السلام علیکم
ابن حجر اپنی کتاب، المطالب العالیہ، جلد ۱٦، صفحہ ۱۰۱؛ پر ایک حدیث درج کرتے ہیں
3933 -[1] وَقَالَ أَبُو يَعْلَى: حدثنا الْقَوَارِيرِيُّ، ثنا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ، ثنا الْفَضْلُ بْنُ عَمِيرَةَ أَبُو قُتَيْبَةَ الْقَيْسِيُّ، حَدَّثَنِي مَيْمُونٌ [الْكُرْدِيُّ] أَبُو بَصِيرٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ الله عَنْه قَالَ: ” بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِذٌ بِيَدِي وَنَحْنُ نَمْشِي فِي بَعْضِ سِكَكِ الْمَدِينَةِ إِذْ أَتَيْنَا عَلَى حَدِيقَةٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَحْسَنُهَا مِنْ حَدِيقَةٍ! قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَكَ فِي الْجَنَّةِ أَحْسَنُ مِنْهَا ” حَتَّى مَرَرْنَا بِسَبْعِ حَدَائِقَ، كُلُّ ذَلِكَ أَقُولُ: مَا أَحْسَنُهَا! وَيَقُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَكَ فِي الْجَنَّةُ أَحْسَنُ مِنْهَا “، فَلَمَّا خَلَا لِي الطَّرِيقُ اعْتَنَقَنِي ثُمَّ أَجْهَشَ بَاكِيًا قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: مَا يُبْكِيكَ؟ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” ضَغَائِنُ فِي صُدُورِ أَقْوَامٍ لَا يُبْدُونَهَا إِلَّا مِنْ بَعْدِي “. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِي؟ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِكَ
مولا علی فرماتے ہیں کہ ایک بار نبی پاک نے میرا ہاتھ پکڑا، اور ہم مدینہ کی گلیوں میں سے گذرنے لگے۔ ایک باغ پر پہنچے تہ مولا نے کہا کہ کیا ہی خوبصورت باغ ہے۔ نبی پاک نے کہا کہ تمہارے لیے جنت میں اس سے بہتر ہے۔ پھر ۷ باغوں پر گئے- اور ہر باغ پر اسی طرح ہوا۔ اس کے بعد جب راستہ ختم ہوا، تو نبی پاک رونے لگے۔ مولا نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ نبی پاک نے کہا: لوگوں کے دل میں تمہارے لیے کدورتیں ہیں، جو میرے بعد ظاہر ہوں گی۔ مولا نے پوچھا: یا رسول اللہ! میرا دین تو سلامت رہے گا؟ جواب دیا: ہاں، تمہارا دین سلامت رہے گا
کتاب کے محقق، عبداللہ بن ظافر، اس روایت کے مختلف سندوں پر بحث کرتے کے بعد کہتے ہیں
لكن بمجموع هذه شواهد يرتقي الى رتبة الحسن ليغيره
مجموعی طور پر، یہ شواہد اس روایت کا رتبہ بڑھا کر اسے حسن لیغیرہ بنا دیتے ہیں
No comments:
Post a Comment