Monday, April 21, 2014

عائشہ نے عثمان کو قتل کیا اور حضرت علی کو بھی قتل کرنا چاہتی تھی؟

 
السلام علیکم
 
 
برادران ناصر حسین، الجابری الیمانی اور مرآۃ التواریخ کی تحقیق کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے- ان کی تحقیق کا آن لائن لنک ملاحظہ ہو
 
 
بلاذری اپنی کتاب، انساب الاشراف، جلد ۳، صفحہ ۴٦؛ پر درج کرتے ہیں کہ 
 
 
ابن حاطب کہتے ہیں کہ میں علی علیہ السلام کے ساتھ  عائشہ کے ہودج کے قریب آیا: اس وقت یہ ہودج تیروں کی بوچھار سے خاردار چوہے کی طرح لگ رہا تھا۔تو علی علیہ السلام نے اس ہودج کو مارا اور کہا:یہ حمیراء (عائشہ) ہے ، اس پر تیر چلاؤ ! یہ مجھے قتل کرناچاہتی ہے جس طرح اس نے عثمان کو قتل کیا ۔ عائشہ کے بھائی محمد نے اماں عائشہ سے پوچھا: آپ کو کوئی تیرلگا تو نہیں؟ عائشہ نے کہا: میرے بازو میں ایک تیر پیوست ہے۔پھر محمد بن ابی بکر نے اپنا سر ھودج میں داخل کیا اور عائشہ کو اپنی طرف کھینچ کرتیر نکال دیا۔
 
 
عربی متن یوں ہے


Quote
 
وحدثني أحمد بن إبراهيم الدورقي، حدثنا أبو النضر، حدثنا إسحاق بن سعيد، عن عمرو بن سعيد، حدثني سعيد بن عمرو: عن ابن حاطب قال: أقبلت مع علي يوم الجمل إلى الهودج وكأنه شوك قنفذ من النبل، فضرب الهودج؛ ثم قال: إن حميراء إرم هذه أرادت أن تقتلني كما قتلت عثمان بن عفان. فقال لها أخوها محمد: هل أصابك شيء ؟ فقالت: مشقص في عضدي. فأدخل رأسه ثم جرها إليه فأخرجه 
 

 
 
اس سند کے راویان کی وضاحت پیش خدمت ہے
 
 
أحمد بن ابراهيم الدورقي کا نام، أحمد بن إبراهيم بن كثير بن زيد بن أفلح بن منصور بن مزاحم العبدى ہے، یہ مسلم، ابی داود، ترمذی اور ابن ماجہ کر راوی ہیں، اور ابن حجر کی نظر میں ثقہ حافظ، اور ذہبی کی مطابق حافظ ہیں
 
 
ابو نضر کا نام، هاشم بن القاسم بن مسلم الليثى مولاهم البغدادى ہے، اور یہ صحاح ستہ کے راوی ہیں۔ ابن حجر اور ذہبی، دونوں کے نظر میں ثقہ ہیں
 
 
إسحاق بن سعيد کا نام،  إسحاق بن سعيد بن عمرو بن سعيد بن العاص ہے۔ یہ بخاری، مسلم، ابی داود اور ابن ماجہ کے راوی ہیں، اور ابن حجر اور ذہبی دونوں کی نظر میں ثقہ ہیں
 
 
اس مقام پر اس بات کی وضاحت کرتے چلیں کہ سند میں اس مقام پر کتابت کی ایک غلطی ہے
 
سند یوں مذکور ہے
 
حدثنا إسحاق بن سعيد، عن عمرو بن سعيد، حدثني سعيد بن عمرو
 
یعنی اسحاق بن سعید نے روایت لی عمرو بن سعید سے، اور وہ کہتے ہیں کہ سعید بن عمرو نے کہا 
 
مگر اس میں غلطی یہ ہے کہ جیسا کہ ہم نے اسحاق بن سعید کے نام میں لکھا کہ ان کا نام ہے
 
إسحاق بن سعيد بن عمرو بن سعيد
 
یعنی اسحاق کے والد سعید بن عمرو ہیں
 
 
جب ہم اہلسنت کے کتب میں دیکھتے ہیں تو یہ ملتا ہے کہ اسحاق بن سعید کے نام کے ساتھ یہ وضاحت بھی مل جاتی ہے کہ اسحاق بن سعید، ابن عمرو بن سعید ہیں
 
مثال لیں کہ بیہقی نے شعب الایمان میں یوں درج کیا 
 
 
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ، وأبو محمد بن أبي حامد المقرئ ، ومحمد بن أحمد العطار ، قالوا : حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ، حدثنا الحسن بن مكرم ، حدثنا أبو النضر ، حدثنا إسحاقبن سعيد وهو ابن عمرو بن سعيد بن العاص ، عن أبيه ، عن ابن عمر
 
اسحاق بن سعید جو کہ ابن عمرہ بن سعید بن عاص ہیں، ،نے اپنے والد سے، اور انہوں نے ابن عمر (صحابی) سے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
یہاں پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ابن نضر روایت لے رہے ہیں اسحاق بن سعید سے، اور اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ وہ ابن عمرو بن سعید ہیں-
 
 
اسی طرح ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں درج کیا کہ 
 
 
وقد قال الإمام أحمد: حدثنا هاشم -هو ابن القاسم أبو النضر-حدثنا إسحاق بن سعيد -هو ابن عمرو بن سعيد بن العاص-حدثنا سعيد -يعني أباه-عن عائشة؛ أن يهودية
 
اسحاق بن سعید، جو کہ ابن عمرو بن سعید بن عاص ہیں، انہوں نے سعید، یعنی اپنے والد سے روایت لی، جنہوں نے عائشہ سے روایت لی
 
 
یہاں بھی وضاحت موجود ہے
 
 
اب جب اس سند کی طرف دیکھیں تو واضح ہو گا کہ جو سند میں آتا ہے
 
 
 حدثنا إسحاق بن سعيد، عن عمرو بن سعيد، حدثني سعيد بن عمرو
 
 
یہاں پر عن کتابت کی غلطی ہے، یہ اس طرح سے ہے 
 
 
 حدثنا إسحاق بن سعيد بن عمرو بن سعيد، حدثني سعيد بن عمرو
 
 
اب سند بالکل واضح ہے کہ 
 
اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعید اپنے والد سعید بن عمرو سے روایت لے رہے ہیں
 
اب آتے ہیں سعید بن عمرو کی جانب، ان کا نام ہے  سعيد بن عمرو بن سعيد بن العاص
 
یہ بخاری، مسلم، ابی داود، نسائی اور ابن ماجہ کے راوی ہیں۔ ابن حجر کی نظر میں ثقہ ہیں
 
 
اب رہ گئے ابن حاطب، تو یہ صحابی رسول محمد بن حاطب الجمحي  ہیں، اور اس کا ثبوت انساب الاشراف، جلد ۲، صفہ ۲۵۰؛ پر روایت ہے کہ 
محمد بن حاطب جنگ جمل میں مولا علی کے ساتھ تھے، اور مولا نے انہیں ابن حاطب کہہ کر پکارا
 
 
عربی متن یوں ہے


Quote
 
وحدثني عباس بن هشام الكلبي، عن أبيه، عن خالد بن سعيد عن أبيه: عن محمد بن حاطب الجمحي - وكان قد شهد الجمل مع علي - قال: قال لي علي: يا بن حاطب هل في قومك جراح ؟ قلت: أي والله
 

 
 
پس یہ سند صحیح ہے
 
 
خدا برادران ناصر حسین، مرآۃ التواریخ اور الجابری الیمانی کی توفیقات میں اضافہ کرے، آمین
 

No comments:

Post a Comment