السلام علیکم
مسند امام احمد بن حنبل کا شمار اہلسنت کے معتبر ترین کتب میں ہوتا ہے۔ اس کتاب کے بارے میں ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اہلسنت کے علماء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خود ان کے فرزند نے اس کتاب میں روایات کا اضافہ کیا، جو کہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تحریف شدہ ہے۔ اس لنک پر آپ اس بارے میں مزید پڑھ سکتے ہیں
نیز ایک روایت سے پہلے بھی ہم استدلال قائم کر چکے ہیں کہ اس میں تحریف ہوئی
یہ لنک ملاحظہ ہو
آج کچھ اور دلائل آپ کے خدمت میں پیش کرتے ہیں
مسند امام احمد، تحقیق شیخ شعیب الارناؤط، ج 28، ص 195، پر ایک روایت یوں درج کی گئی ہے
16988 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، وَعِنْدَهُ قَوْمٌ، فَذَكَرُوا (1) عَلِيًّا، فَلَمَّا قَامُوا قَالَ لِي: أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَا رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: أَتَيْتُ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا أَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ، قَالَتْ: تَوَجَّهَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَجَلَسْتُ أَنْتَظِرُهُ حَتَّى جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عَلِيٌّ وَحَسَنٌ وَحُسَيْنٌ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ، آخِذٌ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِيَدِهِ، حَتَّى دَخَلَ فَأَدْنَى عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ، فَأَجْلَسَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَجْلَسَ حَسَنًا، وَحُسَيْنًا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ لَفَّ عَلَيْهِمْ ثَوْبَهُ - أَوْ قَالَ: كِسَاءً - ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33] وَقَالَ: " اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي، وَأَهْلُ بَيْتِي أَحَقُّ "
اس صحیح حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ شداد ابی عمار واثلہ بن اسقع سے ملے اور اس وقت کچھ لوگ ان کے پاس تھے۔ وہاں حضرت علی علیہ السلام کا ذکر ہوا ، جب وہ چلے گئے توواثلہ نے ان سے کہا کہ کیا میں تم کو بتاؤں کے میں نے نبی اکرم سے کیا دیکھا؟ تو شداد نے کہا جی ضرور۔ انہوں نے یہ بیان کیا کہ وہ بی بی فاطمہ علیہ السلام کے پاس مولا کا پوچھنے گئے۔ جس پر بی بی نے انہیں کہا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گئے ہیں۔وہ انتظار میں بیٹھ گئے۔ پھر نبی پاک مولا اور امام حسن و حسین کے ساتھ واپس آئے اور انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ پھر نبی پاک نے ان کو چادر میں جمع کیا اور آیت تطہیر کے تلاوت کی، اور کہا کہ یہ میرے اہلبیت ہیں، اور ان کا مجھ پر حق زیادہ ہے
اب اس میں جو اہم بات ہے، وہ یہ ہے کہ جس وقت شداد واثلہ سے ملے، وہاں بس یہی ذکر ہے کہ مولا کا ذکر ہوا
دلچسپ بات یہ ہے کہ امام احمد ہی کی ایک اور کتاب ہے، فضائل الصحابہ۔ اس کی ج 2، ص 577 پر یہی روایت اسی سند کو ساتھ یوں آتی ہے
978 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، نا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، وَهُوَ الْقَرْقَسَانِيُّ، قثنا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا فَشَتَمُوهُ، فَشَتَمْتُهُ مَعَهُمْ، فَلَمَّا قَامُوا قَالَ لِي: لِمَ شَتَمْتَ هَذَا الرَّجُلَ؟ قُلْتُ: رَأَيْتُ الْقَوْمَ شَتَمُوهُ فَشَتَمْتُهُ مَعَهُمْ، فَقَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَا رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟
شداد کہتے ہیں کہ میں واثلہ سے ملا اور ان کے پاس کچھ لوگ تھے، وہاں علی کا ذکر ہوا تو انہوں نے سب و شتم کیا، میں نے بھی ان کے ہمراہ سب و شتم کیا۔ جب وہ چلے گئے تو واثلہ نے پوچھا کہ تم نے اس مرد کو کیوں سب و شتم کیا؟ میں نے کہا کہ میں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ وہ برا بھلا کہہ رہے تھے تو میں نے بھی کہا۔ انہوں نے کہا کہ میں تمہیں بتاؤں کے میں نے نبی پاک سے کیا دیکھا؟۔۔۔۔
یعنی وہی سند، وہی مصنف
مگر مولا علی کو سب و شتم کرنے والے الفاظ کو غائب کر دیا گیا
یاد رہے کہ سب و شتم والی بات مصنف ابن ابی شیبہ، ج 6، ص 370 پر بھی موجود ہے
32103 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى وَاثِلَةَ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ فَذَكَرُوا فَشَتَمُوهُ فَشَتَمَهُ مَعَهُمْ
گویا یہ روایت مسند احمد میں تحریف شدہ حالت میں ہے
اس سے زیادہ دلچسپ روایت کی طرف اشارہ حافظ ابن حجر نے کیا ہے۔ وہ اپنی کتاب فتح الباری، ج 7، ص 4 پر ربیعہ بن امیہ بن خلف کی روایت کا حوالہ دیتے ہیں جو کہ مسند احمد میں ہے۔ اب یہ ربیعہ بن امیہ بنیادی طور پر وہ صحابی تھے کہ جو مرتد ہو گئے تھے۔ ابن حجر لکھتے ہیں
کہ ان ک روایت مسند احمد میں ہے، اور یہ فتح مکہ پر اسلام لائے، پھر حجۃ الوداع پر بھی موجود تھے بعد میں حضرت عمر کے زمانے میں روم چلے گئے۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ ان کی حدیث کی تخریج مشکل ہے اور شاید جنہوں نے اس کو درج کیا ہے، وہ ان کے مرتد ہونے کے ساتھ واقف نہ تھے
عربی متن یوں ہے
وَقَدْ وَقَعَ فِي مُسْنَدِ أَحْمَدَ حَدِيثُ رَبِيعَةَ بْنِ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ الْجُمَحِيِّ وَهُوَ مِمَّنْ أَسْلَمَ فِي الْفَتْحِ وَشَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ وَحَدَّثَ عَنْهُ بَعْدَ مَوْتِهِ ثُمَّ لَحِقَهُ الْخِذْلَانُ فَلَحِقَ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ بِالرُّومِ وَتَنَصَّرَ بِسَبَبِ شَيْءٍ أَغْضَبَهُ وَإِخْرَاجُ حَدِيثِ مِثْلِ هَذَا مُشْكِلٌ وَلَعَلَّ مَنْ أَخْرَجَهُ لَمْ يَقِفْ عَلَى قِصَّةِ ارْتِدَادِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
سوال یہ ہے کہ اس ربیعہ بن امیہ کی روایت مسند احمد میں کہاں پر درج ہے؟
کیا کوئی بتانا پسند کرے گا؟؟؟
No comments:
Post a Comment