہے۔ جیسا کہ مسند ابو داود طیالسی، جلد ۱، صفحہ ۱۱۲؛ پر آتا ہے
120 – حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ هُبَيْرَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،
اسی وجہ سے جید علمائے اہلسنت نے ابن اسحاق کے ہبیرہ سے معنعن روایت کو بھِی مستند مانا ہے
ایک مثال تو آپ اوپر ہی دیکھ چکے ہیں
اس کے علاوہ المقدسی نے اپنی کتاب، الاحادیث المختارہ، جلد ۲، صفحہ ۴۰۱-۴۰۲؛ حدیث ۷۸۹ اور ۷۹۱؛ میں ان کی معنعن روایت کو شامل کیا ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ المقدسی نے ان کو معتبر جانا
دوئم اس کتاب کے محقق، عبدالملک دہیش ہیں، اور انہوں نے سند کو صحیح مانا ہے
اس کے علاوہ مسند احمد، جلد ۲، صفحہ ۱۵٦؛ پر ایک روایت آتی ہے اس سند کے ساتھ
762 – حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَشُعْبَةُ، وَإِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هُبَيْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ،
اگر آپ توجہ دیں ، تو یہ سند اسرائیل-ابو اسحاق-ہبیرہ
کے ساتھ ہے، صرف یحیی ابن آدم نہیں ہیں؛ وگریہ وہی سند ہے جو کہ اس روایت کی ہے، جس سے ہم نے استدلال دیا ہے
شیخ شعیب الارناوط فرماتے ہیں
(1) إسناده حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير هبيرة- وهو ابن يَريم- فقد روى له أصحاب السنن، وهو حسن الحديث.
اس کی سند حسن ہے، راوی سارے ثقہ ہیں، اور شیخین کے ہیں سوائے ہبیرہ کے، اور یہ حسن الحدیث ہے
یاد رہے کہ یحیی ابن آدم بھی ثقہ ہیں، نیز شیخین یعنی بخاری و مسلم کے راوی ہیں
یاد رہے کہ مسند احمد کی روایت کو شیخ احمد شاکر نے صحیح مانا ہے
No comments:
Post a Comment